اختتام پر ڈاکٹر شاہد مسعود ایک بار پھر روسٹرم پر 


مظہر عباس صاحب کی باری آئی تو انہوں نے صحافی کی بنیادی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہ کہ کچھ سنہرے اصول کبھی نہیں بھولنے چاہیں، جب بھی خبر بارے غلط فہمی ہو، بہتر ہے اسے چھوڑ دیا جائے یا خبر دینے سے پہلے مزید تحقیقات کی جائیں۔ جلد بازی میں خبر کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے نائن الیون کے ہنگام ایک انتہائی اہم واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا جیسے ہی جڑواں ٹاورز سے جہاز ٹکرائے انہیں آفس میں ایک پریس ریلیز موصول ہوئی۔ لشکر طیبہ کے لیٹر ہیڈ سے جاری پریس ریلیز میں اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت اے ایف پی کے ساتھ وابستہ تھے۔ حافظ سعید اور ان کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ادارے کے بیور و چیف نے جلد بازی میں خبر شائع کر دی۔ خبر چند منٹوں میں دنیا بھر میں ٹاپ سٹوری بن گئی۔ تھوڑی دیر بعد حافظ سعید کے ترجمان نے خبر کی مکمل تردید کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ یہ لشکر طیبہ سے منحرف کچھ شر پسند عناصر کی پریس ریلیز تھی جس کا حقیقت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ مظہر عباس نے ایک اور اہم نقطہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ خبر کی تصدیق یا تردید صرف شاہد مسعود کی نہیں بلکہ ان کے چینل کے مالک کی بھی ذمہ داری ہے۔

سلیم بخاری صاحب نے عرض کی کہ یہ پوری صحافتی برادری کی عزت کا سوال ہے، خبر کا محدود پیمانے پر غلط ہونا سنبھالا جا سکتا ہے لیکن ایسی خبر جو شاہد مسعود نے دی، اس کی محض تردید کافی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک نقطے پر فوکس کیا جانا چاہیے، پنڈورا باکس نہ کھولا جائے، قانون میں گنجائش ہے کہ معافی دی جا سکے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عادتاً ملزم نہ ہو تو سزا کم ہو گی؟ بخاری صاحب نے کہا کہ آج بھی وقت ہے ڈاکٹر صاحب معافی مانگ لیں۔ چیف جسٹس نے دوبارہ واضح کیا کہ ہم شاہد مسعود کو پریشر میں نہیں لائیں گے کہ وہ معافی مانگیں۔ وہ آئیں اور ری بٹل میں بات کریں۔

فہد حسین صاحب نے بتایا کہ شاہد مسعود کے بیانیے کے تین حصے ہیں، ایک سینتس اکاونٹس ، دو، بین الاقوامی نیٹ ورک کی جانب اشارہ، تین وفاقی وزیرکا ملوث ہونا۔ اکاونٹس والا معاملہ سٹیٹ بنک کی رپورٹ میں غلط ثابت ہو چکا ہے، باقی دو نقطوں پر جے آئی ٹی میں وضاحت ہو جائے گی۔ اس طرح پہلی بار غلط خبروں کا تدارک ممکن ہو پائے گا۔ غلط خبروں کا رجحان اس لئے پروان چڑھا کہ کبھی کسی کو غلطی پر سزا نہیں ملی۔ سپریم کورٹ اب کے بار سٹرٹیجک مداخلت کرے تا کہ میڈیا ریفارمز ہو سکیں۔ چیف جسٹس نے ایک بار پھر واضح کیا کہ فی الحال ایک نقطے پر فوکس کریں میڈیا اصلاحات کا معاملہ ایک اور کیس میں زیر سماعت ہے۔

اب منصور علی خان کی باری آئی جنہوں نے گزارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاہد مسعود ان کے پروگرام میں ڈیڑھ گھنٹے تک مہمان کے طور پر تشریف لائے، ان سے پچاس بار پوچھا گیا کہ کسی ایک اکاونٹ نمبر کی تفصیلات شئیر کر دیں۔ شاہد مسعود ایک بھی اکاونٹ نمبر دینے سے قاصر رہے، نادیہ مرزا کے پروگرام میں جا کر ڈاکٹر صاحب نے الزام لگایا کہ ان کے خلاف پروگرام کرنے کیلئے بدمعاشیہ نے اینکرز کو ڈھائی ارب روپے دئیے ہیں۔ اس روز ڈاکٹر صاحب کے مدعے پر دو پروگرام ہوئے، ایک میں نے کیا دوسرا نسیم زہرہ نے۔ ہماری بے عزتی ہو رہی ہے، براہ مہربانی نسیم زہرہ اور میرا اکاونٹ چیک کیا جائے کہ ڈھائی ارب ان میں تو نہیں آئے۔

اس موقع پر زینب کے والد کو افسردہ دیکھ کر اسلام آباد سے آئے صحافی عمران وسیم آبدیدہ ہو گئے، چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وسیم! مت رو بیٹے! ہم سب زینب سے شرمندہ ہیں۔ چیف جسٹس کی آواز بھر آئی اوران کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ انہوں نے ریمارکس دئیے کہ ہم انصاف نہیں کر سکے۔ ہم زینب کے والد کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ ان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ بار بار معاملات کو ایکسپوز نہ کریں۔ خاموشی اختیار کریں۔ جو بھی مسئلہ ہو وہ جے آئی ٹی میں بیان کریں۔ سماعت کے اختتام پر زینب کے والد ان سے ایک خاص نمبر لے جائیں جس کے ذریعے وہ اپنی شکایت چیف جسٹس تک پہنچا سکیں گے۔

حاجی امین صاحب نے اس موقع پر چیف جسٹس سے ملزم کو سر عام سزا دینے کا مطالبہ کیا اور کہا آپ آنے والے دنوں کے لئے اس واقعے کو مثال بنا دیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے پوچھا کہ بتایا جائے قصور کے ڈی ایس پی کا سروس پروفائل کیا ہے؟ ڈی ایس پی عارف بشیر کس کی سفارش پر کئی سال قصور میں تعینات رہا۔ آئی جی پنجاب کسی قسم کا پریشر نہ لیں ان کے ساتھ سپریم کورٹ کھڑی ہے۔

ایک بار پھر شاہد مسعود روسٹرم پر بلائے گئے۔ انہوں نے آتے ہی کہا کہ کوئی گستاخی ہوئی ہو تو معاف کردیں۔ عدالت نے ہدایات دیں کہ آپ بے تکلف ہوجائیں ، آپ سے نا انصافی نہیں ہوگی۔ پانچ منٹ میں بات مکمل کریں۔ شاہد مسعود گویا ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تو خبر دی ہی نہیں تھی، خبر اسے کہتے ہیں جو ٹی وی پر نشر ہونا شروع ہو جائے۔ میرے پاس اطلاع تھی ، اس اطلاع پر تحقیقات ہونی چاہیں۔ وہ اطلاع خبر نہیں، درخواست تھی۔ دوسری بار روسٹرم پر آتے ہی قبلہ ڈاکٹر صاحب کا مواد ‘دھبڑ دوس’ ہوتا دکھائی دیا۔ موصوف فرینک ہوتے چلے گئے اور ربط کھو بیٹھے۔ ‘دھبڑ دوس ‘ کی تکرار زیادہ سنائی دی۔ کہا دھبڑ دوس پر معذرت میری زبان پر چڑھ گیا ہے، یہ سٹوری ڈویلپونگ سٹوری ہے۔ آج پھانسی نہ لگوائیں۔ مجھے ویسے بھی اس پیمرا نے عادی قانون توڑنے والا قرار دے رکھا ہے جس کے قوانین میں نے ہی بنوائے۔ چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دئیے کہ ڈاکٹر صاحب! اگر اب آپ ‘اوفینڈر’ ثابت ہوئے تو آئندہ ‘اوفینس’ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

جواب میں ڈاکٹر صاحب بس یہی کہتے سنائی دیئے، کچھ بھی ہوجائے انہیں نہیں چھوڑوں گا۔ مجھے جیل بھیج دیں، پابندی لگا دیں، انہیں نہیں چھوڑوں گا۔ شاہد مسعود صاحب کی تمام باتیں اپنی جگہ، ایک دلیل میں البتہ وزن نظر آیا کہ میں غائب بھی ہو گیا تو کچھ عرصے بعد اگر کسی بچی کی ویڈیو منظر عام پر آگئی تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔۔؟ شاہد مسعود نے بار بار کہا کہ ملزم عمران کی جان کو خطرہ ہے۔ یہ اسے مار دیں گے۔ چیف جسٹس نے دو بار آئی جی سے گارنٹی لی کہ وہ ملزم کی جان کا تحفظ یقینی بنائیں۔ لیکن شاہد مسعود نے ایک بار پھر کہا کہ چیف جسٹس صاحب ملزم مارا جائے گا، اسے آپ اپنی تحویل میں لے لیں۔ یہ سنتے ہی کمرہ عدالت قہقوں سے گونج اٹھا۔ شاہد مسعود نے کہا کہ جے آئی ٹی نئی اور آزاد بنائیں مجھے موجودہ جے آئی ٹی پر اعتماد نہیں، کیونکہ یہی لوگ کیس میں فریق ہیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ انہوں نے اسی لئے انتہائی ایماندار افیسر بشیر میمن کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی قائم کی ہے جسے اوپن مینڈیٹ دیا جا رہا ہے۔

شاہد مسعود نے پھر سے کہا کہ دو زندگیاں خطرے میں ہیں، ملزم عمران اور زندہ بچنے والی بچی کائنات۔ ساتھ ہی انہوں نے چیف جسٹس سے گزارش کی کہ جناب میرا کیا بنے گا۔۔؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ پر سکیورٹی لگا دی تو اس سے آپ کی سکیورٹی مزید کمپرومائز ہو جائے گی۔

حاجی امین کے وکیل آفتاب باجوہ کونے میں بیٹھے برہم دکھائی دئیے کہ انہیں موقع نہیں دیا جا رہا۔ چیف جسٹس نے انہیں بھی روسٹرم پر بلایا۔ آفتاب باجوہ نے دعوی کیا کہ بچی کے ملزم کے گرفتاری میں حاجی امین فیملی کا اہم کردار ہے، مقامی پولیس افسران سے گلہ ہے جنہوں نے بروقت بات نہ سنی۔ آفتاب باجوہ نے تحقیقات حاضر سروس فوجی بریگیڈیئر سےکروانے کا مطالبہ کیا جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیوں؟ بریگیڈئر کو کیوں شامل کیا جائے؟ جسٹس منظور ملک صاحب نے ریمارکس دئیے کہ آپ ذمہ دار وکیل ہیں۔ سپریم کورٹ کا بنچ بیٹھا ہے۔ تسلی رکھیں اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

شاہد مسعود پھر بول پڑے کہ جناب میں نے بھی جے آئی ٹی کو پریشر میں قبول کیا ہے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے لفظ پریشر استعمال کیا ہے، آپ پھر روسٹرم پر آجائیں۔ شاہد مسعود نے کہا کہ سب نے میرا تماشا بنا رکھا ہے۔ میری صحت پر اثر نہیں پڑے گا۔ اس موقع پر آئی جی پنجاب نے روسٹرم پر آکر آفتاب باجوہ کی شکایت کا جواب دیا۔ شاہد مسعود نے کہا کہ معاملے سے پنجاب پولیس کو باہر کیا جائے، یہ فریق ہے۔ انہوں نے ڈی این اے تبدیل کر دیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تسلی رکھیں جے آئی ٹی آزادانہ بنے گی اور با اختیار ہو گی۔ سماعت تیسرے گھنٹے میں داخل ہونے والی تھی کہ ڈاکٹر شاہد مسعود پھر اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے شکایات کرتے دکھائی دیئے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بیٹھنے کا مشورہ دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جس طرح آپ شاوٹ کر ہے ہیں یہ عدالت کی عزت کے منافی ہے۔ اس موقع پر محترمہ نسیم زہرہ کی نشاندہی پر معز ز عدالت نے صحافی مہمانوں کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کی اجازت دیتے ہوئے سماعت جاری رکھی۔

باہر نکلتے ہی ڈاکٹر شاہد مسعود میڈیا مائیک اور کیمروں کے گھیرے میں آگئے، جہاں سے حامد میر انہیں زبردستی سائیڈ پر لے گئے، کورٹ روم کے احاطے میں دائیں جانب جاتے ہوئے شاہد مسعود صاحب خاکسار سے بغل گیر ہوئے اور شکریہ ادا کرتے ہوئے حامد میر صاحب کے  ساتھ نامعلوم کونے کی جانب روانہ ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ میر صاحب کی بات ڈاکٹر صاحب کے پلے نہیں پڑی۔

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami