“عمران نے کے پی میں کیا کر لیا”؟ جواب کا جواب حاضر ہے!


محترم شاہد خان صاحب نے حسنین جمال صاحب کے اک مضمون کے جواب میں عین سنت عمرانی کے اصولوں کے مطابق اپنا شور مچاتا بیانیہ ہم سب کے ذریعہ پڑھنے والوں کے سامنے رکھا۔

شاہد صاحب کے مضمون میں کل تیرہ پیراگرافس اور چودہ سو باون الفاظ ہیں۔ ان تیرہ پیراگرافس اور چودہ سو باون الفاظ میں معلومات پر مبنی الفاظ کی کُل تعداد سینتالیس ہے، باقی نفسِ مضمون وہی ہے جو عین سنتِ انقلابِ انصاف ہے: دائیں بائیں کے دعوے اور پنجاب پر تنقید۔

تحریک انصاف اک بڑے وعدے کے ساتھ میدانِ سیاست میں آئی تھی۔ سنہ 1997ء میں اس کا قیام بلاشبہ اک نرم انقلاب کی حمید گُل چاہت کا اک بڑا نسیم انور بیگ معجزہ تھا جو تقریبا اگلے چودہ برس زیرزمین ہی رہا حتی کہ اکتوبر 2011 میں پاکستانی الیکٹرانک میڈیا اک دم مہربان ہوا، اور سیاسی اعتماد، بلکہ انقلابی زعم کی اک ایسی فضا قائم کر دی کہ جنابِ عمران خان صاحب نے محترمی حامد میر صاحب کے پروگرام میں لکھ کر دیا کہ تحریک انصاف 2013 کے الیکشن سویپ کرے گی، اور الیکشنز سے قبل اپنے صاحبزادوں کو ملکہ کے دیس میں یہ بتا کر آئے کہ اگلی مرتبہ تم پاکستان آئے تو تمھارا باپ پاکستان کا وزیر اعظم ہو گا۔

پاکستانی میڈیا نے اک ایسی فضا قائم کر ڈالی کہ جس کی بنیاد پر اس کو مانیٹرنگ کرنے والے مغربی میڈیا نے بھی محترمی عمران خان صاحب کو ہی اگلا وزیر اعظم دیکھنا، سمجھنا اور کہنا شروع کر دیا۔ مؤرخہ چوبیس جنوری (2012) کو پاکستان ٹوڈے کی اک خبر کے مطابق، سی این این نے تو انہیں وزیر اعظم کہہ ہی دیا تھا۔ بلاشبہ، اکتوبر 2011 سے جنوری 2012 کے ان تین مہینوں میں پاکستانی میڈیا کی کرامات بےشمار تھیں کہ ان کے پیچھے بھی نظر نہ آنے والے سبز پوش روحانی بابے تھے جو 1965 میں وزیر آباد کے پل پر تو بھارتی بم کیچ کرتے رہے مگر اس کے بعد سے آج تک چھٹی پر ہیں۔ ماہنامہ حکایت کے عنایت اللہ مرحوم بھی کیا کیا اعلیٰ روحانی و دفاعی و تاریخی ادب تخلیق کر گئے۔ اللہ اکبر!

محترم شاہد صاحب کے مضمون کا دوسرا پیراگراف عمران خان صاحب کے نعرہ، انصاف، میرٹ، صحت، تعلیم اور انسانی ڈیویلپمنٹ سے شروع ہوتا ہے۔

انصاف کی بات کر لیتے ہیں۔ فرنٹئیر پوسٹ کی 31 دسمبر 2017 کی اک رپورٹ کے مطابق صوبہء انصاف کی لوئر کورٹس میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مقدمات التواء کا شکار ہیں۔ گو کہ یہ مقننہ نہیں، عدلیہ کا معاملہ ہے، مگر صوبائی مقننہ کی جانب سے اس پر کوئی قرارداد، کوئی ایکٹ یا کبھی کوئی بحث ہوئی ہو کہ جس کے بطن سے اک مثبت قدم اس جانب اٹھایا گیا ہو جس سے ان مقدمات کے نمٹانے کی جانب کوئی حرکت شروع ہوئی ہو؟ صوبائی اسمبلی کی کارروائیوں کا اک سرسری جائزہ لیا تو وہاں اس معاملہ پر خاموشی ملی۔

