ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوے، شواہد مفقود


ڈاکٹر شاہد مسعود نے طب کی تعلیم حاصل کی اور شنید ہے کہ بطور پیشہ بھی اس کو اپنایا۔ طب کا مقدس پیشہ ترک کرکے کوچہ صحافت میں قدم رکھنے کے بارے میں بطور صحافی اور اینکر ان کی گراں قدر خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، قیاس سے ہی کام لیا جاسکتا ہے۔ یہی کہا جاسکتا ہے کہ جب ڈاکٹر صاحب مریض کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوں گے، تو مریض کو اس کے مرض کے متعلق کچھ ایسی روح فرسا خبریں سناتے ہوں گے اور قیامت کا نققشہ کھینچتے ہوں گے کہ مریض اپنی بیماری بھول کر، مریض فوری طور پر اپنا ہاتھ کھینچ کر، اپنے ہی کفن و دفن کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتا ہوگا۔ ایسے ہی کسی خفیہ آہنی ہاتھ والے مریض کی نبض پر جب ہاتھ رکھا ہوگا اور مر یض کو مرض کے متعلق روح فرسا خبریں اور قیامت کی نشانیاں بتائیں ہوں گی، تو اس نے ڈاکٹر صاحب کی پوشیدہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے، کوچہ صحافت میں اپنی وساطت قدم رکھنے کا مشورہ دیا ہوگا۔

ڈاکٹر صاحب بطور صحافی و اینکر ملکی سیاست اور ہر حکومت وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر برسوں سے ملکی سیاست اور جمہوریت کے بارے میں کچھ ایسی ہی روح فرسا خبریں قارئین و ناظرین کی نذر کررہے ہیں، جس سے ملکی سیاست میں بھونچال کی کیفیت طاری رہتی ہے اور ہر حکمراں سمجھتا ہے کہ وقت نزاع قریب ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ڈاکٹر صاحب کی دل دہلا دینے والی خبروں کے باوجود جیسے تیسے اپنی مدت ختم کرکے ہی دم لیا۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے بطور اینکر و تجزیہ نگار، جس چینل پر بھی جھنڈے گاڑے، کچھ عرصے بعد، اسی چینل سے اپنا جھنڈا خود ہی اکھاڑ کر چلتے بننے میں عافیت جانی۔ ڈاکٹر صاحب کے پروگرام ’میرے مطابق ‘ نے مقبولیت حاصل کی گو کہ کہا جاتا ہے کہ مشرف دور میں کچھ عرصے بعد، یہ پروگرام ’ سرکار کے مطابق ‘ ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی گراں قدر خدمات کے پیش نظر، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ڈاکٹر صاحب نے سرکاری ٹی وی پر بطور مینیجنگ ڈائرکٹر بھی خدمات نجام دیں لیکن ڈاکٹر صاحب سے ازلی بغض و دشمنی رکھنے والے چند ناعاقبت اندیش افراد نے، ان کی مبینہ بدعنوانیوں، تنخواہ اور دیگر سہولیات کا کچھ ایسا نقشہ کھینچا کہ نوکری چھوڑ کر جان چھڑائی۔

ڈاکٹر صاحب کی سیاسی پیش گوئیاں متواتر ٖغلط ثابت ہوتی رہیں، تو ڈاکٹر صاحب نے سماجی و معاشرتی مسائل کی نبض پر ہاتھ رکھا اور معصوم زینب کے نامزد قاتل عمران علی کے بینک اکا وئنٹس کے بارے میں اپنی تحقیق سے قوم کو آگاہ کیا تو حکمرانوں سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ا فراد کے ساتھ، عام شہری انگشت بد نداں رہ گیا اور پریشانی میں مبتلا ہوگیا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ محترم چیف جسٹس پر بھی ا س خبر کا گہرا اثر ہوا اور معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے، ڈاکٹر صاحب کو جے آئی ٹی اور عدالت عظمی میں ثبوتوں کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیا۔ جے آئی ٹی پر ڈاکٹر صاحب نے عدم اعتماد کا ا ظہار کیا اور اس کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا۔ گزشتہ روز ڈاکٹر صاحب عدالت عظمی میں پیش ہوئے تو عدالت نے ڈاکٹر صاحب کے پروگرام کا کلپ پروجیکٹر پر چلایا اور پھر ڈاکٹر صاحب سے ملزم عمران علی کے بینک اکاؤنٹس کی دستاویزی تفصیلات اور ثبوت طلب کیے تو ثبوت وشواہد مفقود، ڈاکٹر صاحب سوائے آئیں بائیں شائیں کرنے کے علاوہ، کوئی بھی ثبوت اور شواہدپیش کرنے سے قاصر رہے۔ عدالت عظمی نے وطن عزیز کے معروف صحافیوں و اینکروں سمیت الیکٹرونک میڈیا کے مالکان کو بھی طلب کر رکھا تھا۔ عدالت عظمی نے عدالت میں موجود تمام معروف صحافیوں و اینکر حضرات کے ساتھ میڈیا مالکان سے ڈاکٹر صاحب کی خبر اور خبر غلط ثابت ہونے کی صورت میں ڈاکٹر صاحب کی سزا کے متعلق رائے طلب کی، تو کو ئی بھی صحافی و اینکر اور میڈیا مالک ڈاکٹر صاحب کی خبر کی تصدیق نہ کرسکا اور سزا کے متعلق رائے دینے میں محتاط رویہ اختیار کیا۔ چند معروف صحافیوں نے عدالت عظمی کو بتایا کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو عدالت عظمی سے غیر مشروط معافی مانگنے کا مشورہ دیا ہے لیکن وہ راضی نہیں ہورہے بلکہ خبر کی مزید تحقیق پر مصر ہیں۔

کیس عدالت عظمی میں زیر سماعت ہے، عدالت عظمی ڈاکٹر صاحب کے متعلق کیا فیصلہ کرتی ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن عدالت عظمی میں سماعت کے اختتام کے بعد، کہنے والے کہتے ہیں کہ عدالت عظمی کے باہر ڈاکٹر شاہد مسعود، ڈاکٹر شواہد مفقود کی بازگشت واضح طور پر سنائی دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).