جب جی چاہا مسلا کچلا، جب جی چاہا دھتکار دیا


عاصمہ کی ویڈیو آپ نے دیکھی ہوگی جس میں وہ مرنے سے چند لمحے پہلے مجاہد آفریدی کا نام لے کر انصاف کے تقاضے اس معاشرے پر چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے کوچ کر جاتی ہے۔ سوچتا ہوں یہ الفاظ ادا کرتے وقت عاصمہ کو اپنی زبان پہاڑ سے بھاری محسوس ہوئی ہوگی اور اس نے جینے کی ایک نامراد دعا خدا سے مانگی ہوگی، کتنے سپنوں اور خوابوں نے اس کیآنکھوں کے سامنے دم توڑ لیا ہوگا اور پھر عاصمہ نے وہی سوال اس معاشرے کے لئے چھوڑے جو پچھلے سال حنا شہباز نے یا مری کی صائمہ نے چھوڑے تھے۔ یہ ویڈیو دل دہلا دینے والی ہے۔ اس ویڈیو میں ایک کیس، ایک قتل، ایک معمہ نہیں بلکہ عورت ذات کی صدیوں پر محیط المیہ قید ہے، اس میں وہ اذیت اور درد ہے جس کا سفر عورت ذات صدیوں سے کر رہی ہے۔

مسئلہ کیا ہے؟ المیہ کیا ہے؟
المیہ یہ ہے کہ مرد نے عورت ذات کی جو شبیہہ آج سے پانچ ہزار سال پہلے بنائی تھی اس میں ہر مذہب، سماج، ثقافت، تہذیب اور تمدن نے اپنے اپنے حصے کا رنگ بھرا مگر شبیہہ کی بنیادی ساخت جوں کی توں قائم ہے یعنی عورت مرد کی ملکیت سمجھی گئی، اور مرد کو عورت پر ہر معاملے میں فوقیت دی گئی۔

سماج کی تعلیم بچپن کے مشاہدات کے ذریعے دماغ میں بیٹھ جاتی ہے اور یوں یہ نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ یہ وہی تعلیم ہے جو بیٹے کو اپنی پسند گھر والوں کو بتانے میں ذرا سی عار یا دقت محسوس نہیں کرنے دیتی مگر بیٹی کی پسند پر مرد کو عزت کے جنازے نکالنے پر راغب کرتی ہے۔ یہ وہ تعلیم ہےجو بیٹی کو بیرون ملک تعلیم کے لئے بھیجنا باعث شرم سمجھتی ہے مگر بیٹے کے ایڈمشن پر خاندان میں مٹھائیاں بانٹنے کو کہتی ہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو باپ کی دوسری شادی کو سنت کہتی ہے مگر ماں کی دوسری شادی کو اس کیبد کرداری اور بدچلنی قرار دیتی ہے۔ یہ سماجی تعلیم بھائی کی پسند پہ پھولے نہیں سماتی مگر بہن کی پسند کو قاتل بننے پر اکساتی ہے۔ عاصمہ پہلی بار نہیں مری عاصمہ پانچ ہزار سال سے مر رہی ہے ہاں مگر مختلف وجوہات پر تاہم تمام وجوہات کو اکٹھا کیا جائے تو ایک ہی سبب نظر آتا ہے جو مرد کی وہ ایگو ہے جس کی بنیاد عورت پر ملکیت ہے۔

سوال مگر یہ ہے کہ یہ پانچ ہزار سال پرانی سوچ بدلے گی کیسے؟
مرد کی ایگو غلط سطور پر بنائی گئی ہے، جو ہمیشہ تب ہرٹ ہوتی ہے جب عورت مرد کے شانہ بشانہ چلتی ہے، مرد کو مات دیتی ہے، مرد کو جواب دیتی ہے۔

سماج کی تعلیم کالجز یا یونیورسٹیاں نہیں مٹا سکتی، یہ نہایت انمٹ نقوش ہوتے ہیں جو شاید سو میں سے ایک مرد کے ذہن سے مٹ جائیں۔ سماج کی تعلیم بدلنے کے لئے ہمیں سماج بدلنا ہوگا جس کا ایک جزو بنیادی ابتدائی تعلیم ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ عورت کے حقوق کے لئے گھر گھر، محلوں اور یونٹوں تک اس سوچ کو مٹانے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، منبر و محراب کا پراگریسیو استعمال کرنا ہوگا۔ جب ہمارا سماج ایسے والدین پیدا کر لے گا جو اس سوچ کی نفی کرینگے تو جنسی امتیاز کی جڑیں سوکھنا خودبخود شروع ہوجائینگی۔ پھر مجاہد آفریدی تو ہوگا مگر اس کے دماغ پہ اس سوچ کے نقوش نہیں ہوں گے جو اس سے ایسے جرائم سرزد کروائے اگر آپ کا حل چوک پہ ٹانگنا ہے تو ٹھیک ہے مجاہد آفریدی خائف ہوگا مگر وہ نت نئے طریقے ڈھونڈے گا کیوں کہ اس کی ایگو ہرٹ ہوئی ہے جو تشدد میں بدل کر وقوع پذیر ہوگا کیوں کہ اس کو سماج نے گھٹی میں مردانگی پلائی ہے۔
کاش ہم سزاوں پر سزائیں تجویز کرنے کی بجائے المیے کو سمجھیں۔

ساحر نے یہ المیہ برسوں پہلے بیان کیا تھا؛

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا

اوتار پیمبر جنتی ہے پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے
یہ وہ بد قسمت ماں ہے جو بیٹوں کی سیج پہ لیٹی ہے

جب جی چاہا مسلا کچلا، جب جی چاہا دھتکار دیا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).