پھر صوبہء میرٹ میں میرٹ کی بات کر لیتے ہیں۔ جلدی میں کچھ گوگل کیا تو معلوم پڑا کہ محکمہء تعلیم میں میرٹ کی صورتحال پتلی ہے۔ بزنس رکارڈر کی 19 اکتوبر 2017 کی اک خبر کے مطابق، صوبہء میرٹ کی حکومت کے شعبہء تعلیم نے نیشنل ٹیسٹنگ سروسز کے سسٹم تک کو چُونا پھیر کر مرضی کی تقرریاں کر لیں۔ صوبہ میں معدنیات کی کانوں کے ٹھیکوں میں نااہل ہو جانے والے محترم جہانگیر ترین صاحب کے نام کی گونج ہے۔ پبلسٹی کے معاملات میں جنابِ فیصل جاوید صاحب کے ذاتی اثر و رسوخ کی دھومیں ہیں (ڈان، 20 دسمبر 2016)۔ بینک آف خیبر کے سربراہ کے معاملات پر تو میرٹ کا ڈھول مریخ پر بھی سنائی دیتا ہے، اور پھر PEDO کے محترم سربراہ کو بچانے کی خاطر صوبائی حکومت اپنے ہی بنائے ہوئے قانون میں تبدیلی کا سوچ رہی تھی (اگست 2017)۔

میرٹ کے ساتھ ساتھ شفافیت کی ہوش ربا داستانیں سننا ہوں تو صوبائی احتسابی نظام کے سابقہ ڈی جی، جنرل ریٹائرڈ حامد صاحب کے انٹرویو ہی چودہ طبق روشن کر ڈالیں گے۔ جنرل حامد صاحب نے اپنی پوزیشن سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دیا کہ اپنے ہی بنائے جانے والے قانون میں صوبائی حکومت نے احتساب کمشن اور اسکے سربراہ کی آزادی سے کام کرنے پر قدغنین لگا دیں تاکہ احتسابی معاملہ، جو بنیادی طور پر انتظامیہ اور عدلیہ کا اک مکسچر ہے، میں صوبائی حکومت کے انتظامی معاملات کے دائرہ اختیار میں اضافہ ہو سکے۔ اب اس دائرہ اختیار میں اضافہ کا فائدہ مجھ پنجابی کو تو ہونے سے رہا۔ کسے ہوگا، اس پر آپ خود ہی ذہن کے گھوڑے دوڑا لیجیے۔

صوبہء صحت میں صحت کا انصاف پروگرام پر ڈان کے تجربہ کار رپورٹر اسمعٰیل خان صاحب نے شروع میں ہی عمدہ رپورٹنگ کی بنیاد رکھی۔ صبح دوپہر شام ایسے معاملات میں دوسری حکومتوں پر تنقید کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت نے تقریبا چوبیس کروڑ روپے اشتہاری مہم پر خرچ کیے اور پھر تقریبا پونے دو ارب روپے کے صحت کے اک پراجیکٹ کو حاصل کرنے اور اسکی بندر بانٹ کے لیے پارٹی میں گروہ سرگرم تھے۔ باقی کے پی کے شعبہ صحت کی کارکردگی حال ہی میں ہونے والی ڈینگی بخار سے اموات سے ہی ظاہر ہے جس پر عمران خان صاحب نے اپنی نوحاصل شدہ روحانیت پر بنیاد کرتے ہوئے اک ارشاد فرمایا تھا کہ سردی آئے گی اور ڈینگی ختم ہو جائے گا۔ یہ کہتے وقت وہ پہاڑوں پر وزیراعظم بننے کے لیے مقیم تھے، مگر ان کی بات درست ثابت ہوئی۔ سردی آئی، ڈینگی ختم ہو گیا۔ جاتے جاتے درجنوں زندگیاں مگر ساتھ لے گیا۔ پیرِ انقلاب کی بات سچ ثابت ہونے پر “جئے عمران، حق عمران” کا اک نعرہ تو بنتا ہے، بہرحال۔

پولیس میں انقلاب کا دیکھنا ہو تو مردان میں عاصمہ بیٹی کے قتل کا اک مقدمہ چیلنج ہے جس میں تحقیق کے لیے فنی تعاون کے لیے صوبائی حکومت نے پنجاب سے رابطہ کیا ہے۔ پھر کے پی کے ہی ٹریفک وارڈن کی اک لات ہے جو اک بزرگ شہری کی پیٹھ پر جا لگنے کی ویڈیو موجود ہے۔ مردان میں اک بپھرے صوبائی وزیر کے سامنے پولیس والے ہی بھیگی بلی بن کر کھڑے ہو کر صلواتیں سماعت فرما رہے ہیں۔ داور کنڈی صاحب نے برہنہ کرکے گھمائی جانے والی بشریٰ بیٹی پر آواز اٹھائی تو انہیں پارٹی سے نکال باہر کیا گیا کہ اصل جیت گنڈاپوری ( بلیک لیبل شہد والے) کے مقدر میں ہی تھی۔

