ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشاف پر خاکروبوں کے خلاف جے آئی ٹی بنائی جائے


جب موصوف نے بول چینل چھوڑنے کے بعد ایک وڈیو پیغام میں خود کو انتہائی، پارسا، متقی، مہذب اور شائستہ انسان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب میڈیا ہی چھوڑ دیں گے، کیوں کہ وہ میڈیا کے گالم گلوچ کے ماحول میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہاں کام کیا جا سکتا ہے۔ یہ پیغام غالباً انہوں نے Hire me if you can کے تناظر میں مختلف چینلز کو دیا ہو گا۔

اس پیغام کے دوسرے دن وہ اسی چینل ( ٹی وی ون) میں نادیہ مرزا کے روبرو بیٹھے نظر آئے، جسے وہ کچھ ماہ قبل ہی چھوڑ کر گئے تھے، وہ ان کی منت کر رہی تھیں کہ ان کا کمرہ جیسے وہ چھوڑ کر گئے تھے ویسے ہی غیر آباد پڑا ہے وہ آئیں اور پروگرام شروع کریں۔ شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ وہ تو جناح ہاسپٹل میں سرجن ہیں انہیں میڈیا میں رہنے کی ضرورت نہیں، وہ تو کل رات بھی چپکے سے جا کر ایک سر جری کر کے آگئے ہیں۔ جناح ہاسپٹل کی سیمیں جمالی کو لائن پر لیا گیا انہوں نے کہا کہ ہاسپٹل کے دروازے ان پر کھلے ہیں وہ جب چاہیں آسکتے ہیں۔

نادیہ مرزا کا پروگرام طے شدہ وقت سے کافی آگے نکل گیا۔ چینل کی اہم شخصیات کی منت سماجت کے بعد جب تک موصوف مان نہیں گئے، اس وقت تک نادیہ مرزا کا پروگرام کوئی دو گھنٹے جاری رہا۔ اس کے بعد اسی چینل پر موصوف کی شمولیت کی خبر دو دن تک ہیڈ سرخی کے طور پر چلتی رہی۔

کل کمرہء عدالت میں موصوف نے کہا کہ وہ بحیثیت ڈاکٹر عدالت کو بتا سکتے ہیں کہ آپریشن اور ڈی این اے خاکروب کرتے ہیں، ڈاکٹرز صرف سائن کیا کرتے ہیں۔
ہمارے لیے تو خاکر وب انتہائی قابلِ احترام ہیں کیوں کہ وہ ہمارا نصف ایمان مکمل کرتے ہیں۔ موصوف کے انکشاف کے بعد ان کے احترام میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ شاہد مسعود نے غیر ذمہ داری اور ناشائستہ الفاظ سے صحافت کے پیشے کو تو مزید بد نام کیا ہی ہے، لیکن اب اپنے الفاظ سے وہ طب کے پیشے سے منسلک افراد کو بھی ناقابلِ اعتبار ٹھہرا رہے ہیں۔

کیا ان کی اس گواہی پر ( گوہی اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ وہ بحیثیت ڈاکٹر یہ بات جانتے ہیں ) کہ آپریشن اور ڈی این اے خاکروب کرتے ہیں ایک اور جے آئی ٹی تشکیل نہیں دینی چاہیے، میڈیا کی ساکھ تو ان جیسے بد زبانوں اور غیر ذمہ دار افراد کی وجہ سے ویسے ہی متاثر ہے، لیکن سرجری بھی ناقابلِ اعتبار ٹھہری ہے۔ میڈیکو لیگل اتھارٹی کو ان کے اس بیان پر فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).