قصور۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مرکز


اگر کوئی بچہ گر جاتا ہے اور اُسے چوٹ آ جاتی ہے تو وہ رونے لگتا۔ بچے کا دھیان بٹانے کے لئے والدین کہہ دیتے ہیں کہ تم نے تو چیونٹی کا آٹا گرا دیا۔ جس پر بچہ خوش ہو جاتا ہے کہ چلو میں تو گرا ہی ہوں لیکن میں نے چیونٹی کا بھی آٹا گرا دیا ہے، تو حساب برابر۔ بچہ چوٹ کی درد کو بھول کر بغلیں بجانے لگتا ہے۔
زینب کیس میں ایک بندے کو پکڑ کر حکومتِ پنجاب اور پولیس نے بھی کچھ ایسا ہی کیا اور عوام بغلیں بجانے لگے کہ ہمارا مطالبہ پورا ہوا۔

قصور پاکستان کے ایک بڑے شہر لاہور سے چند کلو میڑ کی مسافت پر ہے۔ بابا بلھے شاہ کی جائے پیدائش پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور بعد میں قتل کر دینے کے واقعات 2015 سے مسلسل رونما ہو رہے اور اب تک 4796 سکویر کلو میٹر کے علاقے میں تقریباً 700 کیس منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔

گذشتہ سالوں میں قصور میں ٹین ایج بچوں کا ریپ کر کے ویڈیوز بنانے اور پھر اُن بچوں کو بلیک میل کرنے کا واقعہ بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا۔ اُس واقعہ میں ایک تو بچوں کے ریپ کی ویڈیوز بنائی جاتیں اور دوسری طرف ٹین ایج بچوں کو بلیک میل کر کے اُن سے پیسے لئے جاتے رہے۔ جو بچوں نے اپنے ہی گھر میں چوری کر کے ادا کیے (یہ بات تو اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اُن ویڈیوز سے کیا دھندہ کیا جاتا ہے)۔

2015 میں تقریباً 280 بچوں کی ریپ ویڈیوز بنائی گئیں اور والدین یہ سب جانتے ہوئے بھی بدنامی اور طاقتور مجرموں کے خوف سے خاموش رہے۔ 2015 سے پہلے پولیس ریپ کیس کو رجسٹر کرنے سے انکار کرتی رہی۔ اور اِس طرح 2016 میں ریپ کیس رجسٹر ہونے کی تعداد میں 10 فیصد اضافہ ہوا۔

ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2017 میں صرف قصور میں 129 جنسی حملوں اور ریپ کیس رپورٹکیے گئے۔ اِن میں سے 34 اغوا، 23 ریپ، 19 غیر فطری جنسی زیادتی، 17 ارادہ جنسی زیادتی، 6 جنسی حلموں اور ریپ اور 4 کیس گینگ ریپ کے رپورٹ ہوئے۔
2015 میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ٹوٹل 451 کیس رپورٹ ہوئے۔ اِسی سال 285 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ایک بڑا سکینڈل بھی منظرِ عام پر آیا۔ 2016 میں 141 ایسے کیس رپورٹکیے گئے۔

مندرجہ بالا زیادہ تر کیس التوا کا شکار ہیں اور اِن کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔ انصاف نہ ملنے کی وجوہات میں کمزور تحقیقاتی سسٹم، والدین اور متاثرہ خاندانوں کا چائلڈ پروٹیکشن کے بارے میں آگاہی کا فقدان، پیچیدہ جوڈیشری سسٹم، میڈیکل تحقیق (والدین ڈی۔ این۔ اے ٹیسٹنگ کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں) اور اختیار والوں کا ایسے کیسوں کو نظر انداز کرنا ہے۔

تین سالہ صورت حال کو سامنے رکھ کر اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بڑے منظم طریقے سے ہو رہے ہیں۔ ایک عام شہری کی سمجھ میں یہ بات آ سکتی ہے تو پھر ہماری حکومت، پولیس اور عدلیہ اِس کو کیسے نظر انداز کر سکتی ہے کہ ایک بندے کو گرفتار کر کے ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ لو جی مجرم پکڑا گیا۔ آپ گرے ہو تو چیونٹی کا آٹا بھی تو گر گیا ہے اور عوام اِس بات پر تالیاں بجائیں کہ تین سالوں کے عرصے میں 700 کیس رپورٹ ہونے کے بعد اب ایک مجرم پکڑا گیا ہے جس پر جن آتا ہے تو وہ یہ مکروہ فعل کا مرتکب ہوتا ہے۔

یہاں سب سے اہم سوال سیاسی لیڈرشپ پر اُٹھتا ہے کہ تین سالوں سے اِس کی روک تھام کے لئے کیا گیا؟ یہی نہیں بلکہ ریپ کیس کی تعداد میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے وہ بھی ایک چھوٹے سے علاقے میں۔

اگر اب بھی ہم خاموش رہے یا چیونٹی کا آٹا گر جانے پر خوش ہوتے رہے تو وہ وقت دُور نہیں جب یہ مکرو منظم گروہ قصور کی گلیوں سے نکل کر بڑے شہروں میں متحرک ہو جائے گا۔ حکومت اور عدلیہ سے مطالبہ کیا جائے کہ التوا کے شکار تمام کیسوں کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے اور تحقیقات کا دائرہ ایک بندے سے بڑھا کر وسیع کیا جائے۔

زینب کیس میں جو پیش رفت ہوئی بلاشبہ اُس میں سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے اور اِس کردار کو اُس وقت تک متحرک رہنا چاہیے جب تک خاطر خواہ نتائج نہیں ملتے۔ ورنہ کل کو میرے اور آپ کے گھر کی زینب بھی اِس کا شکار ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).