ساڈی ذات قصوری، اسیں وچ قصور دے رہنے آں



زینب کی تصویر ایسی تھی۔ سب کو  اتنی اپنی لگی تھی کہ اس نے کہرام مچا دیا۔ دو لوگوں نے تو جان دے دی۔ وہ زینب کے لیے انصاف کی دہائی دے رہے تھے۔ زینب کی اس ایک تصویر  نے سب کو قصور پر فوکس کر دیا۔ زینب کی اسی اک تصویر نے سب کی اوقات ظاہر کر کے رکھ دی۔

 باپ بیٹی کا تعلق بہت پیار کا ہوتا ہے۔ دکھ میں انسان دو ردعمل دیتا ہے۔ وہ صبر کرتا ہے یا وہ غم ظاہر کرتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ یہاں باپ نے تفتیشی ٹیم لیڈر کے بارے میں متعصب اعتراض کیا۔ ملزم گرفتار ہوتا ہے۔ والد دعوی کرتے ہیں کہ یہ انہوں نے پکڑوایا ہے۔   گرفتاری پر انعام تھا۔ مت سوچیں میری طرح، آپ بھی دکھ جائیں گے۔ یہ زینب کے والد پر کوئی اعتراض نہیں۔ یہ اعتراض آپ پر ہے، خود اپنے آپ پر ہے۔ آئینہ دیکھیں آپ ایسے ہیں، میں ایسا ہوں۔

سپریم کورٹ بیٹھی اس کیس کا جائزہ لے رہی ہے۔  سوشل میڈیا کے ایک حصے نے تفتیش پر خاصے اعتراض کر دیے ہیں۔ الزامات لگا دیے ہیں۔ اشتعال  پھیلا ہے۔ اسے اور پھیلایا ہے۔ ان اعتراضات کو اپنی خفیہ تحقیق بنا کر اینکر ڈاکٹر صاحب نے اپنے منہ میں رکھ کے گولہ بنا کر چلا دیا ہے۔ اب مائی لارڈ سارے میڈیا کو عدالت میں بلا کر عزت افزائی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جو مقامی سطح پر پولیس اور انتظامیہ کے کرنے کا کام تھا ۔ وہی کام اب اعلی ترین عدالت بیٹھی کر رہی ہے۔

ایسا یوں ہوا کہ بالاخر ہم نے ایک سازش ڈھونڈ لی۔ دور کی بتی پیچھے چل پڑے ہیں۔ سپریم کورٹ بھی مجبورا خاصا وقت ڈاکٹر اینکر صاحب کی بتائی گمنام منزلوں پر جائے گی۔ یہاں پھر بھی کچھ ہو ہی جائے گا۔ حکومت کا دیکھ لیں۔

وزیراعلی پنجاب تالیاں بجاتے مائک چھپاتے پکڑے گئے ہیں کیمروں پر۔ کیا زینب کیس میں ہم یہ تالیاں دیکھنا چاہتے تھے۔ ہم اتنے بے شرم ہیں کہ اس واقعے یعنی ان تالیوں کے  بھی جواز گھڑ رہے جو صاف بتا رہا کہ ہم کدھر جا پڑے ہیں۔ ہماری اپوزیشن کے وہ لوگ جو اس کیس پر بولے ہیں۔ ان کے بیانات دیکھ لیں۔ سیاست کے علاوہ اس میں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ فکری طور پر اتنے غریب ہیں کہ آنے والے وقت کا تو چھوڑیں چند گھنٹے چند دن بعد کے لیے بھی کوئی پروگرام نہیں  رکھتے۔  ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ۔ انہیں اب اپنی بات کہنے کو لاشیں بھی ملیں تو اس پر سیاسی گدھ بن کر منڈلانے لگتے ہیں۔

کیا آپ زینب کیس میں یہی سب دیکھنا جاننا چاہتے تھے۔ زینب تو وہ پاک روح تھی جس کو دیکھا تو ہم آپ سب بے چین ہوئے۔ ملزم سامنے آیا۔ کیا ہم میں سے کسی نے یاد رکھا کہ یہ پہلی بچی نہیں تھی۔ زینب کی تصویر تو اک مکروہ سلسلہ روکنے کا سبب بنی۔ یہ سلسلہ جس پہلی بچی سے شروع ہوا اسے یاد کریں ذرا۔ گنتے رہیں ایک دو تین چار پانچ چھ سات ہم کب جا کر جاگے ہیں۔ پولیس مقابلے میں اک بندہ مجرم سمجھ کر بے گناہ مارا گیا۔ اس کے وارث اپنا گھر بار چھوڑ گئے کہ علاقے میں رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ ان کی تکلیف کا سوچیں۔

