ڈاکٹر شازیہ خالد کیس میں محسن بیگ کا کردار


جنوری 2005 کا پہلا ہفتہ تھا۔ ڈیرہ بگتی کے علاقے سوئی سے اطلاع آئی کہ ایک سرکاری لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ ایک نامعلوم فرد نے زیادتی کی ہے۔ اس واقعے میں مزاحمت کرتے ہوئے مذکورہ خاتون شدید زخمی ہوئیں۔ انہوں نے کسی نہ کسی طرح مقامی حکام سے رابطہ کیا۔ حیران کن طور پر مضروب خاتون کو طبی امداد دینے اور واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے کی بجائے  حکام نے انہیں نیند آور ادویات دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی۔ لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد کے لیبیا میں مقیم شوہر نے وطن واپس پہنچ کر مقدمہ درج کروانے کی کوشش کی تو ڈاکٹر شازیہ کو غیر علانیہ نظربندی میں ڈال دیا گیا۔ اس واقعے میں حساس ادارے کے ایک اہل کار کا نام آ رہا تھا۔ ملک کے صدر پرویز مشرف نے پاکستان ٹیلی ویژن پر اعلان کیا کہ کیپٹن حماد قطعی طور پر بے گناہ ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے پرزور احتجاج کے بعد اچانک 18 مارچ 2005 کو اعلان کیا کہ ڈاکٹر شازیہ اپنے شوہر کے ہمراہ بیرون ملک چلی گئی ہیں۔ اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید نے اعلان کیا کہ ڈاکٹر شازیہ خالد کو کسی این جی او نے بیرون ملک بھیجا۔ غیرسرکاری تنظیموں نے اس دعوے کی پرزور تردید کی۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر شازیہ خالد پر حملے کے بعد ہی بلوچستان میں مسلح بغاوت شروع ہوئی۔

بیرون ملک پہنچنے کے کئی ماہ بعد ستمبر 2005 میں ڈاکٹر شازیہ خالد اور ان کے شوہر نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو اپنا پہلا انٹرویو دیا۔ اس طویل انٹرویو مین انہوں نے اپنے اوپر بیتنے واقعات تفصیل سے بیان کیا۔ یہ بھی بتایا کہ انہیں کس طرح اعلیٰ سرکاری حکام دھمکیان دیتے رہے تاکہ وہ قانونی کارروائی سے باز رہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں بیرون ملک بھجوانے مین کس نے کردار ادا کیا تو ان کا جواب دلچسپ تھا۔ انہوں نے اے آر وائی کے اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود اور نیوز آن لائن کے محسن بیگ کا نام لیا۔ 10 ستمبر 2005 کو بی بی سی پر شائع ہونے والے اس انٹرویو کے متعلقہ حصے ذیل میں دیے جا رہے ہیں۔ پورا انٹرویو اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے

http://www.bbc.com/urdu/miscellaneous/story/2005/09/050909_shazia_text_nisar.shtml

سوال: واپس جانا چاہتی ہیں؟

جواب: وقت اور حالات کیا صورت اختیار کرتے ہیں مجھے تو نہیں پتہ اور میں جو پناہ کی طالب بن کر زندگی گزار رہی ہوں اس کا مجھے کوئی شوق ہی نہیں ہے۔ لیکن مجبوری یہ ہے کہ حکومت ہمیں پروٹیکشن نہیں دے سکی۔ لیکن امید رکھتی ہوں کہ اگر وقت اور حالات نے ساتھ دیا تو ضرور جاؤں گی۔

سوال: آپ کی بے نظیر صاحبہ سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ کیا ان سے باتیں ہوئیں اور کیا انہوں آپ کو سپورٹ کیا۔؟

جواب: جی انہوں نے مجھے سپورٹ کیا اور کہا کہ آپ نے بہت اچھا کیا اپنے حق اور انصاف کے لیے لڑ رہی ہیں، اپنے لیے نہیں بلکہ پاکستان کی تمام عورتوں کے لیے آپ لڑ رہی ہیں، بہت اچھا کام کر رہی ہیں آپ۔

سوال: آپ کہ رہی ہیں کہ آپ کا بیٹا بھی وہیں پر ہے۔ اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ بتائیں۔
جواب: میرا یہ بیٹا لے کر پالا ہوا ہے ۔ جب چار سال کا تھا تو اس کے والد کی وفات ہوگئی تھی تو اس کی امی نے دوسری شادی کر لی تھی۔تب سے میں ہی اس کی دیکھ بھال کر رہی ہوں۔ لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے کیونکہ جب ہم اسلام آباد میں تھے تو وہ لوگ کہہ رہے تھے کے یہاں آپ کا بیٹا بھی ہے اور آپ تو چلے جائیں گے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

سوال: یہ کس نے کہا تھا آپ کو؟

جواب: یہ نیوز آن لائن کے جو ڈائریکٹر ہیں محسن بیگ، انہوں نے کہا تھا۔

سوال: آپ کا جو بیٹا ہے اس کو انہوں نے آپ کو لے جانے نہیں دیا کہ آپ خود اس کو وہاں چھوڑ کر آئے ہیں۔

جواب: جب ہم کراچی میں تھے تو ڈاکٹر شاہد مسعود اے آر وائی کے اور محسن بیگ ہمارے پاس ملنے کے لیے آئے تو شاہد مسعود نے کہا کہ محسن بیگ حکومت کا بندہ ہے۔ ہم آپ کی مدد کریں گے۔ آپ کی جانوں کو خطرہ ہے۔

سوال: جانوں کا خطرہ کس سے ہے؟

جواب: کہنے لگے کہ اسلام آباد کی ایجنسیز سے ہم ملے ہیں تو آپ لوگوں کو بہت رسک ہے اور بلوچستان کے حالات آپ کی اشو کی وجہ بہت خراب ہو گئے ہیں۔

مسٹر خالد: ہم سے ملنے سے پہلے وہ اسلام آباد گئے تھے۔ محسن تو وہ ظاہری بات ہے کہ وہ ایجنسی کا بندہ ہی ہے اور شاہد مسعود نے بھی اس کا اقرار کیا۔ اس نے مجھے کہا تھا کہ محسن بیگ گورنمنٹ کا آدمی ہے۔ میں (شاہد مسعود) اور محسن آپ کی مدد کریں گے۔ اب گورنمنٹ شاہد مسعود اور محسن بیگ کے درمیان جو کھچڑی پک رہی تھی اس کا ہمیں تو علم نہیں۔ شاہد مسعود ہم سے اسلام آباد میں انٹرویو لینے کے بعد غائب ہو گیا تھا۔ پھر دوبئی سے اس نے فون کیا تھا۔ بڑا ڈرا ہوا تھا اور ایجنسیز کے لئیے اس نے کافی بری طرح سے باتیں کی تھیں کہ وہ تو ’مجھے ہی مار دینا چاہتے تھے اور میں اپنی جان بچا کے چار ائیرپورٹس سے اپنے ٹکٹ بک کرواکے اور جان بچا کے نکلا ہوں‘۔ پھر اس کے بعد محسن صاحب آ کے کھڑے ہو گئے جی شاہد مسعود صاحب کو ہم نے فرنٹ پہ رکھا ہوا تھا۔ سارا کام اور آپکا ویزہ وغیرہ تو ہمارا کام ہے، وہ تو ہم نے کیا ہے۔ پریزیڈنٹ سے بھی میں آپ کو اجازت دلوا رہا ہوں اور طارق عزیز جو سپیشل ایڈوائزر ہیں ان سے بھی اس نے ملاقات کروائی لیکن اس نے کہا تھا کہ- – – –

سوال: پاسپورٹ آپ کے کس پاس تھے؟

مسٹر خالد: پاسپورٹ ہمارے شاہد مسعود کے پاس تھے اور جب اس کو انہوں نے نکال دیا تو اس نے پاسپورٹ جو تھے کسی دوست کو دئیے تھے اور ان کا دوست ہمارے پاس تقریباً رات ایک بجے آیا تھا اور پاسپورٹ ہمیں دے کر چلا گیا۔

سوال: ویزہ کس نے لگوایا تھا۔
جواب: دونوں نے۔ شاہد مسعود نے
مسٹر خالد: شاہد مسعود نے، محسن بیگ نے لگوایا ہے۔ اب کس نے لگوایا ہے ہمیں نہیں پتہ اس بات کا۔
ڈاکٹر شازیہ: دو دن میں وہ ہمارا پاسپورٹ لے کر گئے اور دو دن میں واپس کر دئیے۔ تو دو دن میں ویزا کون لگوا سکتا ہے۔

شیخ رشید صاحب کا بیان آیا تھا کہ ہم نے نہیں بھیجا اور کوئی این جی او ہے جس نے یہاں ان لوگوں کو بلوایا ہے۔

مسٹر خالد: شیخ رشید کا بیان اس طرح آیا تھا کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں ہے کہ ڈاکٹر شازیہ کیسے فلائی کر گئیں اور ہم نے امیگریشن سے پتہ کروایا کہ اس طرح کا کوئی بندہ نہیں گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).