ڈاکٹر صاحب اور دھبڑ دوس


میری یادداشت جہاں تک میرا ساتھ دیتی ہے تو مجھے یاد پڑتا ہے، میموگیٹ اسکینڈل کے دور میں روز رات کو شاہد مسعود صاحب زرداری صاحب کی حکومت “دھبڑ دوس” کر کے سوتے تھے لیکن صبح وہ حکومت پھر قائم ہوتی تھی۔

ائیر بلیو کا ایک جہاز مارگلہ کی پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہوا تھا، جس پر ڈاکٹر صاحب نے خبر دی تھی کہ اس طیارے پر ایوانِ صدر سے فائرنگ کی گئی تھی لیکن ثبوت دھبڑدوس!

کچھ عرصے بعد،عمران خان صاحب کے الزام پینتیس پنکچر کی تائید کرتے ہوئے شاہد مسعود نے پرزور تائید کرتے ہوئے کہا، “ایک ٹیپ ہے وہ جلد منظرِ عام پر آ جائے گی۔” اور بعد ازاں کوئی ٹیپ منظر عام پر نہیں آئی اور پینتیس پنکچر کے خالق عمران خان نے اس بات کی نفی کر دی اور الزام واپس لے لیا، پھر ڈاکٹر صاحب کی یہ خبر بھی دھبڑ دوس ہو گئی۔

 پھر راوی چین ہی چین لکھنے لگا تھا کہ شاہد مسعود صاحب کو پتا لگا کہ سندھ کے چیف جسٹس نے رشوت لی ہے، جس پر شاہد صاحب پر کیس بھی چلا اور ان سے ثبوت بھی مانگے گئے لیکن شاہد صاحب فراہم نہیں کر سکے اور اس طرح یہ خبر بھی بالآخر دھبڑ دوس ہو گئی۔

کچھ دن امن سکون رہا لیکن اچانک پھر ان کے باوثوق ذرائع نے خبر دے دی کہ جی۔ ایچ۔ کیو۔ میں دو وفاقی وزراء دفاع و خزانہ کو بلا کہ سخت سرزنش کی گئی۔ لیکن اس خبر کی تردید عسکری و سول محکموں نے کر دی اور ڈاکٹر صاحب کی یہ خبر بھی دھبڑ دوس ہو گئی۔

لیکن اس دفعہ معاملہ کسی بےبنیاد الزام، رشوت زنی یا عسکری حکام کا نہیں ہے اس دفعہ معاملہ (بقول ڈاکٹر صاحب کے) بین الاقوامی پورنوگرافک ریکٹ کا ہے، جس پر وزیر اعلیٰ نے ایک کمیٹی بنائی اور چیف جسٹس صاحب نے ازخود نوٹس لیا۔ ڈاکٹر صاحب نے عمران نامی ملزم کے سینتیس بینک اکاؤنٹ کی ایک لسٹ فراہم کی جس کے بعد اس کی صداقت معلوم کرنے کی کوشش کی گئی تو پتا چلا کہ ایسے شناختی کارڈ پر کوئی اکاؤنٹ وجود ہی نہیں رکھتے۔ جس کی تصدیق بعد ازاں سٹیٹ بینک نے بھی کر دی۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ دعویٰ بھی دھبڑدوس۔

جن بینک اکاؤنٹس کی تعداد ڈاکٹر صاحب نے پریس کانفرنس میں 80 تک بڑھا دی ا ور بیس یا پچیس اور اکاؤنٹس ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کر دیا۔ موصوف نے الزام لگایا کہ عمران ملک سے باہر کئی دفعہ جا چکا ہے لیکن نادرا کی طرف سے خبر آئی کہ اس کا پاسپورٹ ہی نہیں بنا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ دعویٰ بھی دھبڑدوس۔

25 جنوری کی اس پریس کانفرنس میں ڈاکٹر صاحب نے الزام لگایا تھا کہ ان کے پاس 80 سے زائد اکاؤنٹ کی لسٹ موجود ہے، جس پر نام بھی یہی ہے اور پتہ بھی علی عمران کے گھر کا درج ہے اور عمران اس نامعلوم ریکٹ کا بہت فعال سرغنہ ہے۔ لیکن 26 جنوری کی شام میں وہ کہتے نظر آئے، “نہیں ابھی تو مجھے پتا بھی نہیں ہے، یہ وہی علی عمران ہے یا نہیں ہے، دیکھوں گا تو پتا چلے گا۔” یہ دعویٰ انہوں نے خود دھبڑ دوس کر دیا۔

ڈاکٹر صاحب نے شعلہ بیانی کرتے ہوئے دعویٰ کیا، ” یہ کوئی مزدور مستری بھی نہیں ہے یا سیریل کلر بھی نہیں ہے۔” جبکہ تحقیقات تو بتاتی ہیں کہ ملزم خود 5 سے 6 سال کے عرصے میں پچاس سے زائد بار زیادتی کا شکار ہوا ہے اور ایک نفسیاتی مریض ہے۔ ایک اور دعویٰ دھبڑ دوس۔

پھر شاہد مسعود صاحب نے کہا ، “مجھے وزیرِ اعلیٰ کی بنائی کمیٹی کی طرف سے کوئی کال یا نوٹس نہیں آیا پیش ہونے کا۔” بعد ازاں ترجمان نے اسی شو میں وہ نوٹس بھی فراہم کر دیا جو ان کے گھر کے پتہ پر بھیجا گیا تھا اور بالآخر ایک اور دعویٰ دھبڑ دوس۔

ڈاکٹر صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے اکاؤنٹ ختم کئے جا رہے ہیں، لیکن میں حیران ہوں بینک اکاؤنٹ بند تو ضرور کر دئیے جاتے ہیں لیکن ان کی تفصیل بینک کے پاس موجود ہوتی ہے اور عمران تو پولیس کی حراست میں ہے ، وہ اپنے بینک اکاؤنٹ کیسے بند کروا سکتا ہے؟ ایک اور دعویٰ دھبڑ دوس؟

بقول شاہد مسعود کے انکے خلاف اڑھائی ارب کی میڈیا کمپین چلائی جا رہی ہے لیکن ثبوت دھبڑدوس!

جس کا کام اسی کو ساجھے، صحافت جب ڈاکٹر کریں گے تو یقیناَ انجام بھی یہی رہےگا۔ خیر ڈاکٹر صاحب کا صحافت سے کوئی تعلق بھی نہیں کیونکہ ان پر پابندی کے دور میں ان کے حق میں ہونے والے احتجاجوں میں یہ خود شریک نہیں ہوا کرتے تھے تو ان سے ایک کولیگ نے شکوہ کیا تو موصوف کہتے ہیں ، “یار میں اینکر ہوں، صحافی تھوڑی ہوں۔”

چیف جسٹس کہہ تو چکے ہیں، اگر یہ خبر جھوٹی ثابت ہوئی تو اس پر سخت سزا دی جائے گی اور ہمیں صبر و امید کا دامن تھامے رکھنا چاہئے کہ بابا رحمتے اپنی تقریروں کے دعوؤں اور وعدوں کے مطابق حق و سچ کا فیصلہ کریں گے۔ یہ وعدہ کوئی شاہد مسعود کی خبر تو نہیں کہ پلک جھپکتے میں دھبڑ دوس!

بروز اتوار ڈاکٹر صاحب لاہور رجسٹری میں پیش ہوئے ۔ عدالت نے ان سے ثبوت طلب کئے لیکن وہ ثبوت پیش نہ کر سکے۔ بعد ازاں حامد میر، کاشف عباسی اور عارف حمید بھٹی نے ان سے درخواست بھی کی کہ وہ معافی مانگ لیں لیکن ڈاکٹر صاحب اپنے کہے پر قائم ہیں۔

پنجاب حکومت کئی دفعہ الزام دھر چکی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی ڈوریاں کوئی اور ہلا رہا ہے، اس سے تحقیقات کا رُخ موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے ڈاکٹر صاحب کے اس پراپیگنڈے سے پنجاب حکومت کو محض فائدہ ہوا ہے، جو اس حکومت کی نالائقی پر پردہ ڈل گیا ہے، تمام میڈیا ڈاکٹر صاحب کی کلاس لینے میں جٹ گیا ہے اور پنجاب حکومت کی نااہلی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہا کہ 2015ء کے سکینڈل کی تفتیش کہاں تک پہنچیں؟ مجرموں کو عبرت کا نشان بنایا گیا یا نہیں؟ زینب کا قاتل عمران خود پچاس سے زائد بار زیادتی کا نشانہ بن چکا ہے، کیا اس کے مجرموں پر بھی ہا تھ ڈالا جائے گا؟ سوال بہت سے ہیں، لیکن جواب دھبڑ دوس!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).