گُلّاں ماچھی اور میہر بھگیو کا معاشقہ، سندھی وڈیرے اور منو بھائی


لاڑکانہ کے ایک نواحی گاؤں نئی گڈ کا فیضو ماچھی پیشے کے لحاظ سے مستری تھا۔ گاؤں میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے اس کی زندگی بڑی مشکل سے گزر رہی تھی۔ گاؤں میں یا تو مفت میں وڈیروں کی بیگار میں کام کرںا پڑتا تھا یا پھر کام کی تلاش میں مارا مارا پھرنا پڑتا تھا۔ اس لیے فیضو نے فیصلہ کیا کہ اپنے خاندان کی ترقی و خوشحالی کے لیے وہ کیوں نہ سعودی عرب کا رخ کر لے۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے جانور بیچ ڈالے۔ اور باقی پیسے اپنے گاؤں کے ایک بھگیو قبیلے کے فرد سے سود پر لے کر کے ایک ایجنٹ کے ذریعے سعودی عرب ویزٹ ویزے پر سعودی عرب چلا گیا۔

وقت گزرتا رہا۔ فیضو ماچھی کی گھر والی گُلّاں ماچھی کا اپنے پڑوسی میہر بگھیو سے آنکھ مٹکا شروع ہو گیا۔ وہاں فیضو ماچھی چوری چھپے سعودی عرب میں پیسے کما کر گھر والوں کو بھیج رہا تھا اور یہاں دیکھتے ہی دیکھتے گُلّاں ماچھی معاشقہ پورے گاؤں میں مشہور ہونے لگا اور وقت ایسا تیزی سے گذرتا گیا کہ برسوں کے گزرنے کی خبر ہی نا ہوئی۔

ایک دن کسی رشتے دار نے خط کے ذریعے فیضو ماچھی کو اس کی بیوی گُلّاں کی پوری داستان لکھ بیھجی۔ ایک دن اچانک ہی فیضو ماچھی اپنے گاؤں نئی گڈ واپس آ گیا۔ اور اگلی صبح گاؤں میں خبر پھیل گئی کہ فیضو ماچھی رات بجلی کے کرنٹ لگنے سے فوت ہو گیا ہے۔ جب گاؤں والوں اور رشتے داروں نے دیکھا تو فیضو کے گلے اور پاؤں پر رسیوں کے نشانات موجود تھے۔ پولیس کو فیضو کی بیوی گُلّاں ماچھی نے بیان دیا کہ فیضو رات کو بجلی ٹھیک کر رہا تھا تو اسے کرنٹ لگ گیا اور وہ چارپائی ہر گرا اور چارپائی کی رسیوں میں پھنس گیا۔ جب پولیس کی تحقیقات شروع ہوئیں تو پتہ چلا کہ فیضو ماچھی کو گُلّاں ماچھی نے اپنے عاشق میہر بھگیو کے ساتھ مل کر گلا گھونٹ کر مارا اور اس کے مرنے کے بعد اس کو بجلی کا کرنٹ لگایا اور رسیوں کے نشان بنائے تاکہ لوگوں کو کہانی سنائی جا سکے۔

اس کے بعد گُلّاں ماچھی اور میہر بگھیو کچھ دن جیل میں قید رہے اور بعد میں پیسے اور سرداروں کی طاقت سے باہر نکل آئے۔ اور ایسا لگا کہ جیسے بیچارے فیضو ماچھی کا قتل ہوا ہی نہیں تھا۔ بعد میں گُلّاں ماچھی اور میہر بگھیو شادی کر کے اسی گاؤں میں رہنے لگے۔ فیضو ماچھی کے غریب رشتے دار چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر پائے کیوں کہ بھگیو خانداں کے آگے ایک غریب ماچھی کی کیا اوقات تھی۔

