دھرنوں کی عطا ہے یہ رگڑا


\"husnainان گناہ گار کانوں سے سننے کا اتفاق کبھی نہیں ہوا لیکن کہنے والوں کو یہ کہتے ضرور سنا بلکہ کئی بار کئی جگہ پر پڑھا بھی کہ امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری جب تقریر فرماتے تو ایک سماں بندھ جاتا، لوگ ان کے ایک اشارے پر ہنستے، ایک اشارے پر روتے، بارش شروع ہو جاتی، ختم ہوتی تو گھٹنوں تک پانی ہوتا لیکن سننے والے مکمل بے خود کھڑے سن رہے ہوتے، یہاں تک کہ صبح صادق کا آغاز ہوتا اور تقریر کا انجام۔ اب یہ ایک الگ موضوع کہ وہ کیا تقریر فرماتے تھے اور اگلے دن لوگوں کو اس میں سے کیا یاد رہتا تھا، لیکن، یہ حقیقت ہے کہ ان تقاریر میں گالم گلوچ اور بازاری زبان کا استعمال ہرگز نہ تھا۔ عالم لوگ ہوتے تھے، سننے والوں کا بھی ذوق بلند ہوتا تھا کہ اسی دور میں علامہ مشرقی کو بھی وہی کان سنتے تھے، مولانا آزاد کو بھی، جناح صاحب کو بھی، نہرو جی کو بھی اور کتنے نام لیجیے کہ اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے، اور آفتاب بھی ان گنت، تو وہ ایک دور تھا، خطابت کا سیل رواں تھا جو گزر گیا۔ پھر بھٹو صاحب کو خدائے بخشندہ نے وہ صلاحیت بخشی، کسی حد تک بی بی کو ودیعت ہوئی اور الطاف بھائی نے بہ زور بازو سب کچھ حاصل کر لیا۔

یہاں تک بھی ٹھیک تھا۔

ہماری نسل کے حصے میں آئے عمران خان، طاہر القادری اور ہمنوا۔ پوچھنے والے پوچھ سکتے ہیں کہ بھائی اس سیہ بختی میں ہماری مرضی نہیں تھی تو قصور بھی ہمارا نہ ہوا۔ لیکن ہے، قصور ہمارا ہے۔ پہلے دن سے جب خان صاحب نے اوئے کہہ کر مخاطب کرنا شروع کیا تھا، ہمیں اس طرز گفتار کو مسترد کرنا چاہئیے تھا۔ اچھے اچھے دانش ور بھی ان کی اس انقلابی زبان کے اسیر نظر آئے اور کسی نے یہ سوچنا گوارا نہ کیا کہ زباں بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا۔ دھرنوں کی روایت ڈالی گئی۔ اس رو میں بھی عالی دماغ بہتے نظر آئے۔ دھرنے طویل ہوئے، زور ٹوٹنے لگا، جھنجھلاہٹ بڑھنے لگی، زبان زیادہ تلخ ہوئی تو لوگوں کا جنون بھی اترنا شروع ہوا اور دبی دبی آوازیں آئیں کہ ہمارے بچے وہی سیکھیں گے جو زبان ہم انہیں ٹی وی پر دکھائیں گے۔ اور یوں عمران خان صاحب کا سونامی ان کی زبان کے باعث جھاگ ہو گیا۔ لیکن ایک غلط روایت کو فروغ دے گیا۔

سوچنے والا ذہن دلیل پر یقین رکھتا ہے۔ دلیل نہ ہو تو آواز بلند ہوتی ہے۔ آواز بلند ہونے سے بھی لوگ توجہ نہ دیں تو جھنجھلاہٹ بڑھتی ہے اور پھر گالم گلوچ اور سوقیانہ زبان کا استعمال شروع ہوتا ہے۔

یہ استعمال موجودہ دھرنے میں ہم نے دیکھا۔ کچھ مہربانوں کی ویڈیوز دکھائی گئیں۔ مختلف اقسام کے ڈنڈے تھامے ہوئے، طویل ڈاڑھیاں چہروں پر سجائے، عمامے باندھے، مغلظات اگل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا وہ ظلمت کدہ ہے کہ جہاں ہر مکتبہ فکر اپنی اپنی بصیرت کے موتی بکھیر دیتا ہے، چننے والوں پر ہے کہ وہ کیا چنیں۔ اب ہو سکتا ہے کل کو ہمارے سنی تحریک کے بھائی ان لوگوں سے لاتعلقی کا اظہار کر دیں اور کہیں کہ وہ بزرگ جو کرسی پر بیٹھے بیٹھے رگڑا لگانے پر مصر تھے، یا وہ علامہ جو بے جان لکڑی کے ڈنڈوں کا رابطہ جان دار عہدے داروں سے استوار کرنے کی ضد میں تھے، وہ ہم میں سے نہیں ہیں، لیکن کیا اس انکار سے ہماری یادداشت ان ویڈیوز کو بھلا دے گی؟

