کابل ایمبولینس بم دھماکے کے پاکستان پر مضر اثرات


وحشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ بدترین خانہ جنگی کا نشانہ بنے ملکوں میں بھی ایک دوسرے کے خلاف تخت یا تختہ والے جنون میں مبتلا فریقین مریضوں کو ناگہانی طبی امداد فراہم کرنے والی ایمبولینس گاڑیوں کا احترام کرتے ہیں۔ انہیں راستہ دیا جاتا ہے۔

ہفتے کی دوپہر مگر ایمبولینس سے وابستہ احترام کا افغانستان میں ”اسلام کی کامرانی“ کو یقینی بنانے والی جنگ میں مصروف دعوے داروں نے سفاکانہ استعمال کیا۔ ایسی ایک گاڑی کو بارود سے بھرا اور کابل شہر کی مصروف ترین اور مختلف سرکاری اور سفارتی عمارتوںسے جوڑنے والی ”چکن سٹریٹ“ سے گزار کر ایک چوراہے میں دھماکے سے اڑادیا۔ ”ایمبولینس بم“ دھماکے سے کسی سرکاری یا سفارتی عمارت کو ہرگز کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا ہے۔ روزمرہّ زندگی کی اذیتوں میں جتے 100سے زیادہ بے گناہ شہری البتہ جاں بحق ہوگئے۔ زخمیوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں بتائی جارہی ہے۔
ایک ہفتہ قبل کابل ہی کے ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل میں 5”طالب“ در آئے تھے۔ وہاں ایک آئی ٹی کانفرنس ہورہی تھی۔ اس میں شرکت کے لئے کئی غیر ملکی مہمان بھی موجود تھے۔ ہوٹل کے کچن سے نمودار ہوکر ”طالبان“ تمام رات مہمانوں کو چن چن کر گولیوں سے بھونتے رہے۔
ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل والا واقعہ بہت سنگین تھا۔ قطعاََ جنگی حوالوں سے لیکن اس کی وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں۔ اندھی نفرت میں مبتلا اذہان یہ جواز بھی پیش کرسکتے ہیں کہ افغانستان کے دارالحکومت میں ایک سپرطاقت کی سرپرستی میں بٹھائی حکومت کی ”اوقات“ کو بے نقاب کرنے کے لئے ایسی واردات شاید ضروری تھی۔ ”ایمبولینس بم“ کے استعمال کا جواز ڈھونڈنا مگر ناممکن ہے۔ غیر مشروط مذمت کے علاوہ اور کچھ کہا ہی نہیں جاسکتا۔
ہمارے میڈیا میں اس تازہ ترین واردات کا بھی مناسب ذکر نہیں ہوا۔اس پہلو پر بھی غور نہیں ہوا کہ ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل والے واقعے کے بعد ایمبولینس بم والے دھماکے کی ذمہ داری بھی طالبان نے اپنے جانے پہچانے ترجمان کے ذریعے اپنے سر لے لی ہے۔ پاکستان پر افغان طالبان کی حمایت وسرپرستی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ہم اس الزام کو سختی سے رد کرتے ہیں۔ افغان طالبان کی شراکت کے بغیر افغانستان میں اگرچہ ہماری دانست میں دائمی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ہماری اس سوچ کی وجوہات ٹھوس اور کافی حد تک معقول ہیں۔ طویل المدتی تناظر میں دیرپا امن کے حوالے سے بنی اس سوچ کو لیکن محض ”سرپرستی“ بناکر دکھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں طالبان کی ”محفوظ پنا گاہوں“ کی بات ہوتی ہے۔
ایک طویل وقفے کے بعد گزشتہ ہفتے ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل پر ہوئے حملے کا غالباََ ”بدلہ“ لینے کے لئے ایک امریکی ڈرون ہماری کرم ایجنسی میں گھس آیا تھا۔ افغان بستی میں موجود ایک گھر کو اس نے نشانہ بنایا اور طالبان کے ایک سرکردہ رہ نما کی ہلاکت کا اعلان ہوا۔ مجھے خدشہ ہے کہ ”ایمبولینس بم“ دھماکے کے بعد معاملات فقط ڈرون طیاروں کے ذریعے گرائے بموں تک محدود نہیں رہیں گے۔ ہفتے کے روز ہوئے واقعہ کو ”کچھ نیا“ کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
وہ ”نیا“ کیا ہوسکتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے نیو یارک ٹائمز میں Steve Coleکا لکھا ایک مضمون غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ امریکی وزارتِ دفاع اور سی آئی اے میں اس کے ”ذرائع“ قابل رشک ہیں۔حال ہی میں اس کی ایک نئی کتاب بھی مارکیٹ میں آئی ہے۔ اس کتاب میں کسی “Directorate-S”کا ذکر ہے۔ بہت ہی پراسرار بنائے اس ڈائریکٹوریٹ کا تعلق آئی ایس آئی سے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش ہوئی ہے۔ دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کہ مبینہ ڈائریکٹوریٹ سے نبردآزما ہوئے بغیر طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا ہی نہیں جاسکتا۔
اسی نکتے پر اصرار ہی کے لئے مذکورہ صحافی نے نیویارک ٹائمز والا مضمون لکھا ہے۔ مختصر الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ پاکستان سے اب افغانستان میں معاملات کے لئے ”تعاون“ کی محض تجاویز ہی نہیں دی جارہیں۔ چند ایسے اقدامات اٹھانے پر زور دیا جارہا ہے جو پاکستان کے لئے اقتصادی اعتبارسے ناقابلِ برداشت ہوجائیں۔ اس بات کا مگر واضح الفاظ میں اعتراف بھی ہورہا ہے کہ 1990کی دہائی میں دنیا کا Most Sanctionedملک ہوتے ہوئے بھی پاکستان نے اپنی قومی سلامتی کے لئے ضروری سمجھی ترجیحات کے ضمن میں کوئی لچک نہیں دکھائی تھی۔ نائن الیون کے بعد بلکہ امریکہ ہی کو پاکستان سے معاونت حاصل کرنے کے لئے ان ترجیحات کے حوالے سے لچک دکھانا پڑی۔
2018کا پاکستان 1990کی دہائی کے مقابلے میں اب کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اس کے دائمی دوست چین نے CPECکی چھتری تلے اسے اقتصادی اعتبار سے مزید توانا بنانے کے امکانات بھی دکھادئے ہیں۔ روایتی پابندیاں قطعاََ بے اثر رہیں گی۔ ”امریکی امداد“ کا مکمل خاتمہ بھی کسی کام نہیں آئے گا۔ پاکستان شاید اسے Blessing in Disguise سمجھے۔ سفارتی اور اقتصادی ذرائع سے پاکستان کو جھکانا لہذا ناممکن دکھایا جارہا ہے۔
سفارتی اور اقتصادی ہتھکنڈوں کی ممکنہ بے اثری کی بات تواتر کے ساتھ ہونے لگے تو تقریباََ واضح انداز میں پیغام یہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ”کچھ نیا“ کرنا پڑے گا۔ فقط امریکی جرنیلوں کی جانب سے بنائی امریکی صدر ٹرمپ کی افغانستان کے بارے میں اگست 2017میں اعلان کردہ ”نئی پالیسی“ ایسے ہی پیغام دے رہی تھی۔
راﺅ انوار کی تلاش میں مصروف ہمارا میڈیا جسے قصور میں بچوں کے ساتھ مسلسل ہوتی درندگی کے بھی چند ”نئے پہلو“ ڈھونڈنے ہیں،افغانستان کی ہم سائیگی کی وجہ سے اُمڈتے طوفان کو لیکن وقت نہیں دے پارہا ہے۔ تازہ ترین حقائق سے قطعاََ لاعلم میں صرف جبلی طورپر ذہن میں آئے چند خدشات ہی بیان کرسکتا ہوں۔سوالات جن طاقت ور سیاست دانوں کو اٹھانا چاہیے تھے وہ اٹھا ہی نہیں رہے۔ دو ٹکے کے رپورٹر کی بات پر توجہ کوئی نہیں دے گا۔
٭٭٭٭٭
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).