اب بھی روزانہ کے حساب سے سندھ کے شہروں اور گاؤں میں وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور طاقتور طبقات کے خلاف احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔ آج کل میہڑ شہر میں چانڈیو برادری کے افراد کے قتل کی شدید مذمت کی جا رہی ہے کیونکہ ایک چانڈیو سردار پر اپنے قبیلے کے لوگوں کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

کسی زمانے میں پورے سندھ میں میہڑ شہر کی مہندی اور مائو (کھویا) مشہور تھا اور جیسے جیسے میہڑ کی مہندی کا رنگ بے رنگ ہوتا گیا ویسے ویسے قتل و غارت کی وجہ سے خون کی سرخی بڑھتی گئی۔ کبھی تو یہ سردار اور وڈیرے کسی کی زمین و جائیداد ہڑپ کرنے کے لیے لوگوں پر کارو کاری کا الزام لگواتے ہیں تو کبھی ان کو دن دہاڑے مار دیتے ہیں۔ ظلم و زیادتی دیکھنے والے لوگ اندھے اور بہرے بن جاتے ہیں۔ کوئی گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا کیوںکہ اگر کوئی ایسا کرے تو اگلی باری اس کے خاندان کی ہوتی ہے۔

یہ وہی میہڑ شہر ہے جہاں ایک پڑھے لکھے بینک مینیجر ایاز حسین ناریجو اور ملائیشا سے آنے والے نوجوان غلام محی الدین کو دن دہاڑے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا اور آج بھی ان کے قاتل ایسی ہی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ آج بھی لاڑکانہ کے صحافی شان ڈھر اور اس جیسے سینکڑوں بے گناہوں کے اصل مجرموں کو کوئی نہیں پکڑ سکا ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ قاتل کون ہے مگر زبان پر نام کوئی نہیں لائے گا۔ اور اگر فرض کریں کہ قاتل پکڑے بھی جائیں تو تھانہ کچہری ان کے ہی دم سے چلتی ہے اور ہر چیز پیسے سے خرید لی جاتی ہے چاہی پھر وہ قاضی ہو یا پولیس۔

سندھ کی کیٹیوں، جاگیروں اور زمینوں کے ان وڈیروں کو انگریز سامراجی اپنے ساتھ وفاداری کے بدلے میں جاگیریں عطا کر گئے تھے۔ آج یہ جاگیردار اور وڈیرے اپنے ان آقا انگریزوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ انگریز تو چلے گئے مگر ان کے دیے ہوئے یہ تحفے ہم پر آج بھی مسلط ہیں۔ اگر ان جاگیرداروں، وڈیروں اور شاہوں کے گھر، بنگلے، اوطاقیں اور زمینوں کو کھودا جائے تو ان میں سے کئی بے گناہوں کی اجتماعی قبریں ملیں گی جن کے ماتھے یہ لکھا ہوگا کہ جنگل کے بادشاہ سے ٹکر لینے کا نتیجہ صرف اور صرف موت ہے۔ کیوں کہ پولیس، بیوروکریسی، کچہری اور قلم کو بیچنے والے صحافی سب ان کے جیب میں ہوتے ہیں اور یہ سب کبھی بھی ایک دوسرے کے جرم کی گواہی نہیں دیں گے

منو بھائی نے کیا سچ کہا تھا

“احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر

چوراں ڈاکواں قاتلاں کولوں کی پچھدے او

چوراں ڈاکواں قاتلاں بارے کی پچھدے او

او کی دسن گے، کیوں دسن گے

دسن گے تے، جس طرح وسندے نے کنج وسنڑ گے

۔۔۔۔ ۔۔۔۔

ساڈے ویڑے لاشاں وچھیاں، ساڈی عزتاں لٹیاں گیناں

اسی ویچارے زخمی ہتھاں دے نال

انصافاں دے بوہے نوں کھڑکاندے رہ گئے

ان کاواں کتیاں کولوں اپنے زخم چھپاندے رہ گئے

درداں کولوں لئو شہادت، زخماں تو تصدیق کرا لئو

ساڈے ایس مقدمے اندر سانوں وی تے گواہ بنڑا لو “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).