ہجوم میں عقل نہیں ہوتی، ہجوم ہمیشہ معمولی باتوں پر مشتعل اور معمولی باتوں پر خوش ہو جاتا ہے۔ ایک ہجوم آپ نے لگایا، اسے اپنے پیچھے لے کر چلے، ایک قسم کا پریشر گروپ بنا لیا، شہر کا نظام درہم برہم کر دیا۔ اب وہ ہجوم خود کفیل ہو جاتا ہے۔ بھلے آپ کی زبان ایسی نہ ہو لیکن وہ کسی کا نہیں ہوتا، وہ کسی کی نہیں سنےگا۔ وہ اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار جیسے چاہے گا، کرے گا۔

ہجوم کی نفسیات میں عام  طور پر کوئی بھی عمل مل جل کر انجام دینے کا رجحان ہوتا ہے۔ نعرے مل کر لگائے جاتے ہیں، پولیس کی کارروائی کا جواب بھی مل کر دیا جاتا ہے، مل جل کر رکاوٹیں ہٹائی جاتی ہیں، مل جل کر کنٹینر جلائے جاتے ہیں، مل کر پولیس کے ردعمل سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بالعموم وہ کوشش ناکام ہوتی ہے اور یوں ہجوم ان لوگوں کے جوش و غیظ کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے جو مائل بہ تشدد ہوتے ہیں ۔

آپ لاکھ کہتے رہیں کہ آپ امن پسند ہیں، آپ پرامن احتجاج پر یقین رکھتے ہیں، آپ کے مقاصد نیک ہیں، لیکن مجمع جب ایک بار اکٹھا ہو گیا تو پھر وہ نہ آپ کا ہے اور نہ اپنے آپ کا۔ وہ وہی کرے گا جو اس کا دل چاہے گا، اور اس کے تمام اجتماعی افعال کے ذمہ دار  وہ خطیب ہوں گے جو ان کی قیادت کر رہے ہیں۔

آپ اپنی طرف سے ایک نیک مقصد کے لیے نکلے تھے۔ دنیا بھر کے لوگوں کی نظریں آپ پر تھیں۔ محراب و منبر آپ کے زیر نگیں ہیں۔ آپ مذہبی نظام کے داعی ہیں۔ نوارانی صورتیں ہیں۔ ایک طرف خدا کی خوشنودی مقصود تھی اور دوسری طرف دشنام طرازی و مغلظات میں آپ کا ثانی کوئی نہیں ملتا۔ اس قدر لغو اور فضول باتیں اس دھرنے کی ویڈیوز میں سامنے آئی ہیں کہ شاید ہی کوئی ذی عقل اب آپ کے بھرے میں آ جائے۔

جمہوری نظام میں آپ کو اپنی جائز بات کہنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے اور اس کے لیے جلسے جلوس بھی منعقد کیے جا سکتے ہیں، لیکن دھرنے، شاید اب نہیں۔  وطن عزیز کی موجودہ صورت حال اور دھرنوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہر دھرنا ہمیں کچھ مستقل تحائف دے کر جاتا ہے،اور اس دھرنے کی عطا وہ خوش گفتاری ہے جس سے ہم نے گذشتہ دنوں میں استفادہ کیا۔

آخری اطلاعات آنے تک یہ دھرنا اپنے منطقی انجام کو بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ سیاست میں یہی خوبی ہے کہ کسی بھی تنازعے کی صورت میں مذاکرات کرنے کی کوشش آخری حد تک کی جاتی ہے۔ صاحبو، ایک زندہ انسان کی قیمت کسی بھی تحریر، کسی بھی تقریر اور کسی بھی نظریے سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مقام شکر ہے کہ مظاہرین جو ہمارے بھائی ہیں، ہم میں سے ہی ہیں، عام لوگ ہیں، جذبوں میں گندھے اور خطیبوں کے کہے میں آئے ہوئے ہیں، یہ پرامن طریقے سے منتشر ہو جائیں گے، واپس گھروں کو آ جائیں گے کہ یقیناً ان کی مائیں، ان کے باپ، ان کے بچے اور ان کے بہن بھائی ان سے اتنا ہی پیار کرتے ہوں گے جتنا ہم سب سے ہمارے ماں باپ، بہن بھائی اور بیوی بچے کرتے ہیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments