اکوڑہ خٹک کے مجلہ الحق کی سائنس اور تاریخ پر مزاح سے بھرپور تحقیق


علمائے دیوبند میں بہت سے با کمال لوگ گزرے ہیں۔ ان کی باتیں پڑھ کر لطف آتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ بانیان دیوبند کے جانشینوں نے فروعی اور فرقہ وارانہ معاملات کو اساسی حیثیت دے کر دیوبند کے اصلاحی مشن کی رہی سہی کسر نکال دی۔ رسالہ الحق کے ترتیب وار مطالعہ سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔

ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک کے کئی شمارے پڑھے۔ سن ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں رسالہ کی توجہ خالص اسلامی مضامین پر تھی۔

ان دنوں ڈاکٹر فضل الرحمان کی جدیدیت کا شور تھا۔ الحق کے مدیر سمیع الحق صاحب اور ان کے دوستوں نے ڈاکٹر صاحب کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ سود کی حرمت وغیرہ پر اسلامی موقف کی روایتی تشریح پیش کی۔ انہیں دنوں شاہ ایران کی شاہ خرچیوں کا خوب چرچا تھا۔ ان کو بھی نشانہ تنقید بنایا جاتا۔

ایم ایم احمد، جو صدر ایوب کے مشیر تھے اور احمدی تھے، ان پر ایک جنونی نے قاتلانہ حملہ کیا۔ الحق نے بلا تحقیق ملزم سے فوری ہمدردی کا اظہار کیا اور حملے کا ذمہ دار ایم ایم احمد صاحب کو قرار دیا۔ بعد میں ثابت ہوگیا تھا کہ مجرم اسلم قریشی نے صرف مذہبی تعصب میں یہ قدم اٹھایا تھا۔

امریکہ اور روس کی سرد جنگ اور خلائی دوڑ عروج پر تھی۔ انسان خلا میں پہنچ چکا تھا۔ الحق کے علماء کو یہ گتھی سلجھانا دوبھر ہوگیا تھا کہ انسان کیونکر ارض و سماء کی پابندیوں سے آزاد ہو سکتا ہے۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ کافر تو قران کی رو سے آسمان میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ اس کےدروازے کفار پر نہیں کھولے جائیں گے۔ پس ثابت ہوا کہ جہاں روس اور امریکہ کے کفار پہنچے ہیں وہ ہر گز آسمان نہیں۔ آسمان کی چھت اس سے کہیں دور ہے۔ ایک جگہ پڑھا کہ چاند پہلے آسمان پر ہے پس آسمان کی اصل حدود چاند سے شروع ہوتی ہیں۔ سائینس سے لاعلمی کی کمی وحیدالدین خان صاحب کے شذرات سے پوری ہو جاتی تھی جو ان دنوں نوجوان ہوتے ہوں گے۔ دیوبند کے منظور نظر تھے۔ آجکل معتوب ہیں۔

سن پینسٹھ کی جنگ میں ہندوؤں کے خلاف جہاد کا پرچار کیا گیا۔ بھارت کے دیوبندی علماء سے مسلسل روابط کی وجہ سے کبھی مہتمم دارلعلوم کا ذکر پڑھنے کو مل جاتا تھا۔ جنگ کے کچھ عرصہ بعد قاری طیب صاحب پاکستان آئے۔ آپ بانی دارالعلوم کے پوتے تھے۔ ان کا انٹرویو پڑھا۔ شریف النفس اور دین کی خدمت میں مخلص معلوم ہوتے تھے۔ بھارتی علماء کا موازنہ جب اکوڑہ خٹک اور ملتان کے علماء سے کریں تو پاکستانی برانڈ کا دیوبندازم ابھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بھارتی دیوبند مسلم پرسنل لاء کے گورکھ دھندے میں الجھا ہوا تھا اور پاکستانی دیوبند کو سیاست کے سہانے خواب نظر آنے لگے تھے۔

ایک بھارتی عالم صاحب عربستان کے دورے پر نکلے۔ ان کا سفرنامہ پڑھا۔ جدہ سے عمان جہاز پر چڑھے تو پائلٹ کی یورپی شکل دیکھ کر دلگرفتہ ہوئے کہ ایک ناپاک وجود حرم کی فضا میں پرواز کر کے متعفن کر دے گا۔ یہاں ان کے دل میں یہ خیال بھی گزرا کہ غیرمسلم کے حرم میں داخلے پر ائمہ کا اختلاف ملتا ہے لیکن پھر بھی دل مطمئن نہ ہوا۔ جہاز منزل پر اترا تو پتہ چلا کہ پائلٹ مسلمان ہے۔ سن کر موصوف کی جان میں جان آئی۔