پتہ ہے آپ کو۔۔۔ آپ کی میری۔۔۔ اپنے اور پرائے بچوں کے حوالے سے حساسیت ہی ختم ہو چکی ہے۔ کوئی بچہ مر جائے تو لوگ تسلی دیتے ہوئے یہ ضرور کہتے ہیں کہ یار بچہ تھا، چھوٹا تھا۔ اللہ کی مرضی خیر ہے، صبر کرو ،کوئی نہیں۔ یاد کریں آپ کو یاد آئے گا کوئی نہ کوئی بچہ جب مرتا ہے۔ کچھ دن بعد اس کا دادا دادی نانا نانی کوئی بزرگ بھی گزر جاتا ہے۔ کوئی نہ کوئی بزرگ اسی ہنستے کھیلتے بچے میں اپنی زندگی دیکھتا زندہ رہ رہا ہوتا۔ بچہ جاتا ہے تو اس کی آس بھی ٹوٹ جاتی وہ بھی چلا جاتا ہے۔  بچہ زندگی کا نام ہے دوسرا نہیں پہلا نام ۔ بہت رونق صرف اس ایک کے دم سے ہوتی ہیں بلکہ صرف اسی کے دم سے۔

ہم بچوں سے زندگی سے ویسے ہی دور جا کر بس گئے ہیں ۔ زینب کے کیس میں بہت سوالوں کا جواب نہیں ملا۔ ہم وہ سوال سوچ ہی نہیں رہے۔

ملزم وارداتیں کرتا اسی آبادی میں رہ رہا تھا۔ کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ اس حوالے سے ایک نیوز سٹوری پڑھی۔ جس میں مختلف لوگ اسی ملزم کے مختلف واقعات بیان کرتے ہیں۔ کیسے اک بچی کو چھیڑنے پر اسے مار پڑی تھی۔ وہ نقابت تو کرتا تھا لیکن ایسی محفلوں میں نعت خوانوں کے پیسے بھی لوٹ لیتا تھا۔  مسجد کے غلے سے پیسے چرانے کا الزام بھی پڑھنے کو ملا۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بہت اہم ہیں۔ اس پر کسی رپوٹر نے کام نہیں کیا، کرنا چاہئے تھا۔ وہ احتجاج میں پیش پیش رہتا ہے۔ احتجاج ختم کرنے پر لڑتا ہے۔ واقعے کے بعد داڑھی صاف کرا لیتا ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ سے بچنے کو کیسے بیماری کے ڈرامے کرتا ہے۔ کتنی چھوٹی چھوٹی عام سی باتیں ہیں۔ یہی ہم نے اگنور کیں۔ انہیں چھوٹی باتوں نے اسے پکڑوایا۔

بازار میں بیٹھے دکانداروں کو، مدرسے میں بیٹھے استاد کو۔ گھر بیٹھی خاتون کو۔ راہگیر کو ، پولیس کے عام سپاہی کو بہت کچھ جاننے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ چھوٹی باتیں جن پر نظر رکھ کر ہم بڑے حادثے سے بچ سکتے ہیں۔ یہ تو چند نام لکھے ہیں جانے کتنے اور لوگ متعلق ہیں۔ گھر والوں کا بھائی بہنوں کا کزنوں کا دوستوں کا محلے داروں کا بھی قصور ہے ۔ انہیں بھی جاننا ہے سیکھنا ہے اس واقعے سے ۔ یہ سب ہیں جن سے غلطی ہوئی ہے جو قصور وار ہیں۔ کوتاہی کے۔

ہمیں مبالغوں سے بچنا ہے۔ حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرنی ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین کی سننی ہے۔ بہت کچھ ٹھیک کرنا ہے۔ یہ تب ہی کریں گے جب  جانیں گے۔

اک بات بتائیں کیا آپ اپنے بچوں کے ساتھ قصور جا کر رہنا پسند کریں گے ؟

قصور والو، آپ پر بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ ایک ہی قسم کی بری خبریں بار بار آپ کے شہر سے آ رہی ہیں۔ اپنے شہر کے لیے سوچو، راستہ ڈھونڈو کہ یہ خود ہی کرنا ہے۔ دل چھوٹا نہیں کرنا۔ قصور وار آپ ہی نہیں، ہم سب بھی ہیں۔ تب تک تو ہیں جب تک ہم حل نہیں ڈھونڈتے۔

قصور کے بابا بلھے شاہ نے کہا تھا۔ اسیں قصوری، ساڈی ذات قصوری، اسیں وچ قصور دے رہنے آں۔ یہ پڑھتے رہیں۔ لگتا ہے کہ سب کا ہی قصور ہے۔ سب ہی قصور میں جا بسے ہیں۔ اپنا اپنا قصور جان لیں، اسے ٹھیک کر لیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi