گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا


ہم میں سے بھلا کون ہے جو بچپن سے نہیں سن رہا کہ علم حاصل کرو بھلے چین جانا پڑے یا حصولِ علم ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ یا غور و تدبر کرو اور کائنات مسخر کرو وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جب طلوعِ اسلام کے لگ بھگ دو سو برس بعد سماجی و سائنسی علوم کی یونانی کلید مسلمانوں کے ہاتھ آئی تو انھوں نے کئی ایسے انسانی و کائناتی عقدے حل کیے جن کی بنیاد پر یورپ میں جدیدیت کی عالمانہ عمارت کھڑی ہوئی اور بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی۔

آج کیا حالات ہیں؟ اس کا تھوڑا بہت اندازہ دی ٹائمز ہائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی کی تازہ ترین ریٹنگ سے ہوسکتا ہے۔ سال دو ہزار پندرہ کی ریٹنگ کے مطابق دنیا کی چوٹی کی انیس معیاری یونیورسٹیوں میں صرف امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی تیرہ برس سے پہلے پائیدان پر ٹکی ہوئی ہے۔

اگر دنیا کی چوٹی کی ایک سو یونیورسٹیاں دیکھی جائیں تو ان میں سے اکیاون امریکی، نو برطانوی، کینیڈا، جرمنی، سوئٹزلینڈ کی چار چار، آسٹریلیا اور فرانس کی تین تین سویڈن، ڈنمارک اور اسرائیل کی دو دو، بلجئیم، روس، فن لینڈ اور ناروے کی ایک ایک یونیورسٹی شامل ہے۔

جب کہ دنیا کی پانچ سو چوٹی کی یونیورسٹیوں میں بھی آپ کو امریکا، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا، فرانس، سویڈن، ڈنمارک، بلجئیم، آئر لینڈ، اسپین، پرتگال، یونان، چیک ری پبلک، روس، آسٹریا، اٹلی، فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، جاپان، چین، مکاؤ، ہانگ کانگ، تائیوان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ، تھائی لینڈ، بھارت، اسرائیل، برازیل، چلی اور جنوبی افریقہ چھائے ہوئے ملیں گے۔ مسلمان ممالک کی تعداد پچاس سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن ٹاپ پانچ سو یونیورسٹیوں میں بس دو مسلمان ممالک یعنی ترکی کی پانچ اور ایران کی ایک یونیورسٹی شامل ہے۔

مسلمان ممالک میں اعلیٰ تعلیمی روایات نہ پنپنے کے اسباب پر پاکستان کے معروف سائنسداں اور استاد ڈاکٹر عطا الرحمان بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ مگر میرا مقدمہ یہ ہے کہ سوچ پر طرح طرح کے شعوری و لاشعوری پہروں کے ہوتے اعلیٰ تجزیاتی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنے والے بین الاقوامی معیار کے تعلیمی ادارے کیسے وجود میں آ سکتے ہیں؟

ٹاپ فائیو ہنڈرڈ کی فہرست میں آنے والی جتنی بھی یونیورسٹیاں ہیں ان میں جہاں وسائل، کوالیفائیڈ فیکلٹی اور اکیڈمک خود مختاری کا کلیدی کردار ہے۔ وہیں یہ قدر بھی مشترک ہے کہ ان یونیورسٹیوں میں مکھی پر مکھی مارنے کے رواج کے بجائے منطقی انداز سے علمی عقدوں کو کھولنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ہر ایک کی طرح اس فقیر کی بھی بہت خواہش ہے کہ اگر بھارت کی چھ، ترکی کی پانچ اور ایران کی ایک درس گاہ ٹاپ فائیو ہنڈرڈ میں آ سکتی ہے تو پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی کیوں نہیں؟ مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پے دم نکلے۔

پاکستان کے تعلیمی بزرجمہروں کا خیال ہے کہ اگر یونیورسٹیوں کی فنڈنگ بہتر ہوجائے اور وہاں سے دھڑا دھڑ پی ایچ ڈی پیدا ہونے لگیں تو معیار بہتر ہوجائے گا۔ کسی کا دھیان اس جانب نہیں کہ ایسے پی ایچ ڈیز کا کیا فائدہ کہ جن کی ننانوے فیصد کھپت صرف اندرونِ ملک ہو اور بقیہ ایک فیصد باہر جائیں تو انھیں اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے۔ ا

ور انھیں بیرونِ ملک فیکلٹی یا کسی اور ادارے میں ملازمت دینے والے کے لاشعور میں یہ بات کلبلاتی رہے کہ اچھا تو یہ پاکستان کا ڈگری یافتہ ہے، وہی پاکستان نا جہاں جعلی ڈگریوں کا سب سے بڑا اسکینڈل پکڑا گیا، وہی پاکستان نا جہاں معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے پالیسیاں بنانے والے ارکانِ پارلیمان میں سے آدھوں کی قابلیت اور ڈگریاں مشکوک ہیں۔

وہی پاکستان نا جہاں کسی کے لیے بھی درس گاہ کے اندر یا باہر عمومی پاپولر سوچ سے الگ کوئی بات کرنے یا لکھنے چاہے سے پہلے اپنی سلامتی کے بارے میں زبان یا قلم ہلانے سے پہلے دس بار سوچنا پڑتا ہے۔ اقبال نے تو سو برس پہلے کہا تھا مگر ایسا کہا کہ لگتا ہے کہ آج ہی کے لیے کہا ہے۔

گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ

صرف بیس پچیس برس پہلے ہی کی تو بات ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں کی فیکلٹیز میں بیرونِ ملک کی شہرت یافتہ جامعات سے فارغ التحصیل اساتذہ کی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی تھی۔ افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا کے سیکڑوں طلبا و طالبات پاکستانی جامعات میں سوشل سائنسز سے زیادہ خالص سائنسی علوم پڑھنے آتے تھے۔ جوں جوں دلیل اور علم کے لیے زمین اور فضا تنگ ہوتی چلی گئی توں توں دور دیس سے آنے والے پرندے بھی اڑتے چلے گئے۔

آج یہ حال ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں غیرملکی طلبا شاید تبرکاً ہی ملیں۔ ان سب کا رخ بھارت کے تعلیمی اداروں کی جانب ہوتا چلا گیا۔ جب یہ تعلیمی سفیر مستقبلِ قریب میں اپنے اپنے ممالک کی بیوروکریسی، صنعت، اکیڈمکس اور انٹلکچوئیل گیلکسی کا حصہ بنیں گے تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان کا جھکاؤ پاکستان کی جانب کتنا ہوگا اور ان کی نظروں میں پاکستان کا امیج کیا ہوگا۔

ٹاپ فائیو ہنڈرڈ کی فہرست میں آنا تو بڑی بات ہے ابھی تو ہم اس بحث سے نہیں نکلے کہ نصاب کو جدید تقاضوں سے کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔ اعلی تعلیم کی دیکھ بھال وفاق زیادہ بہتر کرسکتا ہے کہ صوبہ، بجٹ میں بنیادی تعلیم کے لیے زیادہ رقم رکھی جائے کہ اعلی تعلیم کے لیے؟

بیس پچیس برس پہلے تک جو بھی اعلیٰ یا ادنی تدریس ہوا کرتی تھی وہ زیادہ تر سرکاری یا مشنری تعلیمی اداروں میں تھی۔ لیکن نجکاری، مارکیٹنگ، کارپوریٹ کلچر اور وسائل کی عدم مساوات کے سبب ہوا یہ کہ سرکاری یونیورسٹیاں علمی و ملازمتی چراگاہیں بنتی چلی گئیں اور نجی اعلیٰ تعلیمی اداروں نے اپنے اردگرد بھاری فیسوں کی باڑھ اس قدر اونچی کردی کہ آبادی کے ایک بڑے طبقے کے لیے اسے پھلانگنا ممکن نہ رہا۔ ان حالات میں سب سے پہلا قتل اس بچے کا ہوا جو میرٹ کے تمام اصولوں پر پورا اترنے کے باوجود صرف اس لیے آگے نہیں بڑھ سکتا کہ اس کے پاس مالی وسائل نہیں۔

جس دن تعلیم بنیادی حق کے خانے سے نکل کر کارپوریٹ کلچر کے عقد میں دے دی گئی اس دن ہی ٹاپ فائیو ہنڈرڈ لسٹ میں آنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔

کتنی خوشی ہوتی ہے جب یہ خبر آتی ہے کہ فلاں بچے نے تمام مضامین میں اعلیٰ ترین گریڈز لے کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ یا اتنی کم عمر میں فلاں بچی نے فلاں علمی اعزاز حاصل کیا۔ لیکن ان بچوں کو جگہ بھی ملتی ہے تو بیرونِ ملک کسی ادارے میں۔ اور پاکستانی محض یہ بتا بتا کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ورلڈ بینک میں جو نائب صدر ہے وہ اپنا پاکستانی ہے۔ ناسا میں جو چیف سائنسٹ ہے وہ اپنے گوجرانوالے کا ہے اور امریکی صدر کی ایڈوائزری ٹیم میں جو برخوردار ہے وہ کل تک اسی گلی میں کرکٹ کھیلتا تھا۔

ٹاپ ہنڈرڈ یا فائیو ہنڈرڈ یونیورسٹیاں اپنے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑتیں سینے سے لگا کے رکھتی ہیں تاکہ باقی سماج بھی ان کی ویسی قدر کرے جس کے وہ مستحق ہیں۔ جس دن یہ ہوگیا اس دن پاکستان کی بھی ایک یا دو یا تین یا چار درسگاہیں ٹاپ ہنڈرڈ میں نہ سہی ٹاپ فائیو ہنڈرڈ میں اپنی جگہ ضرور بنا لیں گی۔ بس ایک کام کیجیے اپنے پودوں پر طے شدہ نظریات کا ابلتا پانی انڈیلنے کے بجائے انھیں فطری ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع فراہم کردیں۔ باقی کام یہ خود کرلیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).