ایک اور موصوف ایران یاترا کا حال بیان کرتے ہیں۔ ایرانی قوم کی اخلاقی پسماندگی اور شیعہ مسلک پر تنقید سے بھرپور سفرنامے میں جگہ جگہ چلتے پھرتے مناظروں کے کارنامے بیان ہوئے ہیں۔ شیعہ مسلک سے نفرت کا بھرپور اثر ہمیں الحق کے سن ستر کی دھائی کے شماروں میں ملتا ہے۔ ان دنوں اسلامیات کی درسی کتب میں فقہ جعفریہ کے مطابق الگ کتب شائع کی گئیں تھیں۔ مدیر الحق اس پر خوب کچکچاتے رہے۔

یہ دور مفتی محمود اور مولانا ہزاروی میں نزاع کا دور بھی تھا جس کے کچھ اشارے اس رسالے میں ملتے ہیں۔ آئین میں مسلمان کی تعریف سے سن ستر کی دہائی کا آغاز ہوتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کی ذمہ داری عیش پرست حکمرانوں، فحاشی او شراب خوری پر ڈال کر ہاتھ جھاڑے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے دارالعلوم سے ایک صاحب نے مراسلہ بھیجا۔ بنگال میں کفار کے ہاتھوں شکست پر افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ کانگریسی علماء ٹھیک ہی کہتے تھے۔ پاکستان کا مطالبہ کی حقیقت آج کھل گئی۔ اس پر میڈیا میں اعتراض ہوئے تو الحق کے لکھاریوں نے تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیں۔ خیر اس معاملہ کو دبانا انتہائی آسان تھا کیوںکہ جلد ہی احمدیوں کے خلاف پراپیگینڈے کا ایک طوفان جاری کر دیا گیا۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ پاکستانی دیوبندی قیادت نے سقوط ڈھاکہ کے بعد اپنی ساری توجہ بھٹو حکومت کو یرغمال بنانے میں صرف کی رکھی۔ جابجا مغربیت کے اثرات پر تنقید نظر آتی ہے۔ مدیر الحق کا ہر اداریہ بے پردگی، فحاشی اور شراب نوشی کی وبا کی ہر تفصیل کے چسکے لیتا نظر آتا ہے۔ قومی اسمبلی میں ان علماء کے کارنامے بھی رسالے کی زینت بنتے ہیں۔

مولانا ہزاروی کی خواتین ممبران اسمبلی سے نوک جھونک پڑھ کر حیرت ہوئی۔ کہاں ان کے سوانح نگاروں کے بقول درویش صفت، سادہ مزاج غلام غوث ہزاروی اور کہاں یہ صاحب جو ہر موقع پر عورتوں سے ظریفانہ مذاق کرتے نظر آتے ہیں۔

انہیں دنوں میں سعودی وفود کی اکوڑہ خٹک آمد کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ شواہد یہی گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان میں سعودی اثرورسوخ اسی عرصہ میں شروع ہوا اور دیوبندی مدرسوں کی تعداد میں ایک ہوشربا اضافہ دیکھنے کو ملا۔ قومی اسمبلی میں احمدیوں کے متعلق پے در پے بیان بازی بھی اسی سلسلے کی پہلی کڑی تھی۔ رسالہ الحق نے جو بیانیہ احمدی دشمنی کا جاری کیا، سن چوہتر کی اسمبلی کی کارروائی اصل میں اسی کا خلاصہ تھی۔ سقوط ڈھاکہ کا الزام احمدی افسروں پر ڈالنے کی پہلی کوشش بھی اس رسالے میں کی گئی حالانکہ اس بات کا ایک ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست کا ماتم ختم ہوا تو ربوہ کو تل ابیب سے جوڑنے والی بے پرکی بھی یہیں اڑائی گئی۔ ایک صاحب نے حکومت کو ‘مرزائیل‘ کا ڈراوا دیا کہ ربوہ پر احمدیوں کا تسلط جلد از جلد ختم کیا جائے۔

سازشی بیانیہ میں رسالہ الحق اب ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک شذرہ دیکھنے کو ملا۔ کسی بیروتی رسالے کے آرٹیکل کا ترجمہ تھا جس میں اسرائیلی لیڈر بین گوریان کے پاکستان کے خلاف بیان نقلکیے گئے تھے۔ تحریر کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان اسرائیل کے ہدف پر ہے اور اسرائیلی قیادت کو پاکستانی مسلمانوں کا بہت خوف سوار ہے۔ ان بیانات کے حوالے من گھڑت نکلے۔ تین برس بعد سن چوہتر کی اسمبلی کی کارروائی میں مفتی محمود وہی جعلی حوالے نقل کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

المختصر، تحریک دیوبند کا فکری دیوالیہ دیکھنا ہو تو مجلہ الحق اکوڑہ خٹک نے بہت خوبی سے ریکارڈ رکھا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).