میری سندھ بورڈ کی جعلی ڈگری


آجکل ہم ایگزیکٹ کے بارے میں‌ کتنا سنتے ہیں! کبھی کہیں اور کبھی کہیں اور سے کوئی شکایتی آرٹیکلز لکھتا ہے کہ ان کا اصلی زندگی میں‌ کسی فیلڈ میں‌ کام کرنے کا کئی دہائیوں‌ کا تجربہ تھا اور ان کو ڈگری کی پیشکش کی گئی جس کے لیے کسی کورس کا مطالبہ نہیں‌ کیا گیا۔ ان کو بس اپنا تجربہ بتانا تھا اور کچھ پیسوں‌ کا چیک بھیجنا تھا جس کے بعد ان کو کسی غیر معروف یونیورسٹی سے کڑک سا سرٹیفکٹ ڈاک کے ذریعے بھیج دیا گیا۔ جب بھی میں‌ یہ کہانیاں‌ پڑھتا ہوں‌ تو ہنستا ہوں‌ اور ان لوگوں‌ کے لیے افسوس محسوس کرتا ہوں‌ جنہوں‌ نے آٹھ ہزار ڈالر صرف اس بات پر خرچ کردیے کہ ان کا نام ایک سرٹیفکٹ پر چھپا ہو۔ اس سے میں‌ اس سوچ میں بھی پڑ گیا کہ پاکستان کے تعلیمی ادارے بھی ایگزیکٹ کی طرح‌ ہی ہیں جو یہ ڈگریاں بانٹتے ہیں‌ جو محض کڑک کاغذ کے صفحے ہیں‌ جن پر آپ کا نام چھپا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس بھی ایسا ہی ایک سرٹیفکٹ ہے۔

جب میں‌ چھوٹا بچہ تھا تو مجھے یاد نہیں کہ کب میں‌ نے یہ دیکھا کہ میری بہن جو مجھ سے ڈیڑھ سال بڑی تھیں وہ پڑھنے لگی تھیں اور ان کو پڑھنے میں‌ بہت دلچسپی تھی۔ وہ پچاس پیسے کی چھوٹی کہانیاں‌ خرید کر پڑھتی تھیں جو جنوں، پریوں‌ اور شہزادے شہزادیوں‌ کے بارے میں‌ ہوتی تھیں تو میں‌ نے بھی دیکھا دیکھی پڑھنا شروع کردیا۔ امی کو بھی پڑھنے کا بہت شوق تھا اور ہمارے والد نے ان کو سکھر کی تاریخی جنرل لائبریری میں‌ لائف ممبر بنا دیا تھا۔ یہ لائبریری پارٹیشن سے پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ اگر آج بھی جائیں‌ تو بورڈ پر ان کا نام لکھا نظر آئے گا۔ پھر میں‌ نے عمران سیریز پڑھنا شروع کی۔ ابن صفی کی عمران سیریز میرے سر کے اوپر سے گذر جاتی تھیں لیکن مظہر کلیم کی عمران سیریز سے میں‌ لطف اندوز ہوتا تھا۔ کچھ ناول ردی والے سے لے کر پڑھ کر واپس بیچ دیتے تھے پھر میرے ایک دوست عادل نے ایک لائبریری کھول لی جہاں‌ سے نیا ناول ایک روپے میں‌ کرائے پر ملتا تھا۔ وہ میں‌ تیس منٹ میں‌ پڑھ لیتا تھا۔ عادل ایک سفید پوش گھرانے کا اچھا لڑکا تھا جو پڑھائی میں‌ بہت ہوشیار تھا۔ اس کے والد واپڈا میں‌ لائن مین ہوتے تھے جن کو کام کے دوران بہت بری طرح‌ بجلی کے جھٹکے لگے جس سے ان کا جسم بری طرح‌ جل گیا تھا۔ ان دنوں ایک پی ٹی وی چینل ہوتا تھا جس پر رات کو آٹھ بجے ڈرامہ آتا تھا۔ کوئی پانچ بجے صرف پانچ منٹ کے لیے کارٹون آتا تھا جو ہم بہت شوق سے دیکھتے تھے۔ ہفتے کی رات کوئی ہالی ووڈ مووی بھی چلتی تھی۔ گھر سے باہر جاکر گلی ڈنڈا یا کنچے کھیلنے کی بالکل اجازت نہیں تھی اس لیے زیادہ تر وقت اردو لٹریچر پڑھنے پر ہی گذرتا تھا۔ دوسرے والد نے اسلامیات اور اردو میں‌ ماسٹرز کیا ہوا تھا اور ان کے پاس جماعت اسلامی کی کتابوں‌ کی لائبریری تھی۔ نسیم حجازی کے ناول بھی پڑھے اور کئی شاعروں‌ کے دیوان بھی۔

جب میں‌ نویں کلاس میں‌ تھا تو ہماری والدہ نے شہر کے ایک جانے مانے ٹیچر کو ہمیں‌ پڑھانے پر مامور کیا۔ ان کی فیس کافی تھی، اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک دن میں اور دوسرے دن میری بہن پڑھیں‌ گی، اس طرح ہماری ٹیوشن کا خرچہ آدھا ہوگیا۔ میں‌ اور میری بہن باری باری پڑھتے تھے۔ مجھے اپنی بہن کی طرح‌ پڑھائی کا اتنا شوق نہیں‌ تھا اور میں‌ چھٹیاں‌ کرلیتا تھا تو میری بہن میری جگہ پڑھ لیتی تھیں۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں کہ مجھے بورڈ ایگزام کے بارے میں‌ کب پتا چلا اور کب سمجھ میں‌ آیا کہ مجھے انجینئرنگ کالج میں‌ جانے کے لیے اچھی طرح‌ پڑھ کر اچھے نمبر بنانے ہوں گے۔ لیکن سر راحت اتنا اچھا پڑھاتے تھے کہ میں‌ میتھ میں‌ ہوشیار ہوگیا تھا۔ باقی مضامین کا صرف رٹا لگایا تھا۔ جیوگرافی، سوشل اسٹڈیز ویسے ہی کتابیں‌ پڑھ کر سمجھ آگئے تھے۔ انگلش، فزکس اور کیمسٹری بھی ٹیوشن کی وجہ سے بہتر ہوگئے تھے۔ جب میں‌ انٹر کے امتحان میں‌ بیٹھا تو ان کو پاس کرنے کے لیے مجھے کسی ایگزام گائڈ کی ضرورت نہیں‌ تھی۔ وہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی پہلی ٹرم تھی جس میں‌ ایک بڑے پیمانے پر نئے ٹیچرز کی بھرتی ہوئی اور پرانے ٹیچرز کو نکال دیا گیا۔ کافی ٹیچرز کو اس لیے جاب مل گئی تھی کیونکہ وہ پارٹی ورکرز تھے۔ ہماری اینگلو نن انگلش ٹیچر کو سینٹ میریز اسکول سے ہٹا کر ان کی جگہ ایک ایسے آدمی کو انگلش پڑھانے کی جاب دی گئی جو انگلش میں‌ اپنا نام تک نہیں‌ لکھ سکتا تھا۔ وہ میرے لیے پہلا موقع تھا جب میں‌ نے تعلیمی میدان میں‌ نالائقی دیکھی۔

ہمارے ٹیوٹر سر راحت ایک نہایت لائق آدمی تھے، ایک عزت دار آدمی جنہوں نے اپنی تمام کوشش اور توانائی اس بات پر خرچ کی کہ ہمیں‌ تعلیم یافتہ نوجوان بنا سکیں۔ انہوں‌ نے کبھی مجھے یہ نہیں‌ کہا کہ مجھے غلط راستہ اختیار کرنا چاہئیے۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں‌ نے مجھے بورڈ کے امتحانوں‌ کی تیاری کروائی اور کہا کہ “اس بات کو یقینی بنانا کہ تمہارے سینے میں‌ علم ہو!” میں‌ نے میٹرک کا امتحان دیا جہاں‌ لڑکے کارتوس ادھر ادھر بھیج رہے تھے لیکن مجھے ان کی ضرورت نہیں تھی۔ میتھ میں‌ میرے 100 میں‌ سے 97 نمبر آئے۔ مجھے معلوم نہیں‌ کہ انہوں‌ نے تین نمبر کس چیز کے کاٹے تھے لیکن پھر بھی میں‌ مطمئین تھا۔ میتھ اور سائنس میں‌ میں‌ اچھا تھا لیکن کیمسٹری وائوا میں‌ ایک مسئلہ سامنے آیا۔ جب ہم وائوا دینے گئے تو وہاں‌ تین انٹرنل اور تین ایکسٹرنل امتحان لے رہے تھے اور دو اسٹوڈنٹس کو اکٹھا بلاتے تھے۔ سوال عموماً سے ہٹ کر تھے۔

