ڈاکٹر شاہد مسعود قدیم حق گو علما کی طرح سزا سے نہیں گھبراتے


بعض افراد خوب ہنس رہے ہیں کہ آج ڈاکٹر شاہد مسعود سپریم کورٹ میں اسی طرح 37 اکاونٹ پیش نہیں کر پائے جس طرح وہ کبھی 35 پنکچر پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ ثبوت پیش نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ الزام غلط ہے۔ ڈاکٹر صاحب خدشہ ظاہر کر چکے تھے کہ اگر مافیا کو اکاونٹ نمبر پتہ چل گئے تو وہ ڈی ایکٹی ویٹ کر کے غائب کر دیے جائیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ پچھلے تین دن میں ضرور یہی ہوا ہو گا کہ کسی نے ڈاکٹر صاحب کے موبائل فون کو ہیک کر کے سارے اکاونٹ غائب کر دیے ورنہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آج ڈاکٹر صاحب وہ اکاونٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے میں ناکام رہتے۔ جہاں تک سزا کی بات ہے تو وہ ہر قوم نے حق بولنے والے عالموں کو دی ہے۔

قدیم یونان میں سچ بولنے پر سقراط کو زہر کا پیالہ پلایا گیا تھا مگر وہ آج بھی سچائی کی علامت بن کر زندہ ہے اور جس کمہار نے وہ پیالہ بنایا تھا اس کا کوئی نام تک نہیں جانتا۔ برونو آسمانوں کی خبر لایا تو اسے بھی نہ چھوڑا گیا۔ جب اس نے یہ بتایا کہ ہر ستارہ درحقیقت ایک سورج ہے جس کے اپنے سیارے بھی ہو سکتے ہیں جن پر زندگی کا امکان ہے، تو اسے جنت اور جہنم کا منکر قرار دے کر برہنہ کر کے الٹا لٹکا دیا گیا اور پھر زندہ جلا دیا گیا۔ گلیلیو گلیلی کو یہ کہنے پر کہ سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، گمراہی کے الزام میں قتل کیا جانے لگا تھا مگر وہ معافی مانگ کر بچ گیا۔ لیکن ڈاکٹر شاہد مسعود اپنی جان بچانے کے لئے معافی نہیں مانگیں گے۔ وہ ابن سینا، الکندی، ابن رشد، ابن خلدون اور رازی کی روایت کے امین ہیں جو سزا سے بچنے کے لئے حق سے نہیں پھرتے۔

یعقوب الکندی فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو ملا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سر عام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اور اس کے گرد جمع ہوئے عوام قہقہہ۔

یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہور عالم ابن رشد کو بے دین قرار دے کر اس کی کتابیں نذر آتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اور نمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے آخری دن ذلت اور گمنامی کی حالت میں بسر کیے۔

جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب قرار دیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اور وہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھے سو سال تک مشرق اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔ اسے بھی گمراہ کن فاسقانہ نظریات کا حامل قرار دیا جاتا تھا۔

عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اسے جھوٹا، ملحد اور کافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے سزا دی کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔

سچ کی یہ بھاری قیمت بڑے عالموں کو چکانی پڑتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی انسداد دہشت گردی قانون، توہین عدالت اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 193 کے تحت سزا دی جا سکتی ہے۔ یا ممکن ہے کہ قانون میں کوئی ایسا راستہ بھی نکال لیا جائے جو ڈاکٹر صاحب کو ان کی خود تجویز کردہ سزا کے مطابق سڑک پر پھانسی دینے کا باعث بن جائے تاکہ ان کو سکون قلب اور اطمینان ملے۔ ہاں اگر ڈاکٹر شاہد مسعود غلط بیانی کا اعتراف کر کے معافی مانگیں تو ممکن ہے کہ عدالت عظمی ان کو بخش دے لیکن ہماری ذاتی رائے میں ڈاکٹر صاحب گلیلیو کے جانشین نہیں ہیں جو سزا سے ڈر کر معافی مانگ لیں، وہ الرازی کے جانشین ہیں خواہ جتنی مرضی کتاب مار دی جائے، ان کا سر قائم رہے گا اور وہ ڈریں گے بھی نہیں۔
ڈٹے رہیں ڈاکٹر شاہد مسعود، ہماری رائے میں آپ کا موقف درست ہے کہ آپ کا کام صرف الزام لگانا ہے تحقیقات کرنا نہیں، آپ واضح کر چکے ہیں کہ تحقیقات کرنا چیف جسٹس یا آرمی چیف کا کام ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar