تیس سال پہلے انصاف کا جنازہ، اور گمنام چیف جسٹس


کوئی تیس سال پہلے جب ہم نے وکالت کا آغاز کیا، تب انصاف کے جنازے بڑی دھوم دھام سے نکلا کرتے تھے۔ ہماری پولس بے گنا ہوں کو پکڑ کر ان پر سات آٹھ دفعات لگا کر اپنے تئیں کیس مضبوط بناتی تھی اور جس وکیل کی بحث جج صاحب کو قائل کر دیتی، وہی وکیل اپنے موکل کے حق میں فیصلہ لکھ جج صاحب کو تھما دیتا تھا۔ اس وقت پیشہ ور گواہ عدالتوں میں گھومتے اور اپنی خدمات سائلین کو پیش کرتے تھے، اگر کسی سائل کو اپنے کیس کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی گواہ نہ ملتا تو تو ان گواہوں کی مدد لے لی جاتی اور یہ پیشہ ور گواہ حقیقی گواہ سے زیادہ سچے اور پکے ہوتے تھے۔ حق کی کتاب پر ہاتھ رکھے بڑے اعتماد سے وکیل کا رٹایا ہوا بیان دیتے، سچے گواہ ہی وکیل کی جرح کے سے گھبرا کر کچھ کا کچھ بول کر کیس کا بیڑا غرق کر دیتے تھے، اس لیے بعض اوقات سائل اپنے حق کے لیے بھی ان ہی کی خدمات حاصل کرتا تھا۔

اس زمانے میں اگر کسی وکیل کا کیس کمزور ہو تا تو وہ تاخیری حربے استعمال کرتا، ہر پیشی پر اپنے موکل کو کسی عذر کے لیے کیس ملتوی کی درخواست دلوانا، کبھی خود کی کسی مجبوری پر کیس ملتوی کی تاریخ لینا۔ اس زمانے میں یہ بھی ہو تا تھا کہ اگر وکیل نے یہ جان لیا کہ ملکیت کا کیس جھوٹا ہے اور اس کا موکل جائداد پر قابض ہو نا چاہتا ہے، تب وہ جج کے ساتھ مل کر اس کیس کو اپنے موکل کے حق میں فیصلہ کروا لیتا، یوں سب بھا ئی چارے کی مثال قائم کرتے۔

اس زمانے میں دیوانی مقدمات کا فیصلہ، مدعی کے ہمت ہارنے سے مشروط ہو تا تھا، یا پھر مدعی کی نسلیں وراثت میں مقدمے کے کاغذات حاصل کر کے اپنے باپ دادا کی عدالت گردی کی روایت بر قرار رکھتیں۔ آج سے تیس سال پہلے یوں بھی ہو تا تھا کہ اگر کوئی عورت وکیل کے پاس خلع کا مقدمہ لے کر آئی، تو پہلے تو وکیل صاحب ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے اس سے کوئی فیس نہ لیتے، اور جب کیس کی ایک دو سماعتیں رہ جاتیں تو وکیل صاحب اس عورت کو ہر طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے، اور عورت قابو میں آتی نہ دکھا ئی دیتی تو اگلی پچھلی ساری فیسوں کا مطا لبہ کرتے اور پھر اسے یہ تا ثر دیا جا تا کہ اس کا کیس بہت کمزور ہے، اب سائلہ یا تو وکیل کی ناجائز بات مانے یا کیس کسی اور وکیل کے سپرد کرے۔

اس زمانے میں جب بھی کسی نئے جج کی تعیناتی ہوتی تو ریڈر( تاریخ دینے والا ) کو اس کے گھریلو سامان اور گھر کو ڈیکوریٹ کرنے کی فکر لگ جا تی بے چارہ غریب جج یا ریڈر، اپنی جیب سے تو یہ خرچے پو رے کرنے سے رہے، اس لیے من چاہی تاریخ لینے کے لیے سائل کو اس کارِ خیر میں حصہ ڈالنا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں فوجداری مقدمے میں ملزم معمولی کیسز میں بھی تاریخ پر تاریخ ملنے کے سبب اپنے جرم کی دفعہ کے تحت ملنے والی دو، تین یا سات سال سے زیادہ کی قید کاٹ کر عدالت سے با عزت بری ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے میں وکیل کے منشی بھی ایل ایل بی کرنے کے بعد پہلے وکیل اور پھر جج بن جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں جج بننے کے لیے تگڑی سفارش یا پھر کسی جج کا بھا نجا بھتیجا ہونا شرط تھی۔

یہ سب دیکھ کر ہم دس سال بعد ہی تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے، لیکن اب محسوس ہو تا ہے کہ یہ تب کی بات تھی۔ جج صاحبان کا دوسرے اداروں کی بد عنوانی اور کرپشن پر کڑی تنقید سے اطمینان ہوا کہ اب عدالتوں میں وہ سب نہیں ہوتا جو تیس سال قبل ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں جج صاحبان اتنے سوشل نہیں ہو تے تھے، بلکہ خاصے کاہل ہو تے تھے۔ ان کے بیانات ٹی وی تو کجا ریڈیو اور اخبارات میں بھی نہیں آتے تھے۔ کسی اہم کیس کے فیصلے کی بابت کچھ آگیا تو آگیا۔ اسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کی غیر مقبولیت کہہ لیں یا عوام کی جہالت کے اکثریت کو چیف جسٹس کا نام بھی معلوم نہیں ہوتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).