پہلا سوال: تنجھو نالو چھا آہے؟

دوسرا سوال: پیو جو نالو چھا آہے؟

تیسرا سوال: پاڑن کیر آئیں؟

چوتھا سوال: کچھ ایندو آ؟

انہوں‌ نے پہلے اسٹوڈنٹ سے سندھی میں‌ یہ سوال کیے کہ تمہارا نام کیا ہے؟ تہمارے والد کا نام کیا ہے؟ تمہاری زات کیا ہے؟اور تمہیں کچھ آتا ہے؟ تو اس نے آخری سوال کے جواب میں‌ شرمندگی سے کہا کہ جی نہیں۔ تو انہوں نے اس کو جانے دیا۔ جب میں‌ نے آخری سوال کا ہاں‌ میں‌ جواب دیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ انگریزی میں‌ پچھاں؟ میں‌ نے جواب دیا کہ یس سر! تب تک اسٹوڈنٹس آتے گئے اور جاتے گئے۔ مجھ سے انہوں نے کیمسٹری کے بارے میں‌ کوئی 17 یا 18 سوال کیے جن میں سے مشکل سے ایک یا دو مجھے نہیں‌ ائے ہوں‌ گے باقی کا اچھی طرح‌ سے جواب دیا۔ مجھے یقین تھا کہ مجھے 25 میں‌ سے 25 نمبر ملیں‌ گے۔ جب اسلامیہ کالج سے نتائج ملے تو میرا دماغ یہ دیکھ کر سن ہو گیا کہ مجھے کیمسٹری میں‌ 25 میں‌ سے 4 نمبر دے کر فیل کردیا گیا تھا۔ جن لڑکوں‌ نے مجھ سے آگے پیچھے امتحان دیا تھا، میں‌ نے ان سے پوچھا تو وہ پاس کردیے گئے تھے۔ معلوم نہیں میرے منہ سے اس پروفیسر کے لیے کیا برے الفاظ نکلے لیکن وہاں‌ ایک اور سینئر پروفیسر نے سنا تو انہوں‌ نے میرے ہاتھ سے مارکس شیٹ چھین لی اور میں‌ اس کے بغیر گھر گیا۔ میرے دوسرے ابو نے کچھ غلط کام کرکے مجھے نمبر دلوانے یا میرا انجینئرنگ میں‌ داخلہ کروانے کی کوئی کوشش نہیں‌ کی۔ حالانکہ وہ سندھ بورڈ میں‌ بہت لوگوں‌ کو جانتے تھے۔ ان کے فرنیچر کے کارخانے سے بنا ہوا فرنیچر سندھ کے کئی علاقوں میں‌ فروخت ہوتا تھا اور کافی سارے ٹیچرز یہاں‌ تک کہ کیمسٹری کے ٹیچر جنہوں‌ نے مجھے بلاوجہ فیل کیا تھا وہ بھی ان کو اچھی طرح‌ جانتے تھے۔ میں‌ بعد میں سوچتا تھا کہ اگر میں اپنے پہلے ابو کے بجائے دوسرے ابو کا نام بتا دیتا تو شائد وہ مجھے فیل نہ کرتے۔ جن پروفیسر نے میری مارکس شیٹ چھین لی تھی وہ گھر کے پاس ہی رہتے تھے اور میرے ابو نے ان سے بات کی تو انہوں‌ نے وہ واپس کردی جس کے لیے میں‌ نے معافی مانگنے سے انکار کردیا تھا۔ وہ کیمسٹری کے پروفیسر ان برے الفاظ کے پورے حقدار تھے جو میں نے ان کے لیے استعمال کیے۔ بہرحال، اب میں‌ ایک فلنکر تھا، باقی سارے نمبر ملا کر پاس تو ہوگیا تھا لیکن مارکس شیٹ پر کیمسٹری کے وائوا میں‌ فیل ہونے کا دھبا لگا ہوا تھا۔ پچھلے دس سال سے امریکی ویزے پروسس ہو رہے تھے اور اس وقت ہماری باری آ چکی تھی جس کے بعد ہم امریکہ شفٹ ہو جاتے۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ امریکہ جا کر آگے کالجوں‌ کو یہ ٹرانسکرپٹ دکھاوں گا تو ان کا کیا ردعمل ہوگا۔ بہت کوششیں‌ کرنے کے بعد اور ایک دو کو رشوت دینے کے بعد کیمسٹری کے وائوا کے نمبر تبدیل کروائے اور نئی مارکس شیٹ بنوائی۔

جب ہم امریکہ شفٹ ہوئے تو پہلا مسئلہ خود کو سپورٹ کرنے کا تھا۔ میں‌ نے میریاٹ ہوٹل میں‌ میزیں‌ صاف کرنے کی نوکری کرلی۔ اس کے بعد میں‌ نے ایک دن پڑھائی کرنے کے بعد ٹوفل کا امتحان دیا جس میں اتنے نمبر آگئے کہ کالج میں‌ داخلے کے لیے کافی تھے۔ کالج میں‌ داخلے کا امتحان انگلش اور میتھ کا تھا۔ ان مضامین میں میں نے مناسب نمبر لیے اور کالج میں داخلہ مل گیا اور پاکستانی ٹرانسکرپٹ کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ پہلے دو سال بالکل آسانی سے گذر گئے۔ میتھ اچھی طرح‌ آنے کی وجہ سے مجھے کوئی امتحان پاس کرنے میں زیادہ تگ ودو نہیں‌ کرنی پڑی۔ کبھی کبھار میں انسٹرکٹر کی غلطیاں‌ بھی ٹھیک کر دیتا تھا۔ پھر کچھ عرصے میں‌ ان کو بھی عادت ہی ہوگئی اور وہ کوئی پرابلم حل کرتے تو بلیک بورڈ پر لکھتے لکھتے میری طرف دیکھتے اور پوچھتے کہ یہ ٹھیک ہے؟ پھر جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے تو کورسز مشکل ہونا شروع ہوئے جیسے کہ لینیر الجبرا یا ڈسکریٹ میتھ۔

یہاں‌ پر میں‌ گفتگو میں‌ نسل اور مذہب کے اختلافات کو شامل کروں‌ گا۔ یونیورسٹی میں‌ زیادہ تر پروفیسر عیسائی تھے اور کچھ یہودی۔ کچھ انڈیا کے ہندو بھی تھے۔ حالانکہ میں‌ ایک مسلم پس منظر رکھنے والا براؤن اسٹوڈنٹ تھا لیکن میرے اساتذہ نے کبھی بھی مخلص مدد، ہمت افزائی اور مجھ تک علم پہنچانے میں‌ کبھی کسی تعصب سے کام نہیں‌ لیا۔ کیا یہ یہود و نصاریٰ کی سازش ہے کہ وہ دشمن مسلمان شاگردوں‌ کو تعلیم دے رہے ہیں، ان کو برابرکے مواقع دے رہے ہیں اور ان کو یونیورسٹی کے خرچے پر پی ایچ ڈی کی سیٹیں اور دیگر اسکالرشپ دلا رہے ہیں؟ میرے ماسٹرز کے تھیسس کے لیے ان اساتذہ نے میری بہت مدد کی۔

جب میں‌ نے یونیورسٹی میں‌ پڑھنا شروع کیا تو ایشیا کی ٹائیگر اکانومیز ترقی کررہی تھیں اور قریب پانچ سو اسٹوڈنٹس ملیشیا سے آئے تھے۔ آج کل ہندوستانی اسٹوڈنٹس یونیورسٹی میں‌ زیادہ ہیں اور کچھ پاکستانی بھی۔

مجھے یاد ہے کہ سکھر میں‌ میرا دوست عادل میرے پاس روتے ہوئے آیا اور بولا کہ اس کے بورڈ میں‌ اچھے نمبر نہیں‌ آئے، میرا کیا ہوگا اور اس نے کہا کہ میں‌ اپنے ابو سے کہہ کر اس کی کچھ مدد کروں۔ چونکہ میری بڑی بہن کا میڈیکل میں‌ داخلہ ہوگیا تھا تو وہ سوچ رہے تھے کہ ہمارے والد نے کچھ کیا ہوگا۔ میں‌ نے اس کو تسلی دی اور کہا کہ ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اور مجھے بھی نہیں پتا کہ میرا کیا ہوگا۔ امی کہتی ہیں‌ کہ اگر پاکستان میں‌ رہ جاتے تو وہ اپنا سب کچھ بیچ کر بھی میری بہن کو ڈاکٹر اور مجھے انجیئر ضرور بناتیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد عادل کی فیملی حیدرآباد چلی گئی اور ہم امریکہ آگئے۔ اس کے بعد ہمارا رابطہ ختم ہوگیا۔ میں‌ جانتا ہوں‌ کہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے باہر آکر ایک اصلی یونیورسٹی میں‌ اصلی علم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ میں‌ ان تمام ذہین نوجوان لڑکے اور لڑکیوں‌ کے بارے میں‌ سوچتا ہوں جن کے پاس یہ وسائل موجود نہیں‌ کہ وہ اپنا مستقبل خرید لیں یا ایک ایسے نظام سے لڑائی کرسکیں‌ جو ان کے مخالف کھڑا ہے۔

میں‌ سندھ میں‌ پیدا ہوا تھا اور مجھے اس خطے سے اور اس کی تہذیب و ثقافت، اس کے لوگوں، اس کے کھانوں، ملبوسات اور زبان سے دلی لگاؤ ہے۔ وہ میرا وطن ہے۔ سندھ عظیم انسانوں‌ سے بھرا ہوا ہے۔ سندھیوں‌ کے دل بڑے ہیں اور ہم بھی ان میں سے ہیں۔ میرے خیال میں‌ پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر پارٹیاں‌ بھی کچھ ایسا ہی کررہی ہوں گی تاکہ ان کی بالادستی قائم رہے۔ کچھ غلطیاں‌ ہوئی ہیں جن سے سبق سیکھنا چاہئیے۔ میرے سب سے بڑے ماموں حبیب صدیقی نے سکھر میں‌ مقابلے کا امتحان پاس کرلیا تھا لیکن ان کو سرکاری نوکری نہیں دی گئی کیونکہ ان کی پیدائش انڈیا کی تھی۔ وہ ملک چھوڑ کر امریکہ چلے آئے جہاں‌ انہوں‌ نے انگلش میں‌ پی ایچ ڈی کی اور وہ یہ ڈگری حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔ ان کے پیچھے میرے نانا کے تمام نو بچے اور ان کے بچے بھی امریکہ شفٹ ہوگئے۔ یہاں‌ سارے خاندان میں‌ اب بہت سارے ڈاکٹرز، ٹیچرز، بینکرز، قانون دان اور نرسیں ہیں جو امریکہ میں‌ کام کررہے ہیں۔ اگر اس طرح‌ لائق افراد کو تعصب سے نہ دھتکارا جاتا تو آج سب وہیں‌ ہوتے اور اپنے ملک کی ترقی میں‌، اپنے صوبہ سندھ کی ترقی میں‌ ہاتھ بٹاتے۔ میں اپنے سندھی شہریوں‌ سے یہ ضرور کہنا چاہوں‌ گا کہ اس بات سے ہوشیار رہیں کہ آپ کے بچے نقلی تعلیم یا جعلی سرٹیفکٹ حاصل نہ کریں۔ نسل در نسل ہم اس دائرے میں‌ پھنسے ہوئے ہیں‌ جس میں‌ نالائق ڈاکٹر کا بیٹا بڑا ہوکر نالائق ڈاکٹر بن رہا ہے اور نالائق انجینئر کا بیٹا بڑا ہوکر نالائق انجینئر بن رہا ہے اور ایک چپراسی کا بیٹا چپراسی بن رہا ہے۔ اس طرح‌ ہم دنیا میں‌ کبھی آگے نہیں نکل پائیں‌ گے۔

میں‌ سر راحت کا تہ دل سے شکر گزار ہوں‌ جنہوں‌ نے اصلی تعلیم میرے سینے میں‌ منتقل کی جس نے مجھے اس لائق بنایا کہ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سب سے ہوشیار شاگردوں‌ کے درمیان اپنے پیر جما سکوں۔ میں سمجھتا ہوں‌ کہ ہم سب کو پڑھنے والے ان افراد تک جو کہ آگے چل کر اعلیٰ‌ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ پیغام پہنچنا چاہیے کہ نقلی سرٹیفکٹس کے پیچھے بھاگتے نہ پھریں۔ نہ سندھ یونیورسٹی کی اور نہ ایگزیکٹ سے حاصل کی ہوئی جعلی ڈگری کی کوئی اہمیت ہے۔ آپ شاید ایک ایسے بغیر لیاقت کے ڈاکٹر بن جائیں‌ جو ہر بیماری کے لیے پیراسٹامول دے یا پھر ایسے انجینئر جو دستاویزات پر ربڑ کی مہر کے ٹھپے لگاتا رہے لیکن آپ اس سے کبھی دنیا کے مقام پر کھڑے نہیں ہو پائیں گے۔ پاکستان میں‌ نظام سے لڑنے کے لیے جو بھی کرنا پڑے وہ کریں لیکن یاد رہے کہ سینے میں‌ علم ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).