ڈی چوک کی بے نور گالم گفتار


\"farnood\"علمائے کرام ومشائخ عظام گالیوں کا ذخیرہ تاریخ کے حوالے کر کے ڈی چوک سے روانہ ہونے کو ہیں۔ مجھے گالیوں پہ کوئی اعتراض نہیں، گالیاں تو جوش ملیح آبادی نے بھی دی ہیں اور جعفر زٹلی نے تو جی بھر کے دی ہیں۔

گالی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت لغت میں موجود رہتی ہے۔ زبان کے اوپر نہ سہی، زبان کے نیچے سہی۔ نیچے نہ سہی، دائیں بائیں ہی سہی۔ حضرات کی زبان پہ مردانہ گالیاں اور خواتین کی زبان پر نسوانی گالیاں۔ شرفا کی زبان پر شائستہ گالیاں من چلوں کی زبان پہ بے لباس گالیاں۔ کہیں ملفوف گالیاں تو کہیں ادھڑی کترنوں جیسی گالیاں۔ کہیں حریف کی محبت بھری گالیاں تو کہیں حلیف کی زہرآلود گالیاں۔ دشمن گالی دے تو سر پھٹول کی نوبت آجائے، دوست گالی نہ دے تو تشویش لاحق ہوجائے۔ یہ تو زندگی کا جزِ لاینفک ٹھہرا۔ کون ہے جو اس سے بے نیاز ہے۔

نجی زندگی میں کون گالی نہیں دیتا۔ سب دیتے ہیں۔ آپ بھی میں بھی۔ علمائے کرام و مشائخ عظام کو دشنام طرازی کرتا دیکھ کر کچھ طبعتیں اگر حیرت سے بجھ گئی ہیں، تو قصور علما کا نہیں ہے۔ قصور اس میں والدین کا ہے کہ آپ کو دین سے دور رکھا۔ دین سے کچھ شغف ہوتا تو آپ کے علم میں ہوتا کہ نجی محافل میں انتہائی فقہی گالی دینے میں اور درجہ اول کا فحش لطیفہ سنانے میں حضرات علمائے کرام طاق ہیں۔ کئی لطائف تو انہوں نےقدیم روایات  کے وزن پر تخلیق کئے ہیں۔ مشائخ کی براہ راست گالیاں سن کر اگر آپ انگشت بدنداں اور دیدہ حیراں ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ کو کبھی اہل منبر و محراب کی صحبت میسر ہی نہیں رہی۔ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ان نازیبا لطائف سے توہینِ مذہب کا مقدمہ کیوں قائم نہیں ہوتا، تو اس سوال کو بھی اپنی کوتاہ نظری جانیئے۔ مشائخ کی وہ گالی اور لطیفہ لائق احترام اور واجبِ تکریم ہے جس کا ماخذ زہد و اتقا ہو، اور جس کا ماخذ زہد و اتقا نہیں وہ گالیاں ردِ بلا کے کسی تعویذ جیسی ہیں۔ مشکل کشا نہ سہی، قبض کشا ہی سہی۔

سو۔!!

گالیوں پہ کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض اگر ہے، تو صرف اس بات پر کہ مشائخ کی گالیاں نفاست ولطافت سے بالکل عاری تھیں۔ گالیوں کا انتخاب ہی یہ بتانے کیلیے کافی ہے کہ امت مسلمہ کا علمی معیار اور زبان وبیاں کا ذوق کہاں کھڑا ہے۔ آپ صحافی کی ماں تک ہی پہنچتے، مگر پہنچنے کیلئے وسائل و ذرائع تو ذرا مناسب بروئے کار لاتے۔ آپ تو چھت پھاڑ کر آنگن میں چاروں شانے چت پڑ گئے۔ تین دن میں کوئی ایک بھی گالی ایسی مشکبو گالی سننے کو نہیں ملی جس سے روحانی بالیدگی نصیب ہو۔ سونے پہ سہاگ رات یہ کہ دھمال بھی مکمل طور پہ خلافِ شرع۔ کیا آپ نے سوچا کہ مولانائے روم کی روح پہ کیا گزری ہوگی؟ آپ کی گالیوں میں کچھ خلوص ہوتا اور دھمال میں کچھ شریعت کی رعایت ہوتی، تو ہیلی کاپٹر کو دھواں کرنے کے لئے آپ کا ایک بھی چپل کافی ہو جاتی۔ وائے پاسبانِ حرم کی بے سوز و بے گداز گالیاں۔! کہ ہزار چپلوں سے بھی ہیلی کاپٹر بچ نکلا۔ میں کیسے مان لوں کہ آپ عاشق ہیں رسول کے؟ کیسے بھائی میرے کیسے؟ شاید آپ جیسے عاشقوں کی بے شوخ و بے رنگ گالم گفتار سن کر اقبال نے کہا تھا

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں

نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں

پیروکاروں کو چاہیئے کہ وہ اگر کسی اور بنیاد پران مشائخ کی پیروی نہیں چھوڑ سکتے، تو کم از کم اس بنیاد پر ہی پیروی ترک کردیجیئے کہ ان کی گالیاں بھی اسلاف کی روایت سے ہٹ چکی ہیں۔ جو گالی بھی ڈھنگ سے نہیں دے سکتے، وہ آپ کو کیا خاک شریعت سکھائیں گے؟ ذرا سوچیئے۔

آخری بات۔!!

میری جان عثمان غازی نے منہ اندھیرے سوال اٹھا دیا ہے کہ اٹھائیسویں دن کون سا چہلم ہوتا ہے۔؟ ممتاز قادری کو پھانسی انتیس فروری کو ہوئی اس حساب سے چہلم دس اپریل کو بنتا ہے۔ اب اس سے پہلے کہ کوئی عالمِ دین یا صوفی و سالک عثمان غازی کو فققہ و منطق کے زریں اصولوں سے عاری کسی غیر نفیس سی گالی کی صورت جواب دیتا، میں نے تاریخ کے اس الٹ پھیر کیلئے ایک مناسب استدلال تراش لیا ہے۔ حضرتِ اقبال سے بنا کسی معذرت کے عرض کیا کہ

یہ نغمہ فصلِ گل ولالہ کا نہیں پابند

دس ہو کہ اٹھائیس لا الہ الا اللہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments