کیا ہم سب شاہد مسعود بننا چاہتے ہیں؟


جرنلزم کی کلاس میں طلبأ سے میں نے جب بھی ان کے پسندیدہ اینکر یا صحافی کے متعلق پوچھا تو زیادہ تر کا جواب ہوتا تھا ڈاکٹر شاہد مسعود یا عامر لیاقت۔ استسفار کرنے پر معلوم ہوتا تھا کہ زیادہ تر لوگ انہیں اس لیے پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ دونوں عوامی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں اور کرپٹ اشرافیہ کے خلاف بات کرتے ہیں۔ میرے لیے یہ لمحہ فکریہ اس لیے تھا کہ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھنے والے، اسی بظاہر پڑھی لکھی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بچے بھی اس قسم کے بیانیہ پر یقین رکھتے ہیں اور ایسے لوگوں کو سراہتے ہیں جو صحافتی اقدار کی رتی بھر پرواہ نہیں کرتے۔ سوچیے اگر صحافت کے طالب علم ایسے لوگوں کو پسند کرتے ہیں تو ایک عام آدمی کا کیا حال ہو گا؟

میں ذاتی طور پر ڈاکٹر شاہد مسعود کو صحافی نہیں مانتی ۔بلا شبہ وہ بہت اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور مختلف چینلز پر پرائم ٹائم شو کرتے رہے ہیں مگر میری نظر میں وہ مخصوص حلقوں کے آلہ کار ہیں جو پلانٹڈ خبریں پھیلانے اور پھر اس پر عوام اور متعلقہ حلقوں کا ردعمل جانچنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ خود فیلڈ میں جا کر کھوج نہیں لگاتے یا یوں کہہ لیں کہ یہ حقیقی انویسٹی گیٹو صحافی نہیں ہیں بلکہ کچھ لوگ جو خود سامنے نہیں آسکتے وہ ان کے ذریعے اپنی سٹوری مع مرچ مصالحہ پلانٹ کرواتے ہیں۔ ایسا کوئی بھی شخص جس نے خود اپنی خبر کی تصدیق نہ کی ہو، جس کا اپنا کوئی بیانیہ نہ ہو، یا جو صحافتی اقدار پر عمل پیرا نہ ہو وہ صحافی کیسے ہوسکتا ہے؟

2010ء میں مجھے بلیک واٹر کے متعلق کچھ معلومات درکار تھیں۔ میں نے جب ریسرچ کی تو پتا چلا کہ پاکستان میں دو لوگوں نے اس پرکام کیا ہے ایک شیریں مزاری اور دوسرے ڈاکٹر شاہد مسعود ۔ دونوں کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ انہیں خبریں کون فراہم کرتا ہے۔ اس وقت کوئی اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا کہ بلیک واٹر کتنی فعال تنظیم ہے اور یہ کس پیمانے پر نقصان پہنچا سکتی ہے۔ کئی برس بعد یہ معلومات آئیں کہ بلیک واٹر کے ایجنٹ پاکستان میں موجود تھے اور کچھ پاکستانی سفارتکار ان کو ویزہ کے اجزا میں بھی ملوث پائے گئے۔

حال ہی میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک تہلکہ خیز انکشاف کیا ہے جس پہ سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا اور ڈاکٹر صاحب کو بذات خود عدالت میں طلب کیا۔ بقول ڈاکٹر شاہد مسعود انہوں نے تمام معلومات سپریم کورٹ میں جمع کروائی ہیں۔ لیکن آج پنجاب حکومت کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کی گئی جس میں ڈاکٹر شاہد مسعود کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی اس خبر کی تردید کی گئی اور سٹیٹ بینک کی جانب سے یہ بات واضح کی گئی کہ عمران نامی شخص کے نام پر کوئی بینک اکا ونٹ نہیں۔ اس پریس کانفرس کے بعد سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس کی تاریخ سماعت تبدیل کی اور اب اس کیس کی سماست بروز اتوار ہو گی۔ دوسری طرف ڈاکٹر شاہد مسعود ابھی تک اپنی خبر پر قائم ہیں اور اتوار کو سپریم کورٹ میں مزید ثبوت جمع کروانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ یہاں سے جنم لیتی ہے ایک اور داستاں جس میں مدعی اور منصف ہونے کا ٹھیکہ کچھ میڈیا چینلز اور سوشل میڈیا کے کچھ ہائی ریٹڈ گبھروز نے اٹھا رکھا ہے۔ اگر ڈاکٹر شاہد مسعود کی بات پر غور کیا جائے تو کہانی اتنی سی بنتی ہے کہ عمران نامی شخص کے گرفتار ہونے سے پہلے کیا پنجاب حکومت نے یہ تصدیق کی تھی کہ اس سے پہلے قصور میں زیادتی کا نشانہ بننے والی تمام بچیوں کے مجرم کا ڈی این اے ایک ہے؟ لیکن حیرت کی بات ہے کہ عمران کے گرفتار ہوتے ہی فرانزک رپورٹس نے اس امر کی تصدیق کر دی کہ یہ ایک ہی شخص ہے جس نے اس قدر مذموم کام کیا ہے۔ اس پر حیرت یہ کہ ہم سب نے بلا چوں چرا اس بات کو سچ مان لیا کہ یہ لون وولف تھا اور اس قابل تھا کہ آٹھ بچیوں کے اغوا، زیادتی، تشدد اور قتل جیسے اقدامت اکیلے کرتا رہا اور اب تک پولیس کی گرفت میں نہیں آیا۔

کیا عقل یہ ماننے کو تیار ہے کہ اس شخص نے یہ سب اکیلے ہی کیا ہو گا؟ کیا ہمیں یہ مطالبہ نہیں کرنا چاہیے کہ اس کے ساتھیوں کی نشاندہی کر کے ان کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے؟ کیا ہم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں با اثر افراد اور ان کے زیر سایہ پولیس کی مرضی کے بغیر کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا؟ کیوں اب تک خدانخواستہ کسی امیر اور بااثر شخص کی اولا د کے ساتھ ایسا ظلم نہیں ہوا؟ کیوں ان ظالموں کو غریب کی بچیوں کے جسم ہی لبھاتے رہے؟ ویسے عجیب شہوت اور درندگی ہے جو معاشی اور معاشرتی حیثیت دیکھ کر ہی امڈتی ہے۔

ہم سب یہ فراموش کر بیٹھے ہیں کہ اسی شہر قصور میں پچھلے سال بچوں سے جنسی ذیادتی کا ایک اور سکینڈل سامنے آیا تھا جوکسی وجہ سے دم توڑ گیا۔ جس کے ملزمان آج بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ انہی بچوں کو اور ان کے والدین کو دھمکاتے ہیں۔ جب حقائق ہمارے سامنے ہیں تو یہ جانچ پڑتال کر لینے میں آخر کیا حرج ہے کہ آیا کوئی منظم گروہ تو نہیں جس کی وجہ سے وقفے وقفے سے بچوں سے ذیادتی اور تشدد کے واقعات کی ایک لہر سر اٹھاتی ہے ۔

فرض کریں ڈاکٹر شاہد مسعود کی بات غلط ہو ۔ فرض کریں کہ واقعی ہمارے سپر میڈیا کی بیان کردہ کہانی درست ہو کہ عمران نامی درندہ ایک سیریل کلر تھا جس نے آٹھ بچیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔ وہ بیچارہ تن تنہا یہ جوکھم کام کرتا رہا۔ فرشتوں کی اس بستی میں کوئی ایک شیطان نہ تھا جو اس کا بوجھ بانٹتا۔

لیکن فرض یہ بھی تو کیا جا سکتا ہے کہ عمران جنت میں نہیں زمین پر رہتا ہو۔ یہاں بسنے والے اپنے مفادات کی خاطر کیا پہلے کسی کی جان نہیں لیتے رہے؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ عمران کے کوئی ساتھی بھی ہوں۔ عین ممکن ہے کہ شاید یہ کسی بین الاقوامی گروہ کا حصہ نہ ہو یا اس کے پاس بینک اکاونٹ نہ ہوں لیکن اس خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ شخص اکیلا کام نہ کر رہا ہو۔ اس کے سہولت کاروں کو پکڑنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اس مرکزی ملزم کو پکڑنا۔ پھر اس بات کی وضاحت بھی تو چاہیے کہ اس سے پہلے قصور میں جن لوگوں کو قتل کیا گیا اور ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ یہ بچیوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث تھے اس کا جواب کون اور کب دے گا۔ اب اگر کوئی یہ سوالات پوچھ رہا ہے تو اس قدر ہنگامہ کیوں برپا ہے۔

ہنگامہ برپا کرنے سے یاد آیا کہ میڈیا میں یہ پہلی بار نہیں ہو رہا جب کسی اینکر یا صحافی نے بلا تصدیق کوئی بات کی ہو ۔ لیکن تب تو ہینگ فلاں بن فلاں کا ہیش ٹیگ مشہور نہیں ہوا۔ مریم نواز صاحبہ کو بھی یاد نہیں رہتا کہ ٹویٹ کرکے کسی کو اس کی صحافتی ذمہ داری یاد کروانی ہے یا عدلیہ سے یہ سوال کرنا ہے کہ آیا وہ اس صحافی کو سزا دیں گے یا نہیں۔ یہاں تو لوگوں نے پانی سے چلنے والی گاڑیاں بنوا دیں، لوگوں کے طلاق نامے ٹی وی پر لہرا دیے، گھروں کے پتے لائیو دکھا دیے، ایک دوسرے کو گالیاں دیں، رشوت خوری کے الزامات لگائے، قبروں میں لیٹ کر رپورٹنگ ہوئی، عمران خان کی شادی پر جی بھر کر تبصرے ہوئے ، ایک با پردہ خاتون کی تصاویر دکھائی گئیں، قندیل بلوچ کا شناختی کارڈ میڈیا پر دکھایا گیا، مذہب کے سرٹیفکیٹ میڈ یا پر بانٹے گئے، پارلیمان سے لیکر عدلیہ تک ہر ادارے کی تذلیل کی گئی ۔ پچھلے دنوں امین گنڈاپور پر کچھ افراد کی سرپرستی کا الزام لگا مگر تب کسی کو یاد نہیں آیا کہ بلا تحقیق الزام لگانا ہے یا نہیں۔

مجھے نصرت جاوید صاحب کا ایک واقعہ یاد ہے ( ویسے موصوف کےپروگرام کا پرومو آج کل دیکھنے کے لائق ہے) جس میں انہوں نے عمران خان پر یہ الزام لگایا کہ انہون نے جامیہ حقانیہ کو امداد اس لیے دی ہے کہ انہیں اپنے آئندہ لاک ڈاون کے لیے اسلامی شدت پسندوں کی ضرورت ہے اور ایک طرف وہ اسلام آباد میں دھرنا دیں گے اور دوسری طرف عمران خان۔ لیکن ہوا اس کے برعکس ۔اس دن حکومت نے عمران خان کے کارکنوں کا کریک ڈاون کیا، ان پر لاٹھیاں برسائیں لیکن ہوائی چپل والوں کو کھلی چھٹی دی گئی۔ میں نے اس کے بعد محترم نصرت جاوید صاحب کو اتنے ہی وثوق اور جوش و خروش سے خبر کی تردید کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنے وثوق اور جوش و خروش سے انہوں نے یہ خبر دی تھی۔ اور پھر میں نے سوشل میڈیا یا کسی چینل پر اس کی گونج نہیں سنی اور نہ کسی نے صحافتی اقدار کا راگ الاپا۔

جیو والے جتنے چاؤ سے عمران خان کی شادی کی تیاری کر رہے تھے اور ہر روز نو بجے ان کا سنگیت سجاتے تھے اس سے زیادہ محبت سے وہ آج کل ڈاکٹر شاہد مسعود کے کیرئیر کا جنازہ اٹھانے کا انتظام کر رہے ہیں۔ آج طلعت حسین صاحب بھی فرما رہے تھے کہ جو لوگ سپریم کورٹ میں جعلی دستاویزات جمع کرواتے ہیں انہیں فورا سزا ملنی چاہیے۔ بھائی سے بس یہی عرض کرنی تھی کہ ابھی یہ ثابت نہیں ہوا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی جمع کروائی گئی دستاویزات جعلی تھیں، البتہ جن کے خلاف ثابت ہوا ہے ان کے خلاف کوئی ایک پروگرام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں آپ؟ ان کو بے گناہ ثابت کرنے میں آپ نے کون سی حد پار نہیں کی؟ کیا آپ اس پرپشیمان ہیں کہ آپ نے مجرم کو بچانے میں کردارادا کیا؟ وہ آپ ہی کا ادارہ تھا نا جس نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی اپنا فیصلہ صادر کیا تھا ۔ارے ہاں ایک جج صاحب کو بھی کال کی تھی شاید۔ ویسے آپ کی لغت میں اس کو کیا کہتے ہیں؟

مجھے ڈاکٹر شاہد مسعود سے کوئی ہمدردی نہیں، بس افسوس ہے۔ ہم جس شخص پر کیچڑ اچھالنے کا الزام لگا رہے ہیں اس سے زیادہ کیچڑ خود اس پر اچھال رہے ہیں۔ ہم جس گناہ کا مرتکب ڈاکٹر شاہد مسعود کو پاتے ہیں وہی گناہ ہم سے بھی سرزد ہو رہا ہے۔ ہم میڈیا کو ذاتی عناد اور مفا د کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت ہم سب کا فوکس یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی طرح ڈاکٹر شاہد مسعود جیسے بندے سے جان چھڑوائی جائے، بلکہ ہمیں اپنی توجہ اس طرف مبذول کرنی چاہیے کہ اگر ہماری اس نفرت کی وجہ سے عمران کے ممکنہ ساتھی بچ نکلے تو اس کا خمیازہ زینب جیسی کتنی اور بیٹیاں اٹھائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).