”عمران نے کے پی میں کیا کر لیا“ کا جواب حاضر ہے


حسنین جمال صاحب کی تحریر نظروں سے گزری جس میں انہوں نے بہت سے نکات پر خان صاحب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان میں سے اکثر باتیں خالص سیاسی نوعیت کی تھیں جن پر بات کر کے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا لیکن ان کے ایک نقطے پر جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ ان کی تحریر کی آخری سطر ہے۔

”مسلم لیگ نواز کی جانب سے ابھی کل پرسوں ایک بیان آیا تھا کہ اگر اگلا الیکشن جیت گئے تو فلاں شہر کو لاہور جیسا بنا دیں گے، عمران خان کے پاس ایسا بیان دینے کے لیے کوئی آپشن ہے“

اس سوال کا میں نے انتہائی مختصر سا جواب بنانے کی کوشش کی ہے اور آپ کے پیش خدمت ہے۔

عمران خان کا نعرہ انصاف، میرٹ، صحت، تعلیم اور انسانی ڈویلپمنٹ رہا ہے۔ اور یہی وہ نعرہ ہے جس پر کے پی کے لوگوں نے لبیک کہتے ہوئے خان صاحب کو ووٹ دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم نے تحریک انصاف کی کے پی کے حکومت کی کارکردگی جانچنی ہے تو معیار کیا ہو؟ کارکردگی جانچنے کے ہمیشہ سے ہی دو معیار رہے ہیں۔ یا تو پچھلی حکومتوں سے موازنہ کر لیا جائے یا پھر اس وقت کی باقی حکومتوں سے۔ چونکہ ہمارے پیارے بھائی نے خود ہی پنجاب کی مثال دے دی ہے تو کے پی کے کا پنجاب سے ہی موازنہ کر لیتے ہیں۔

عمران خان کے نعرے کا پہلا پہلو تعلیم ہے اور ان کے منشورمیں تین درجاتی اور تین طبقاتی تعلیمی نظام کی بجائے ایک ہی تعلیمی نظام نافذ کرنا بنیادی پہلو تھا تاکہ مدرسوں، سرکاری سکولوں اور نجی سکولوں کے بچوں میں موجود ذہنی، علمی اور نظریاتی خلیج اور دیوارکو گرا کر ایک قوم بنایا جا سکے۔ اس نظام کو پہلی کلاس سے نافذ ہوئے تین سال ہو چکے ہیں اور مزید سات سالوں میں میٹرک یعنی بنیادی تعلیم تک کا پرانا نظام مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں مدرسوں میں ریفارمز ہوئیں اور انہیں دوسرے سکولوں کا سلیبس پڑھانے پر قائل کیا گیا مگر پنجاب میں ایسا کوئی بھی قدم تا حال نہیں اٹھایا گیا۔

کے پی حکومت کی طرف سے ان تمام بچوں کو سکول لانے کے لیے ماہانہ ایک ہزار وظیفہ کا اعلان بھی کیا گیا جو چھوٹا موٹا کام کرنے کی وجہ سے سکول نہیں جا پاتے تھے۔ سرکاری سکولوں کے نظام کو بہتر کیا گیا جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جہاں پنجاب میں دھڑا دھڑ بچے سرکاری سکول چھوڑ کر پرائیویٹ سکولوں کا رخ کر رہے ہیں وہیں کے پی کے میں چار سال میں دو لاکھ لاکھ سے زاید بچے نجی سکولوں سے سرکاری سکولوں میں آئے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے نیا تعلیمی بل جاری کیا۔ اس بل کے دو بڑے نکات بہت دلچسپ ہیں۔ پٹھان قوم چونکہ ٹیچنگ کے علاوہ باقی تمام شعبوں میں خواتین کی ملازمت کو معیوب سمجھتی ہے لہٰذا خواتین کو ملازمتوں کے مواقع مہیا کر کے انہیں معاشرے کا فعال رکن بنانے کے لیے صوبائی حکومت نے پرائمری تک تمام سکولوں میں صرف خواتین کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ خواتین میں تعلیم کے فروغ کے لیے مستقبل اور حال میں پختونخواہ میں پچھلے چار سال میں بننے والے تمام تعلیمی اداروں میں سے ستر فیصد خواتین کی تعلیم کے لئے وقف کر دیے گے۔

کے پی کے کی تمام یونیورسٹیوں میں قابل وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے ایک بورڈ بنایا گیا جس کے سربراہ ڈاکٹر عطالرحمن ہیں۔ کے پی حکومت نے اس بورڈ کو یہ ذمہ داری بھی سونپی کہ وہ بڑی بین القوامی یونیورسٹیز سے رابطہ کر کے ان کو قایل کرے کہ وہ کے پی میں اپنے کیمپس شروع کریں۔ ڈاکٹر عطالرحمن کے مطابق اگلے چند سالوں میں پانچ کے قریب اچھی شہرت والی بین الاقومی یونیورسٹیز کے پی میں اپنے پراجیکٹس پر کام شروع کر دیں گی۔ دوسری طرف نجاب میں وایس چانسلرز منتخب کرنا وزیر اعلی کی ذمہ داری ہے اور جب ایک نان ٹیکنوکریٹ ٹیکنیکل کام کرے گا تو اس کے نتایج ویسے ہی آیں گے جیسے ہم دیکھ رہے ہیں۔

خیبرپختونخواہ حکومت کی ترجیحات میں ان ہزاروں سکولوں کی بحالی شامل ہے جن کو دھشتگردوں نے دھماکوں سے پوری طرح سے یا جزوی طور پر تباہ کردیے تھے۔ ان میں سے زیادہ سکولوں کی بحالی کا کام مکمل ہو چکا جب کہ کچھ کا ابھی باقی ہے

کے پی میں تمام اداروں پر بڑی تقرریاں میرٹ پر ہوئیں جس سے اداروں میں پروفیشنلزم بڑھی۔ اس کی ایک بڑی مثال کے پی پولیس ہے جس کو غیر سیاسی اور اپنی ڈیوٹی اور ملک سے اتنا مخلص کر دیا گیا کہ چارسدہ اور پشاور کی یونیورسٹیوں میں انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں سے ٹکر لے لی اور انہیں شکست دی، اور وہ بھی اس ملک میں جہاں پنجاب کی ہٹی کٹی پولیس راجن پور کے غنڈوں کے سامنے ہتھیار پھینک کر بھاگ کھڑی ہو اور جہاں سندھ کا آئی جی پولیس یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ جب پولیس کو ہی سیاستدانوں اور حکمرانوں سے تحفظ حاصل نہیں تو پولیس عوام کو کیسے تحفظ دے؟

ایک ایسے ملک میں جہں کوئی طاقت چھوڈنے کو تیار نہیں تحریک انصاف نے مسلسل کوشش سے مرحلہ وار طاقت کو اوپر سے نیچھے شفٹ کرنےکی کوشش کی۔ پہلے تیس فیصد فنڈ بلدیاتی نظام کے ذریعےز ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ہاتھوں سے نکل کر بلدیاتی نمایندوں تک پہنچے۔ اس کے بعد وزیر اعلی سے یونیورسٹیوں کے وی سی لگانے کا اختیار لے کر ایک سلیکشن بورڈ کو دیا گیا اور ابھی کچھ ماہ پہلے پاس ہونے والے نیب بل میں نیب کمیشن کے سربراہ اور ممبران کی نامزدگی کا اختیار بھی وزیراعلی سے لے کر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو دے دیا گیا۔ نیب کمیشن کے متعلق قانون سازی میں تحریک انصاف نے بہت تاخیر کر دی جو شرمناک ہے مگر کم از کم دیر آید درست آید کے مصداق انہوں نے پشاور ہوئی کورٹ کو یہ اختیار سونپ کر ایک اچھی مثال قایم کی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعلی کے صوابدیدی فنڈ بھی ختم کر دیے گیے۔

صحت کے شعبہ میں بھی قابل ذکر ریفارمز کے پی حکومت کے کریڈٹ پر ہیں۔ ہسپتالوں کی گورننس بہتر کرنے سے ڈاکٹرز کی حاضری میں اضافہ ہوا۔ ڈاکٹرز کی تعداد کو تین ہزار سے بڑھا کر نو ہزار کر دیا گیا ہے۔ سرکاری ڈاکٹرز کو ذاتی کلینک چلانے سے روک دیا گیا اور اس کے مقابلے میں سرکاری ہسپتالوں میں شام کے اوقات میں او پی ڈی سروس کا انتظام کیا گیا۔ ڈاکٹرز کی تنخواہوں اور ملازمت پیکج کو بہتر بنایا گیا۔ ہسپتالو٘ں کا انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی اور سہولیات بھی پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں ہسپتال یعنی ہیلتھ کیر سینٹرز بھی تشکیل دیے گیے۔

آسان اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے موبایل کورٹس اور ڈی آر سی کا نطان تشکیل دیا گیا جس سے ہزاروں کیسز کا جلد فیصلہ ممکن ہوا اور لوگوں کے وقت اور پیسہ دونوں کی بچت ہوئی۔ کریمنل کیسز کو جلد نمٹانے، مدعی کو سہولت پہنچانے اور عدالتی نطام کی بہتری کی لیے بھی کچھ عرصہ قبل حکومت نے ایک نیا کریمنل کوڈ تشکیل دیا ہے جس سے آنے والے کچھ عرصے میں عدالتی نطام پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ پنجاب کے عدالتی نطام اور قانون میں کسی بھی قسم کی ریفارمز ابھی تک منظر عام پپر نہیں آ سکی ہیں۔

وفاقی حکومت کی طرف سے صوبائی فنانس مینیجمنٹ ایوارڈ مسلسل کے پی کے حکومت جیت رہی ہے۔ ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق کے پی کے کی چار سال کی مجموعی ٹیکس کولیکشن میں چار سو فیصد اضافہ ہوا جب کہ پنجاب کی گروتھ صرف سو فیصد رہی۔ صوبائی قرضوں میں کے پی حکومت کے قرضہ جات پچاس فیصد کم ہوئے جبکہ پنجاب کے صوبائی قرضوں میں پچیس فیصد اضافہ ہوا۔ بنک آف خیبر بہت عرصے بعد مسلسل منافع میں جا رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کے پی میں ہونے والا کام تحریک انصاف کے منشور کا پچاس فیصد بھی نہیں ہے۔ مزید ہسپتال، سکول اور عدالتیں بنانے کی ضرورت ہے۔ قانون میں مزید بنیادی تبدیلیاں بھی وقت کا تقاضا ہیں مگر یہ کارکرگی ایک ایسی حکومت کے لیے قابل فخر ہے جو پاکستان کے انتظامی طور پر مشکل ترین اور مسلسل جنگ سے تباہ حال صوبے میں پہلی بار اقتدار میں آی اور ناتجربہ کاری کے باعث زیرو سے کام شروع کیا۔ پلداٹ نے دو سال پہلے ایک سروے کیا جس کے مطابق کے پی حکومت سولہ، پنجاب حکومت سات اور سندھ اور بلوچستان حکومت ایک ایک شعبے میں نمبر ون رہیں۔ یہ سروے اس وقت کیا گیا جب کے پی حکومت منصوبہ بندی کے پراسیس سے گزرنے کے بعد عملدرآمد کے پہلے مرحلے میں تھی۔ اگر ابھی ایسا کوئی بھی سروے کیا جائے تو کے پی حکومت کی کارکردگی مزہد بہتر ہو جائے گی۔


عمران خان صاحب، لوگ تھک چکے، میڈیا تھکنے والا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).