لڑکی کے اچھے نصیب سے آپ کی کیا مراد ہے؟


پاکستان میں لڑکیوں کو ان کی شادی ہونے تک نیک نصیب کی دعا دی جاتی ہے، یہ نیک نصیب مل جائیں تو جلد از جلد گود ہری ہونے کی دعا دی جاتی ہے۔ اس دعا کو قبول کروانے کے لیے ہر چکر پر خوشخبری کا بھی پوچھ لیا جاتا ہے، اگر خوشخبری نہ ملے تو کسی ڈاکٹر کا اتا پتا بھی بتا دیا جاتا ہے۔ انہی دو دعاؤں میں ہماری لڑکیوں کی زندگی نبٹ جاتی ہے۔ جب ان کے نصیب بھی انہیں مل جاتے ہیں اور گود بھی ہری ہو جاتی ہے تب یہ دوسری لڑکیوں کو یہی دعائیں دینے لگ جاتی ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

کچھ دن پہلے ایک خاتون کا پیغام موصول ہوا، نوکری کی تلاش میں تھیں۔ نوکری کا سبب پوچھا تو بتانے لگیں کہ کچھ ماہ پہلے شوہر نے طلاق دی ہے، اب وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ اپنے والدین کے گھر رہتی ہیں۔ بھائی کب تک بوجھ اٹھائیں گے یہی سوچ کر نوکری ڈھونڈھ رہی ہیں۔

ان کی کہانی روایتی معلوم ہوتی ہے۔ والدین نے بس ایف اے تک تعلیم دلوائی کیونکہ تعلیم کو وہ عورت کا نصیب نہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے بھی تعلیمی میدان میں بس واجبی سی کارکردگی دکھائی۔ کھانا پکانا، سینا پرونا انہیں خوب آتا تھا۔ والدین نے کچھ سال بعد شادی کر دی، شادی کے بعد والدہ ماجدہ نے انہیں الگ گھر کے مشورے دینے شروع کر دیے۔ اب شوہر کی اتنی تنخواہ نہ تھی تو بی بی لڑ جھگڑ کر اپنے والدین کے گھر واپس آ گئیں۔ ایک سال تک یہ اینٹھن جاری رہی اور جب معاملہ کسی صورت نہ سلجھا تو شوہر نے انہیں طلاق دے دی۔ بچے ان کے ساتھ آگئے کہ بچوں کے بغیر عورت ادھوری ہے۔ شوہر کوئی خرچہ نہیں بھجواتا کیونکہ وہ خود اب تک اپنے اخراجات کے لیے اپنے والد پر انحصار کرتا ہے۔

پہلے مہینے تو ان کی ماں نے بہت خیال رکھا، آہستہ آہستہ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگیں۔ تھوڑ وقت اور گزرا تو آنے جانے والوں کے آگے خرچے کے رونے رونے لگیں۔ تب انہیں نوکری کا خیال آیا، گھر سے باہر نکلیں تو پتا لگا کہ دنیا تو اکیسویں صدی میں کھڑی ہے جہاں اچھی نوکری کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں بس ایف اے کی ڈگری ہے۔ تھوڑی مشقت کے بعد انہیں ایک چھوٹی سی نوکری مل گئی ہے جس سے ان کا اور ان کے بچوں کی مناسب گزر بسر ہو رہی ہے۔ اب جب کہ ان کی والدہ دوبارہ سے ان کے نصیب کھلنے کا انتظار کر رہی ہیں یہ اپنی بیٹی کا نصیب جگانے کے لیے اسے سکول داخل کروا رہی ہیں کیونکہ اپنی آدھی زندگی یہ جسے نصیب سمجھتی رہی اب انہیں پتا لگا کہ وہ ان کا نصیب نہیں تھا، ان کی بیٹی کے ساتھ ایسا نہ ہو اس لیے انہوں نے اب اپنے گھر کے لیے نصیب کی تعریف بدل لی ہے۔

یہ صرف ایک عورت کی کہانی نہیں ہے، ایسی لاکھوں خواتین ہیں جو اکثر تنہائی میں یہ سوچتی ہیں کہ کیا بس یہ ان کا نصیب تھا؟ اس سے آگے ان کے لیے کچھ نہیں لکھا گیا؟ یہ خواتین اس انتظار میں ہیں کہ کوئی اٹھے اور لوگوں کو بتائے کہ ان کا نصیب بس ایک مرد نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں آگے ہے۔ یہ مرد ان کی زندگی کا ساتھی ہو سکتا ہے مگر اسے ان کا نصیب نہیں سمجھنا چاہئیے۔ یہ بات جب ہم سمجھ لیں گے تب ہماری بیٹیوں اور بہنوں کی زندگیاں خوشیوں سے بھر جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).