دنیا نیوز دسمبر 2015 میں پولیس اور صحت کے شعبوں کو کرپٹ ترین کہہ چکا ہے، تقریبا ڈھائی ہزار ملین روپوں کی کرپشن کے معاملات سامنے آئے۔

تعلیم کے شعبے میں اگر اتنا انقلاب آ چکا ہے تو محترم جناب صوبائی وزیرتعلیم کے بچے کہاں پڑھتے ہیں، اس پر اک چھوٹی تحقیق تو بنتی ہے، اور خود پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی میں سے کتنوں کے بچے جدید انقلابی سکولوں میں جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب سب کو معلوم ہو گا۔ مزید معلومات کے لیے پاکستان ٹوڈے کی اک رپورٹ ہے 15 دسمبر، 2017 کی، استفادہ کر لیجیے، دوستو۔

ٹیکس کی کولیکشن پر شاہد صاحب نے چارسو فیصد اضافہ کا نعرہ مارا۔ جناب سے درخواست ہے کہ دی فرائیڈے ٹائمز میں اسد احمد کی 12 جنوری، 2018 کی اک رپورٹ ہے۔ پڑھ لیجیے۔ پچھلے پانچ سالہ دورحکومت میں پنجاب اور سندھ میں ٹیکس کولیکشن 40 فیصد بڑھی۔ کے پی میں یہ شرح 25فیصد رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ کے پی حکومت پرکشش ٹیکس ہدف رکھتی ہے، مگر پھر ڈرامائی طریقے سے ناکام بھی ہو جاتی ہے۔

بلدیاتی نظام کی کامیابی کے دعوے، مقامی سطح پر منتخب شدہ لوگوں کے احتجاج سے ثابت ہیں جو انہوں نے کئی مرتبہ مسلسل بنی گالہ میں قصرِعمرانی کے سامنے کیا۔ یہی کام اساتذہ اور کلرک بھی کر چکے ہیں۔ کے پی میں چند اک چھوٹے شہروں کا دورہ، اس نظام کی عظیم کامیابی پر کافی چشم کشا تجربہ فراہم کر دے گا۔ بسم اللہ کیجیے جناب۔

سیاست و ریاست سازی سنجیدگی اور علم مانگتے ہیں۔ تحریک انصاف نے پینتیس پنکچروں، ایم آئی کے بریگیڈئیر، دھرنے، شٹ ڈاؤن ٹو ری-بلڈ سے بعد از الیکشن اپنے سفر کا آغاز کیا، اور پھر یاوہ گوئی کے اس رستے پر شہسوار ہی رہی۔ محترم شاہد صاحب کی حسن نیت انہیں بہت مبارک ہو اور مجھے ان کا دلی احترام بھی ہے، مگر کیا کیجیے کہ نامراد فیکٹس اور فگرز کسی اور جانب ہی اشارہ کرتے ہیں۔

بطور اک سیاسی جماعت، تحریک انصاف کو بھرپور حق ہے کہ وہ اپنی سیاست کرے، اور میں بطور پاکستانی شہری، تحریک انصاف کے اس سیاسی و آئینی حق کے دفاع میں سب سے پہلے کھڑا ہوں گا، مگر میڈیائی شہرت کی لہر کی بلندی پر تیرتے ہوئے تحریک انصاف اور اس کے رہنماؤں کو سوچنا چاہیے کہ وہ حقائق کس حد اور کب تک چبا کر باہر تُھوک سکتے ہیں، اور میڈیا والے دوست کب تک اس تُھوک کو بخوشی و رضا چاٹ کر، عوام کو بھی چاٹنے کی دعوت دے سکتے ہیں؟ عوام نے تو ضمنی انتخابات میں کثرت رائے سے تُھوک چاٹنے سے انکار کیا ہے۔ اس پر تحریک کو سنجیدہ اور مدبرانہ غور کرنا چاہیے، جس پر عمران خان، یقینا زمانہ حاضر کے بقراط شیخ رشید صاحب سے مشورہ لے سکتے ہیں۔

پس تحریر: اس سلسلہ میں کسی بھی رائے پر میں مزید تحریر نہیں کروں گا۔ باقی شاہد صاحب سے درخواست ہے کہ میرے بیانیہ کو مہذب سیاسی اختلاف ہی جانیں گو کہ ٹائیگرز اور ٹائیگریسز سے گالیاں کھانے کا پرانا تجربہ ہے۔ اگر یہ تجربہ خادم کو دوبارہ ہوا تو شاہد صاحب اس کی تلخی تازہ ترین ولیمہ ( جی ہاں وہی شادی کی خبر، تجویز بذریعہ معرفت والا ولیمہ) کے میٹھے چاول بھجوا کر کم کر سکتے ہیں۔ شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).