ہم سب زینب کے مجرم ہیں


الفاظ زینب کا معاملہ بیان کرنا چاہیں تو خون زبان کی پور پور سے رسنے لگتا ہے۔ آنکھیں منظر کا احاطہ کرنا چاہیں تو رگ و پے سے اندھیرے امڈ آتے ہیں۔ قلم کی نوک سے سیاہی نہیں خون سپردِ ورق ہونے لگتا ہے۔ اوراق اپنا سینہ اس کی حدت سے چھلنی محسوس کرتے ہیں، مگر دل بوجھل ہے، مر کر نہیں دیتا۔ زینب میری بیٹی اس سب سے گزر گئی جس قرض کا کفارہ ہمیں ادا کرنا تھا۔ مجرم کو سزا ایسی دی جائے کہ اس کی ہڈیاں اس کے گوشت کا ساتھ اس بنیاد پر چھوڑ دیں کہ ہم تم سے براء ت کا اعلان کرتی ہیں۔ پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیز، لیڈر اور کرتا دھرتا اس پر کچھ نہ کر سکیں تو ان کو کوئی جائے پناہ نہیں ملنی چاہیے۔ یہ سب کچھ ہونا چاہیے اور اپنی انتہا پر ہونا چاہیے، اس نَو کے مجرموں کے ساتھ اس سے کم کچھ ہونا نہیں چاہیے۔

مگر یہ دنیا کا سب سے آسان کام ہے کہ آپ ’’مجرم کو مار دو، پھانسی دے دو‘‘ کی فغاں بلند کریں۔

جرم پھوٹا کیسے اور اس کے محرکات کیا ہوئے ہیں؟ کچھ شخصیات کو ٹی وی پر مائیک پکڑے چیختے چلاتے دیکھا تو لگا کہ جیسے وہ چیخ چیخ کر اپنی شکست کا اعلان کر رہے ہوں۔ اُن کے ہر ہر جملے سے اُن کی شکست خوردگی نمایاں تھی۔ وہ چلا رہے تھے کہ اِس ملک کے حکمران چور، ڈاکو، لٹیرے اور قاتل ہیں اور یہ پولیس اُن کی چمچہ، کچھ نہیں کرے گی۔ مجرم پکڑو اور اُسے بیچ چوراہے پر پھانسی دے دو۔

درست صاحب! مجرم کی حد تک آپ کی یہ بات بالکل درست ہے، ایسا ہی ہے۔ یہ سب اسی کے مستحق ہیں۔ مگر صاحب! دست بستہ درخواست یہ تھی کہ جرم کی پیدایش روکنے کا عمل تو آپ کو بھی کرناتھا۔

گلی گلی مسجد و منبر آپ کے پاس۔ روز پانچ وقت کا نمازی آپ کے پاس۔ ہر جمعہ کو منار سے بلند ہوتی تقریریں آپ کے پاس۔ دس لاکھ سے زیادہ ہر سال مدرسوں سے نکلتے بچے آپ کے پاس۔ تبلیغ اور خانقاہ کا نظام آپ کے پاس۔ خدا کا پیغا اور اس کی اخلاقی حجیت آپ کے پاس۔ دست بستہ پوچھنا یہ تھا کہ اس سب کے ہوتے ہوئے بھی سماج کی یہ حالت کیوں؟ ایسا کیا ہوا کہ آپ اس سب میں بالکل ناکام ہو گئے۔ مولانا مودودی کی جماعت ہو یا طاہر القادری صاحب کی، یا ا نوع کی دوسری جماعتیں، ان سب کو بنانے کا مقصد زینب کے قاتل کو سزا دلوانا تھا یا زینب کا قاتل پیدا نہ ہونے دینا۔ دونوں کی وجہ سماج کے گند پہ نوحہ کہنا تھا یا گند کو پیدا ہونے سے روکنا۔

صاحب! جس کی راگنی آپ ہمیں سنا رہے ہیں، وہ تو اس سب کا نتیجہ ہے جو کچھ میں نے اور آپ نے بویا ہے۔ ماننا یہ پڑے گا کہ ہم دونوں، یعنی سماج اور تربیتی ادارے قوم کی اخلاقی تربیت میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ ہم نے مجرم پیدا بھی کیا اور مجرم کو سزا بھی دی ہے۔ ہزاروں کو پھانسیاں دی گئیں، جیلوں میں ڈالا گیا، روز دہشت گرد مارے گئے۔ یہ سب ہوا، مگر جرم کی بیخ کنی کبھی ہمارا مسئلہ ہی نہیں رہا۔

دوسری جانب وہ صاحب ہیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل تھا۔ قوم کا ہر بچہ بوڑھا، مرد عورت، بہو بیٹیاں اپنی مال و متاع ان پر وارنے کو تیار بیٹھی تھیں۔ ان کو بھی سیاست سوجھی اور وہ بھی ایسی کہ جس میں سوائے ماضی کے پچھتاووں کے کچھ نہیں۔ لیڈر کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ لیڈر وہ نہیں جو قوم کو پکڑ پکڑ کر ماضی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے بعد باہر ہی نہ نکلنے دے، لیڈر وہ ہے کہ جو اندھیرے اور کٹھن بیابانوں میں دوراہوں پر دیا لیے کھڑا ہو جائے اور قوم کو سیدھا راستہ دکھا کر مستقبل کے مرغزاروں تک پہنچا دے۔ لیڈر وہ نہیں کہ جو سب کو گرا دینا چاہے تاکہ خود بڑا ہو سکے، بلکہ وہ ہے جو ناموافق ترین حالات میں بھی اپنے اور قوم کے لیے درخشاں مستقبل کا راستہ نکالے۔ قحط الرجال کا عالم یہ ہے کہ ہم آج کسی ایک بھی ایسے لیڈر سے واقف نہیں۔

قوم کی تربیت تو دور رہی۔ اس قوم کو (جب کہ سماج پہلے ہی عدم برداشت کا آخری نمونہ بن چکا تھا) ایک افیون کی گولی اور کھلا دی گئی اور وہ یہ کہ تمہارے لیڈر چور ہیں اور جب تک ان سے جان نہیں چھوٹتی تم لوگوں کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آ سکتی۔ پھر تم بھی من حیث القوم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔ تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، تمہاری پارسائی لیڈروں کے کٹہروں میں آنے سے مشروط ہے۔ کاش! ان کے پائے کا آدمی سماج کی تربیت کو اپنا مسئلہ بنا لیتا تو سماج جائز طریقے سے ان کی زبان میں ’’چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں‘‘ سے جان چھڑوا لیتا۔ کمال یہ کہ بیس کروڑ میں سے صرف تقریباً گیارہ لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں، مگر ہر ٹیکس چور سے یہ بات کریں تو وہ آپ کو بتائے گا کہ میرا لیڈر چور ہے۔ ہر دوسرا آدمی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چوری چکاری، بداخلاقی میں مبتلا ہو گا، مگر اس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ حکمرانوں کی چوری چکاری ہو گا۔ دوسری طرف سماج کو ’’میں ٹھیک ہوں‘‘ کا نشہ لگا کر دوسروں کو جو گالیاں دلوائی گئیں، یہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہیں گی۔ جیسے لڑائی کو اسلام آباد کی سڑکوں پر دینی حمیت کا نام دے کر پہنچا تو دیا گیا، اب یہ روکے بھی نہیں رکے گی۔

ایک غوغا یہ اٹھا کہ بچوں کو سیکس کی تعلیم دی جائے، دیجیے، ضرور دیجیے کوئی حرج نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بچے کا مجموعی شعور بہتر کیے بغیر آپ یہ کام کریں گے تو بچہ سیکس تو لازماً سیکھ جائے گا، مگر شاید جو مقصد آپ اُس سے حاصل کرنا چاہتے ہیں کبھی حاصل نہ ہو سکے۔ معاشرے کی تنگی اور گھٹن اس سے کچھ اور ہی برآمد کر لے گی۔

تو بات میں کر رہا تھا کہ جس کو جو کردار ادا کرنا تھا، اس نے بس وہ نہیں کیا، باقی سب کیا ہے۔ اساتذہ ہوں یا ماں باپ، بہن بھائی ہوں یا رشتہ دار کسی نے بھی اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو اس کو ہر حال میں ادا کرنا تھا۔ نہ اساتذہ والدین رہے اور نہ والدین اساتذہ۔

سماج کا خمیر اس کی حساسیت ہے۔ سماج کسی دوسرے سیارے پر براجمان کوئی مخلوق نہیں۔ یہاں ہی پلتا بڑھتا ہے، جہاں ہم انسان ایک دوسرے سے بری الذمہ ہوتے ہیں۔ سماج میرے اور تمہارے رویوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ مدعی لاکھ بر چاہے، اگر سماج اپنی اساس میں مضبوط ہے تو کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس سماج سے اس کے ادارے وجود پذیر ہیں۔ اور انہی اداروں کو بنانے اور چلانے والے سب اسی سماج کا حصہ ہیں۔ اداروں کی تباہی و بربادی اور ترقی و خوش حالی، دونوں اسی سماج کے ہاتھ میں ہیں۔ اب روئیں تو تب جب یہ یقین نہ ہو کہ جو کچھ ہم نے انسانوں کی تربیت کی شکل میں پیدا کیا ہے، وہ اس سے مختلف تھا جو ہم انسانوں کے اجتماع، یعنی سماج کی شکل میں پا رہے ہیں۔

حالات یہ ہو گئے ہیں کہ جس کے ہاتھ بولنے چاہیے تھے، اس کی زبان بول رہی ہے اور جس کی زبان، اس کے ہاتھ۔ جس کا عمل بولنا چاہیے تھا، اس کا درس بول رہا ہے اور جس کا درس، اس کا عمل۔ جس کا فیصلہ بولنا تھا، اس کی تقریر بول رہی ہے اور جس کی تقریر بولنا تھی، اس کا فیصلہ۔ سب ایک گورکھ دھندہ ہے جو مسلسل ہر روز اردگرد رونما ہوتا ہے۔

تیسری طرف وہ لیڈر ہیں جن کو خدا نے سب میسر کر دیا۔ وہ سب بھی دے دیا جس کے وہ مستحق بھی تھے یا نہیں۔ مگر وہاں اُن کا مسئلہ بھی اپنی ذات اور اس کی بہتری و پرورش رہا۔ ان کو خدا نے وہ موقع فراہم کر دیا تھا کہ چاہتے تو ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر قوم بنانے پر جُت جاتے، مگر اپنی جیب سے ہاتھ نکالے گا تو کسی کو کچھ دے گا نا!!

منبر و محراب سے آواز آنا تھی؛ محبت اور یگانگت کی، وہاں سے مار دو، لوٹ لو، جلا دو کی فغاں بلند ہونے لگی۔ جس دین کی میراث شفقت و محبت تھی، وہاں سے صرف کافر، مشرک، غیرمسلم اور منکر کے فتوے سنائی دینے لگے۔ سیاست میں اخلاق کو فیصلہ کن ہو جانا تھا، وہ ذاتی مسئلہ ٹھیرا۔ لوگوں کی خدمت کو آخری درجہ نہیں، بلکہ کامیابی کا پہلا قدم بننا تھا، وہاں لوٹ مار گرم ہو گئی۔ جھوٹ کے بارے میں یہ طے پایا کہ جتنا بولا جائے، اتنا سچ لگتا ہے۔ محقق اپنی تحقیق کا دائرہ اور زندگی کا مقصد دوسروں کی پگڑی اچھالنا اور ان کے فتنوں کو لوگوں تک پہنچانا بتانے لگے۔ قانون دان قانون ہی کی موشگافیوں کو دلیل بنا کر خود قانون توڑنے لگے۔کچھ دانش ور اپنی ذمہ داری حکومتوں پر ڈالنے لگے اور کچھ خدا اور تخلیق پر۔ دین فطرت، اخلاق کی معراج پڑھانے والے، پڑھنے والے بچوں کو ڈنڈوں، سوٹوں سے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے لگے محافظ حفاظت کے معانی سے ناآشنا ہو گئے۔ جن کو ’’چادر اور چار دیواری‘‘ کا تقدس یقینی بنانا تھا، وہ اپنی ہی تقدیس کو پاک پیش کرنے میں جُت گئے۔ اور سرحدوں کی حفاظت کرنے کی بجائے، وہ فخریہ ملک کے اندر قانون کی ’’چادر اور چار دیواری‘‘ کا تقدس پامال کرنے لگے۔ آئین کے محافظ خود آئین پامال کرنے لگے۔ صاحب! حد یہ ہوئی کہ ظلم کے خلاف چیخنے والا ہی ظالم بن گیا۔ ظلم و زیادتی کے خلاف فیصلہ دینے والا خود ظلم و زیادتی کا رونا رونے لگا۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ سماج کا اخلاقی انحطاط ہے، کرپشن نہیں۔ اپنے معمولی فائدے کے لیے اگر سارا ملک اور قو م بھی بھاڑ میں جاتی ہے تو جائے۔ جب فیصلوں سے ’’ڈر‘‘ جھلکنے لگے تو بابوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جب دلیل ناپید ہو جائے تو بابوں کے واقعات آخری تنکا ثابت ہوتے ہیں۔

ان بابوں کی کہانیاں تقریروں میں تو اچھی لگ سکتی ہیں، مگر یاد رہے کہ یہی بابے ونی، سَتی، قتل اور قرآن سے شادیوں کو بھی تحفظ دیتے آئے ہیں اور آپ بابے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ اور جناب! آپ بابے بھی اسی سماج کا حصہ ہیں، آپ بھی اسی ملک کے آئین کو بوٹوں کے نیچے روندنے والوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ آپ ہی نے اس ملک کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی چڑھانے میں ذرا تامل نہ کیا تھا۔

تو اب آسمان سے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم نہیں اتریں گے۔ یہی انسان ہیں اور یہی سماج، آ پ کو ان کو ہی بہتر کرنا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنا کام آپ کے حکم پر چودہ دن میں انجام کو پہنچا دیا، ویسے ہی جیسے شاہ رخ جتوئی کے معاملے میں پہنچا دیا تھا۔ اب مجرم کو انجام تک پہنچا دینے کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر ہے۔

ہر انسان کو اپنی حدود اور اپنا آپ پہچاننا ہے اور پھر اسی انسان نے کُل سماج اور اسی سماج نے ادارے بنانے اور چلانے ہیں۔ چھوٹا فائدہ اور اس کا بڑا نقصان، مگر سماجی تربیت اپنے چھوٹے فائدے سے آگے سوچنے دے تب نا!!

تو صاحب! اپنا قبلہ آپ نے متعین بھی خود کرنا ہے اور نبھانا بھی خود ہے۔

اور خدارا! جن کو تربیت کرنا تھی، وہ مجرم پر ضرور سیاست کریں، مگر جرم کے لیے ذرا کچھ نظر اُدھر بھی کہ تیرا مجرم اِدھر ہے……. اندر گریبان میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).