مسلک شاہد مسعودیت کا پہلا سبق


مطلب شہرت پانے سے ہے، کیا فرق پڑتا ہے جو اس کے لئے ایک معصوم بچی کے انصاف کی لڑائی کا تماشہ بن جائے۔ جتنا زیادہ متنازعہ ہوں گے اتنا ہی چٹورے لوگ بو سونگھتے ہوئے ہمارے پیچھے پیچھے آئیں گے۔ میں زور زور سے چلا کر کہوں گا کہ میرے پاس جو خبر ہے وہ سب کے ہوش اڑا دے گی۔ سب میری اس وعید پر ایمان لائیں گے اور میرے شو، میرے انٹرویو اور میری تحریروں کو ہمہ تن گوش ہوکر دیکھیں گے کہ دیکھئے کب دھماکہ ہوتا ہے۔ میں جب عدالت میں جاؤں گا تو میڈیا والے میرے پیچھے دوڑے چلے آئیں گے۔ سب مسائل بھلا دیے جائیں گے یہاں تک کہ اس ننھی سی زینب کا بھی جس کے قتل سے بھڑکے اشتعال کے تندور میں میں نے تھپا تھپ اپنی روٹیاں پکانی شروع کر دی تھیں۔ عدالت لگے گی، لفظوں کی جلیبیاں بنیں گی اور عوام ماموں۔
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا

غالب کے تماش بین مایوس ہوکر لوٹ آئے ہوں گے لیکن کچھ کی قسمت خاص ہوتی ہے۔ اب روز پرزے اڑنے کی افواہ اڑتی ہے، روز مداری اپنا کپڑا بچھاتے ہیں اور پھر پوٹلی سے تیل کی شیشیاں نکال کر بیچنی شروع کر دیتے ہیں۔ مجمع میں کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ اس کھیل کا کیا ہوا جو تم ہمیں دکھانے والے تھے؟ مخصوص فوائد والا تیل بیچ کر مداری نکل جاتا ہے اور تماشہ پسند مجمع اپنے گھروں کو لوٹ آتا ہے دوسرے دن پھر اسی طرح تماشہ کے نام پر کوئی آواز لگاتا ہے اور کل کا نامراد مجمع پھر سے فرمانبردار طالب علم کی طرح اس مداری کے گرد حلقہ لگا لیتا ہے۔ مداری آتے جاتے رہتے ہیں، اگر کچھ نہیں بدلتا تو وہ مجمع، اس کا شوق تماشہ اور نامرادی۔

ایک زینب کو انصاف مل جانے سے کسی کو کیا مل جائے گا؟ ہاں، اگر اس کے نام پر کسی کا نصیبا سنور سکتا ہے تو کسی کا کیا بگڑتا ہے؟ آپ ہی بتائیے کہ اگر شاہد مسعود یہ سوچتے ہیں تو کیا نیا سوچتے ہیں؟ یہی تو ہوتا آیا ہے اور شاید یہی ہوتا رہے گا۔ انہوں نے زیادہ کچھ کیا بھی نہیں ہے بس زینب کے سانحہ کو ایک چٹکلے میں ہی تو تبدیل کیا ہے، بس سب کی توجہ انصاف سے ہٹا کر اپنی جانب ہی تو کھینچی ہے، بس ان کی اتنی سی ہی تو معصوم خواہش ہے کہ زینب کو انصاف دلانے کے بجائے خلقت مجھے ہیرو ماننے پر اپنا دھیان زیادہ لگائے۔

شاہد مسعود نے جو کہا اس سے زیادہ مضحکہ خیز وہ ہے جو وہ اس کہے کی تاویل میں کہہ رہے ہیں۔ دہلی کے کسی پرانے قوال کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہر ملنے والے سے کہتے کہ میرے پاس پانچ ایسی کمپوزیشن ہیں جو دہلی کے فلاں استاد قوال کو بھی نہیں آتیں۔ لوگ جب ان سے فرمائش کرتے کہ وہ دھن سنائیے تو وہ فورا فرماتے کہ میں کیوں سناؤں، تم یہ کمپوزیشن جاکر دوسروں کو بتا دو گے پھر میرے پاس کیا رہے گا؟ شاہد مسعود کی حالت بھی اسی قوال جیسی ہے۔ سپریم کورٹ میں جمگھٹ لگا لیکن جب شاہد مسعود سے ثبوت طلب کیے گئے تو جواب میں خود نوشت قصیدے پڑھ دیے گئے۔ شام کو پھر ٹی وی پر نمودار ہوئے اور بدمعاشیہ کے خلاف ٹھوس ثبوت کی بات دہرا دی۔ جس جس نے سوال اٹھائے تھے ان سب کو سخت و سست کہا گیا اور ہر وہ الزام لگایا گیا جو کسی کی معتبریت پر بٹہ لگا سکتا ہو۔ یہ دراصل ایک مخصوص مکتب فکر بنتا جا رہا ہے جس میں اپنی شخصیت کی عظمت کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ باقی سب کی رذالت کا قصہ ضرور کہا جاتا ہے۔ جو جو سوال اٹھا رہا ہے وہ بھی بدمعاشیہ کا حصہ ہے، جو صحافی ثبوت مانگ رہے ہیں ہیں انہوں نے اربوں روپئے کی رشوت کھائی ہے، میں تو اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں، میری وجہ سے یہ اصلاح ہوگئی اور فلاں ابن فلاں تو پرلے درجے کا دلال ہے۔ ابھی اگر کچھ دن اور گزرے تو عجب نہیں کہ سوال پوچھنے والوں کو زینب کے مجرم کا حواری قرار دے دیا جائے۔

شاہد مسعود اپنے صحافی ساتھیوں کا کرتہ پھاڑیں یا صحافی شاہد کے کذاب ہونے کی دلیلیں دیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ کوئی اپنے مفاد کے لئے زینب کے ساتھ ہوئے سانحہ کو بھی بازیچہ بنا سکتا ہے۔ اگر شاہد مسعود نے جو کچھ کہا ہے اس کا ثبوت دے دیا ہوتا تو شاید دھول میں اتنے لٹھ بھی نہ چلتے اور مجرموں کو کٹہرے میں کھینچ بھی لیا جاتا لیکن انہوں نے شاید جو کچھ کہا اس کا مقصد صرف دھول میں لٹھ چلانا ہی تھا۔ اب ان کے حسب منشا غبار ہی غبار اڑ رہا ہے اور گردآلود پوشاکوں میں ملبوس صحافی، سیاسی تجزیہ نگار، سیاسی لیڈر یہاں تک کہ عوام بھی زینب کے ساتھ ہوئے ظلم کو بھول کر اندھی چپت کھیلنے میں لگی ہے۔ جلد ہی یہ سب کھیلتے کھیلتے تھک جائیں گے اور پھر سب گھروں کو چلے جائیں گے، کسی کو یہ خیال بھی نہیں ہوگا کہ ننہی سی قبر میں لیٹی زینب کتنی مایوسی سے انہیں دیکھ رہی ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter