یہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے


 \"ibarhimاسلام آباد میں ہزاروں لوگوں کو داخلے سے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ وہ کون سی قوت تھی جو ان کو پارلیمنٹ تک پہنچنے کا راستہ ہموار کر رہی تھی؟ محترم رضی الدین رضی کے ملین ڈالر کے سوال یقیناً جواب چاہتے ہیں۔ ان سوالات پر کچھ لکھنے سے پہلے آئیے اسلام آباد کا کچھ نظارہ تو کرلیں اور تھوڑی سی منظرکِشی وہاں کی کرلی جائے جہاں ہر وقت نعرے بازی، گالیاں، اور وہ کچھ سننے کو مل رہا ہے جو نہ کبھی دیکھا گیا نہ سنا گیا۔ وہ مقام بھی دیکھ لیا جائے جہاں ان کا گھیرا ہے جو خود کو اعلیٰ، متقی، پرہیزگار، پارسا، نیک، مذہب کے حقیقی پیروکار اور دین کے سچے سپاہی سمجھتے ہیں اس کے علاوہ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وھ جس کو جب جہاں چاہیں کافر، مرتد اوراس قسم کے کئی لقب القاب سے نواز دیتے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت کا یہ راستہ جس پر ان مشتعل لوگوں نے تین دنوں سے قبضہ کر رکھا ہے وہ راستہ پہلے شاہراہ دستور اور پھر شاہراہ جمہوریت کہلاتا ہے۔ یہ ہی وہ راستہ جس پر ملک میں پارلیامانی جمہوریہ نظام کی عکاس پارلیمنٹ ہے اور ان ایوانوں کی رونق آئین اور قانون سازوں سے ہی ہوتی ہیں۔ جمہور کی شاہرہ کہلانے والا یہ راستہ ہی جہاں سے ایوان عدل کے منصف گذر کر انصاف کے اعلیٰ مسندوں پر براجمان ہوتے ہیں اور وہیں بیٹھ کر انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پرحکومتی سربراہ عوام کے ووٹوں سے منتخب قائد پارلیمنٹ اور ملک کے چیف ایگزیکیٹو یعنی وزیراعظم کا دفتر ہے اور اسی راستے پر تھوڑا پیحھے ریاست کے سربراہ رہتے ہیں، ملک میں بسنے والے عوام کی نمائندہ حکومتیں قائم کرنے کے انتخابی نظام کا آئینی ادارہ الیکشن کمیشن بھی تو یہاں ہی ہے۔ ملکی نظام چلانے کے لئے وفاقی سیکرٹریٹ بھی ادھرکو لگتی ہے، وسائل کا حساب کتاب کرنے اور وحدتوں سے لین دین کرنے والا ادارہ ایف بی آربھی تو یہیں پر ہے اور تو اس دھرنے والوں کے ہی پرزور اصرار پر جنرل ضیاالحق کی بنائی ہوئی وفاقی شرعی عدالت پر بھی تو سامنے ہی ہے اس کے ساتھ کئی دفاتر اور بھی ہیں کس کس کو گنا جائے۔ اس دھرنے کی آڑ میں کئے گئے گھیرے کی وجہ سے کیا مسائل درپیش ہیں؟  اگر وہ لکھنا بیٹھیں تو یہ یقین ہو چلتا ہے کہ واقعی یہ دوڈھائی ہزار بندے ان بندوں اتنی ہی طاقت رکھتے ہی جو دو ٹرکوں میں آ کر سارے جمہوری نظام کو تھس نھس کر دیتے ہیں۔ اور جس کے لئے جمہوریت مخالف یہی کہتے ہیں کہ یہ نظام ایک ٹرک کی مار ہے۔

اس دھرنے کے اثرات بھی پرانے دھرنے جیسے ہی نکلے ہیں۔ اسلام آباد کی سطح پرمقامی آبادی، ملازمین، ججز، وکلا، سائلین، وزرا، پارلیامینٹرینز پریشان ہیں۔ انتظامی مشینری مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ وفاق کے چہرے کو مسخ کرنے کوشش کی جا رہی ہے۔ پارلیامینٹرینز کی رہائش گاھ پارلیمنٹ لاجز سے سینیٹ اور اسیمبلی ممبر باہر نکل کر پارلیمنٹ ہاؤس نھیں پہنچ سکتے اور اسی وجہ سے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیز کے تمام اجلاس ملتوی کرنے پڑگئے۔ سائلین عدالت اعظمیٰ میں نھیں آ سکتے، وکلا کو آنے کے لئے کئی چوکیاں عبور کرنا پڑتی ہیں جج صاحبان متبادل راستے اختیار کرکے کورٹ پہنچ رہے ہیں اور پھر ریڈر مقدمہ کی آواز لگاتے ہیں اور عدم پیروی پر سماعتیں ملتوی ہوتی جاتی ہیں، سرکاری ملازمین کی اکثریت اس لئے دفتروں سے غائب ہے کہ ’’ جانے کون کسے ماردے کافر کہہ کر، شھر کا شھر مسلمان ہوا پھرتا ہے ‘‘۔

اب آئیے یہ بھی دیکھیں کہ یہ حکومتی عملداری ان بااصول مذہبی لوگوں کے پیروں کے نیچے کب دی گئی؟ اس کی ٹائمنگ اہم اس لئے ہے کہ وزیراعظم محترم کو ان دنوں امریکا کا دورہ کرنا تھا وہاں پر نیوکلئیر کانفرنس میں شرکت اپنی جگہ اہم تھی لیکن اس سے جڑی بھارتی وزیراعظم نرندر مودی سے ملاقات بھی تو غیر معمولی تھی۔ اس دورے اور ملاقاتوں کو ایران کے صدر محترم کے پاکستان کے دورے سے منسلک کرکے کچھ حلقے کہتے ہیں کہ ایران کے صدر کے دورے کو غیر اہم کرنا اور پاکستان کے وزیراعظم کو امریکی دورے سے روکنا ایک ہی سلسلے کی کڑی ہے۔ اور یہ سب اس سلسلے کی کڑی بھی کہا جا رہا جب چین کے صدر کا دورہ منسوخ کرانے کی سازش کی گئی تھی۔۔

محترم رضی الدین رضی صاحب کے ان سوالوں کے کچھ جوابات دینے کی اگر کوشش کی جائے تو وہ اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس ٹولے کو پارلیمنٹ کا راستہ دکھانے والا کبھی بھی پارلیمنٹ کا حامی اور جمہوری نظا م کا چاہنے والا جمہوریت پسند نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں مختلف ناموں سے یہ ٹولے جمہوری نظام کے خاتمے کے لئے اور اس کے بعد آمریتوں کو مستحکم کرنے کے لئے اپنی خوشی سے استعمال ہوتے رہے ہیں اور ان کے عیوض اچھی خاصی رقم بھی بٹورتے رہے ہیں اور ان غیرجمہوری قوتوں نے جب چاہا ان کو استعمال کیا، گلے لگایا اور ان کو آسمان پر بٹھا دیا گیا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ قابل نفرت سیاست اور سیاستدانوں کو سمجھ گیا اوہر دور میں سب سے معتبر، قابل عزت، قابل ستائش اور قابل احترام وہ رہے جو اس وقت حکومت کے س ساتھ اس جمہوری نظام کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ وہی ہیں کہ جن سے جڑا ایک دھڑا لاہور جیسی وحشیانہ دھشتگردی میں ملوث ہے اور دوسر ا ان راستوں پر بیٹھے غلاظت پھیلا رہے ہیں جن راستوں کے نام جمہوریت اور دستور سے جڑے ہوئے ہیں اور ان سے جمہوری نظام کو کمزور کرنے کا کام لیا جارھا ہے۔ ان سب باتوں کو ملا جلا کر اگر کوئی جواب دے کہ ان کو اسلام آباد میں داخلہ دے کر حکومت کو پریشان کرنے کی اجازت انھوں نے دی ہے جو ہر سویلین حکومت کو پریشان اور نیچا دکھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں؟

 

 

 

 

 

 

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments