جعلی خبروں کی دستاویزات کون تیار کرتا ہے؟


اسلام آباد(احمد نورانی)جعلی خبروں کی دستاویزات کون تیار کرتا ہے؟ صحافیوں کی ظاہر دستاویزات نادرا ڈیٹا بیس کے سرچ لاگس تک عام اہلکاروں کی رسائی نہیں ہے۔ صحافی اسد کھرل نے ملزم کے 166اکاؤنٹس کا انکشاف کیا تھا، جب کہ تحقیقات سبوتاژکرنے کے پیچھے طاقتور گروہ ملوث ہے۔ تفصیلات کے مطابق، جہاں جعلی خبریں ایجنڈہ فیکٹریوں کا اہم ہتھیار بنتی جارہی ہیں، جنہیں اپنے ناقدین اور مخالفین کے خلاف غلط بیانیے قائم کرکے استعمال کیا جاتا ہے۔ بظاہر کوئی بھی اس بات کی تحقیقات میں دلچسپی نہیں لے رہا کہ یہ جعلی دستاویزات کون تیار کرتا ہے، جنہیں پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ سپریم کورٹ کے قصور واقعہ کے ملزم عمران علی کے 37بینک اکاؤنٹس کی اسٹوری کا نوٹس لینے کے بعد ایک اور صحافی اسد کھرل نے پورے وثوق سے کہا کہ عمران کے 166بینک اکاؤنٹس ہیں۔ جب کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور حکومت کے تمام متعلقہ ادارےواضح طور پر اعلان کرچکے ہیں کہ پاکستان میں عمران کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے۔

اس کے باوجود وہ صحافی اپنی اسٹوری پر قائم ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اس کی فراہم کردہ معلومات درست ہیں۔ ایک اینکر تو اس حد تک گئے تھے کہ انہوں نے کہہ دیا تھا کہ عالمی نوعیت کے جرائم پیشہ افراد کا ایک طاقتور ریکٹ بچوں کی نازیبا فلمیں بنانے کے گھناؤنے کاروبار میںملوث ہے، جب کہ پاکستان میں موجودہ حکومت کے کچھ اہم افراد بھی اس کاروبار میں ملوث ہیں، جنہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مدد سے ان بینک اکاؤنٹس کو ختم کرادیا ہے۔ ان صحافیو ں نے جو دستاویزات ظاہر کیے ہیں، وہ نادرا ڈیٹا بیس کے ’’سرچ لاگس، ، ہیں، جس تک نادرا کے عام اہلکار تک کی رسائی نہیں ہے۔ یہاں اس بات کی تحقیقات کی اشد ضرورت ہے کہ ان ’’سرچ لاگس، ، تک رسائی کس کی تھی، تاکہ یہ بات واضح ہوسکے کہ ایجنڈہ ترتیب دینے والی فیکٹریوں کے پیچھے کون ہے جو یہ گمراہ کن مہم چلا رہا ہے، جس نے بچوں سے زیادتی کے کیسز کی تحقیقات کو ناکامی سے دوچار کردیا ہے۔

ٹی وی چینلوں پر عمران علی کے شناختی کارڈ نمبر دکھائے جانے کے سبب مختلف بینکوں نے اس کا شناختی کارڈ نمبر چیک کیا کہ کہیں اس شخص کا بینک اکاؤنٹ ان کے یہاں تو نہیں ہے۔ تمام بینک نادرا کے مرکزی ڈیٹا بیس سے منسلک ہیں اور جب بھی کوئی بینک کسی بھی فرد کا ڈیٹا اس کے شناختی کارڈ کے ذریعے چیک کرتا ہے تو نادرا ڈیٹا بیس میںاس شناختی کارڈ نمبر سے ایک سرچ لاگ قائم ہوجاتا ہے۔ صرف نادرا کی اعلیٰ مینجمنٹ اور کچھ اہم قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو ہی اس ڈیٹا بیس اور سرچ لاگس تک رسائی ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سرچ لاگ سے جو کچھ حاصل کیا گیا وہ ہی آگے بڑھادیا گیا، وہ لاگس صرف یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شناختی کارڈ نمبر کی مدد سے بینک اکاؤنٹس تلاش کرنے کی کوشش کی گئی، اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں تھا کہ اس شناختی کارڈ کے حامل کا اس بینک میں اکاؤنٹ بھی ہےلیکن بتانے والے نے اینکر پرسن کو گمراہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس شخص کے بینک اکاؤنٹس کی فہرست ہے۔

درحقیقت یہ صرف بینک کی طرف سے شناختی کارڈ کے حوالے سے کیا گیا محض سرچ ریکارڈ تھا۔ باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر اس سرچ لاگ سے 37بینکوں کی فہرست میڈیاپرسن کو فراہم کی گئی تھی، جس نے اسے 37بینک اکاؤنٹس کی فہرست بناکر پیش کیا۔ بعد ازاں، مزید بینکوں نے عمران علی کے اکاؤنٹس چیک کیے، کئی بینکوں نے ایسا متعدد مرتبہ بھی کیا، جس کی وجہ سے سرچ لاگ کی فہرست طویل ہوتی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ، سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد ایک نیوز چینل نے ایک اسٹوری بریک کی کہ قصور واقعہ کے مرکزی ملزم عمران علی نے بینک اکاؤنٹس کی تعداد 162تک جاپہنچی ہے اور اس کے بعد انہوں نے اسد کھرل نامی رپورٹر کو آن لائن بھی لیا۔ جس نے سامعین کو بتایا کہ جب اس نے مذکورہ چینل کو ابتدائی طور پر خبر دی تھی اس وقت سے بیپر دینے تک عمران علی کے بینک اکاؤنٹس کی فہرست 166تک پہنچ چکی ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ تمام ادارے جو اس معاملے کی تحقیقات یا مانیٹرنگ کررہے ہیں، جس میں سپریم کورٹ بھی شامل ہے اسے ابھی یہ بھی دیکھنا ہے کہ سرچ لاگس کی فہرست کون فراہم کررہا تھا، کیوں کہ یہ تلاش بینکوں کی جانب سے کی جارہی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے وہ کون سے اہلکار تھے جو یہ فہرست اینکرز اور اسد کھرل کو فراہم کررہے تھے، جب کہ یہ عوام کی بڑی تعداد کو بے وقوف بنارہے تھے اور پاکستان کی گزشتہ چند برسوں کی تاریخ کے سب سے سنگین جرم کی تحقیقات کو سبوتاژکررہے تھے۔

ایسے اینکرز اور جرنلسٹ کے پیچھے طاقتور گروہ ہے جو انہیں جھوٹی معلومات، جھوٹی دستاویزات اور من گھڑت کہانیاں دیتے ہیں اور ایسا زیادہ تر سیاسی مقاصد اور زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے لئے کرتے ہیں، جبکہ ایپکس عدالت میں آج زینب زیادتی اور قتل کیس کی سماعت ہونے جارہی ہے، یہاں یہ بھی اہم ہے کہ میڈیا پرسنز کو بینک اکاؤنٹس کی فہرست لیک کرنے سے متعلق تحقیقات کے لئے کمیشن کا حکم دیا ہے۔ تیکنیکی اعتبار سے یہ بہت آسان ہوگا کہ آسانی سے نکالا جائے اور حقیقی مجرم تک پہنچا جائے لیکن عملی طور پر یہ بہت مشکل ہوگا کیونکہ پروپیگنڈا پھیلانے میں مضبوط اور طاقتور کی مداخلت ہے۔

صرف چند ماہ قبل ہی احمد وقاص گورایہ، سلمان حیدر، عاصم سعید سمیت کچھ بلاگرز کو ان کے تنقیدی نظریات پر گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ تمام تعلیم یافتہ اور معزز پاکستانی تھے۔ ان افراد کیخلاف کارروائی میں قومی سطح پرسوشل میڈیا میں ایک جھوٹی مہم چلائی گئی اور توہین رسالت کا معاملہ بنا دیا گیا۔

وہ لوگ جو ان بلاگرز کو ذاتی طور پر جانتے تھے وہ حقائق سے آگاہ تھے کہ یہ بلاگرز کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن توہین رسالت نہیں۔ جرنلسٹس سمیت کئی لوگوں نے بتایا کہ ذاتی طور پر یہ پاکستان کے معزز شہری ہیں اور توہین رسالت میں ملوث نہیں ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا چینلز اور ان اینکرز نے ان کیخلاف ایک نفرت انگیز مہم شروع کردی اور اس میں کوئی دوسرا خیال بھی نہیں دیا گیا۔ ان بلاگرز اور ان کے اہلخانہ کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔ لیکن ایسے اینکرز اور جرنلسٹس نے ان بلاگرز اور ان کے اہلخانہ کیخلاف مہم جاری رکھی اور ان کیخلاف نفرت کو ہوا دیتے رہے، مبینہ طور پر ایسا کہا جاتا رہا کہ ان بلاگرزکا تعلق فیس بک اور ٹوئٹر پر چلائے جانیوالے توہین رسالت کے پیج ’’بھینسا، ، سے ہے۔ یہاں تک کہ اس وقت اس معاملے کو کھنگالنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ اصل میں اس پیج کے پیچھے کون ہے۔ یہاں تک کہ ایسے میڈیا پرسن جنہوں نے بلاگرز کی اصل تصویر پیش کرنے اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ یہ معزز اور دیانتدار شہری ہیں اور توہین رسالت کے معاملے سے ان کا تعلق نہیں ہے، انہیں ایجنڈا اینکرز اور صحافیوں نے کافر کہا۔ سلمان حیدر، احمد وقاص گورایہاور عاصم سعید کی اصل تصویر پیش کرنے والے میڈیا چینلز اور ان کی انتظامیہ کیخلاف بھرپور مہم چلائی گئی۔

یہ سلسلہ یہیں تک نہیں رکا، اس کے بعد ایسےپیشہ ور صحافی جنہوں نے تنقیدی رپورٹ لکھیں انہیں بھی بھینسا پیج کے ایڈمنسٹریٹرز سے جوڑ دیا اور ان کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی لیکن سب سے اہم بات یہ کہ کسی عدالت نے اس کی تحقیقات کے لئے نہیں کہا کہ توہین رسالت سے متعلق پروپیگنڈا کرنے والے اور معزز پاکستانی بلاگرز کیخلاف مہم کے پیچھے کون ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو معاملے کی تحقیقات اور رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ ان بلاگرز کیخلاف انٹرنیٹ پر توہین رسالت سے متعلق مواد ڈالنے کےکوئی شواہد نہیں ملے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایات پر اب ایف آئی اے تحقیقات کررہی ہے کہ توہین رسالت پر مبنی پیج کون چلا رہا تھا اور مواد بھی جمع کیا ہےلیکن اب بھی یہاں ایک نکتہ باقی ہے کہ ایسے کوئی احکامات جاری نہیں کیے گئے کس نے جھوٹی اطلاعات پھیلائیں معزز پاکستانیوں پر توہین رسالت کے الزامات لگائے۔

اتوار کی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سماعت اہم ہوگی اور اس سے اصل ماسٹر مائنڈ سے متعلق مدد ملے گی، اگر تحقیقات کا ایک ایسا حکم جاری ہوجاتا ہے کہ کس نے یہ کیا اور اینکرز کو دستاویزات دیں اور اب ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ جھوٹی رپورٹ پر رہیں، اس سے ممکن ہوسکتا ہے کہ عام لوگوں کا ذہن جھوٹے پروپیگنڈے سے زہر آلود ہو۔ ​جب کہ مسلم لیگ ن کے ایک رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف کے خلاف جب سے پاناما کیس شروع ہوا ہے، ایک مخصوص گروہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں غیر یقینی اور ہیجانی کیفیت پیدا ہوتاکہ وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور شریف خاندان کو بلاواسطہ یا بالواسطہ ہدف بنایا جائے تاکہ ان کا میڈیا ٹرائل ہو۔
بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).