کتاب جائے پر شملہ نہ جائے


دہلی میں اس وقت تاپمان معتدل ہے۔ سردی زیادہ نہیں ہے، پچھلے دنوں  کچھ اثر بڑھا، کچھ عرصے رہا اور پھر تیزی سے کم ہوگیا۔دھرتی کا یہ چھور بھی خط سرطان کا محبوب علاقہ بنتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔مونگ پھلیاں فروخت کرنے والوں کی آوازیں اب گلی سے غائب ہوتی جارہی ہیں، جو سردی کی ٹھٹھرتی ہوئی رات کے گیارہ بجے سنسنان سڑک کو چیرتی ہوئی گزر جاتی تھیں، کتوں کی بھوں بھوں بھی کم ہوتی جارہی ہے اور سناٹوں کے رواج پر آوازوںکا نراج بھاری پڑتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔مارچ کے آتے آتے،ہولی کے جلتے ہی سردی بھی بھسم ہوجائے گی اور گرمی ایک انگڑائی لے کر اپنے شباب کے دو چمکتے سنہرے سورج انسانی آنکھوں پر نمایاں کرے گی، جس کی تاب لاتے نہ بنے گی۔ویسے موسم جس تیزی سے خراب ہورہے ہیں، بگڑ رہے ہیں  اور کھسک رہے ہیں، اس سے لگتا تو یہی ہے کہ آئندہ کی کوئی قریبی نسل یہاں محض سردی کا نام ہی سنا کرے گی اور بچی کھچی قدرتی خنکی کو ترقی یافتہ صنعتی شہروں میں کسی خاص مقام پر قید کرکے لوگوں کو بطور یادگار محسوس کروانے  کا بندوبست کیا جائے گا اور اس پر ضرور ٹکٹ بھی لگے گا۔میں یہاں سردی کا ذکر جس طرح کررہا ہوں، اس کی ایک وجہ ہے، ایک سردی ہی بچاری معدوم ہونے کے الزام سے کیوں پیوستہ رہے، اور بھی چیزیں ہیں جو غائب ہورہی ہیں، اور ان میں سب سے زیادہ دوری پر ہے، کتاب۔اس میں کیا شک ہے کہ ٹیکنالوجی نے کتاب کو  جلدوں کی دبازت سے نکال کر، ضخامت کے عتاب سے مکت کرکے، ایک چھوٹی سی چپ میں قید کردیا ہے،اور وہ بھی ایک کتاب نہیں، سینکڑوں، ہزاروں بلکہ لاکھوں۔مگر یہ لاکھوں کتابیں اس برقی دنیا کی فضا میں گھوم رہی ہیں، جیسے خلا میں انگنت آکاش گنگائیں رقص کررہی ہیں۔ایسا نہیں کہ لوگ کتابوں کی تلاش میں سرگرداں نہیں رہتے، آوارہ نہیں پھرتے، مگر جن کتابوں کی تلاش لوگوں کو رہتی ہے اکثر وہ نصاب کی یا پاپولر قسم کی ایسی کتابیں ہوا کرتی ہیں، جن سے کسی قسم کے ذہنی ارتقا کی امید رکھنا بے کار ہے۔اب کتابیں، لوگوں کی ہارڈ ڈسک میں سیو رہتی ہیں، کتابوں کے ایسے ایسے شوقین ہیں، ایسے ایسے رسیا، جن کے پاس بے شمار کتابیں ہیں، پڑی ہیں، چونکہ اب تو دیمک لگنے کا خدشہ بھی نہیں، اس لیے انہیں پڑھنے کا خیال نہیں آتا، مٹھی میں بند اس لائبریری کی رسائی تک  جس قدر آسانی ہوگئی ہے، ہم کتابوں سے اتنے ہی دور ہوچکے ہیں۔ اردو میں تو غزل صاحبہ نے ایسا خوبصورت شورٹ کٹ پیدا کیا ہے کہ فاعلاتن فاعلاتن کرتے کرتے کب کوئی انسان اپنے آپ کو عالم بے بدل سمجھنے لگے گا، خبر ہی نہ ہوگی۔شہرت کے لیے علم حالانکہ کسی زمانے میں ایسی شرط نہ تھی ، مگر لوگ اپنی شہرت کی لاج رکھنے کے لیے ہی کچھ نہ کچھ پڑھ لیا کرتے تھے۔غزل میں اس کا بھی ڈر نہیں ہے، ایک جنون کی سی کیفیت طاری رکھیے، قوالیوں پر جھومیے، میر، غالب، اقبال ، داغ اور جگر جیسے شاعروں کے کلام پر توتوں کی طرح ادھر ادھر سے بس کچھ منہ مار لیجیے، تعلقات استوار کیجیے اور چل پڑیے مشاعرہ پڑھنے۔چونکہ اب جن لوگوں کے درمیان شہرت حاصل ہوئی ہے، وہ خود ہی اس قدر جاہل ہیں کہ شعر کہنے کو ہی کسی شخص کی علمی استعداد پر مبنی کوئی چیز سمجھتے ہیں، چنانچہ ان سے یہ توقع رکھنا بے وقوفی ہے کہ وہ شاعر سے منورنجن کے علاوہ بھی کسی اور چیز کی امید کرسکیں گے۔

میں یہ تحریر نہیں لکھتا، مجھے تشویش اس لیے ہورہی ہے کیونکہ اردو کے پڑھے لکھے شاعر اور ادیب دنیا سے اٹھتے جارہے ہیں۔بلراج مین را، نیر مسعود، ساقی فاروقی، محمد علوی، شاہد حمید اور نہ جانے ایسے ہی کتنے نام ہیں۔میں ابھی کچھ دیر پہلے اپنے دوست عابد میر صاحب سے یہی ذکر کررہا تھا کہ ہندوستان کے ایک سرکاری ادارے نے آننا کاریننا کا ترجمہ شائع کیا۔اس ذمہ دار سرکاری ادارے کو اتنی بھی توفیق نہ ہوئی کہ دیکھ لیتا کہ مترجم صاحبہ نے ہرباب کی ابتدا میں قرآن کی ایک آیت منسلک کررکھی ہے، جس کا اصل متن سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔پھر انہوں نے بتایا کہ یہی حال پاکستان کا ہے، یعنی وہاں کسی صاحب نے رسل کی کتاب کا ترجمہ کرتے وقت اس میں غالب و اقبال کے اشعار داخل کردیے ہیں۔اس دھڑلے اور بے شرمی سے ترجمے جیسا حساس کام کرنے والے لوگ، پڑھنے والوں کی بری تربیت ہی تو کریں گے۔انہیں بھی لگے گا کہ کسی بھی متن کو ترجمہ کرتے وقت اپنی پسند کی کوئی مذہبی آیت یا اشلوک، شعر یا قطعہ کہیں بھی پیوند کی طرح ٹانکا جاسکتا ہے۔اخبار میں لکھنے والے تو خیر ویسے ہی زبان و بیان پر توجہ دینے سے رہے، انہوں نے تو اپنی ناکامی کو اب اپنا ہتھیار بنالیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ صحافت کے پرچے میں املا کی غلطیوں پر نمبر کاٹنا جائز نہیں۔چنانچہ جس کو جس لفظ کا جیسا املا مناسب معلوم ہو، زبان جیسی بھی لکھی جائے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔پہلے ادیب اور صحافی کچھ حد تک ایک ہی قسم کے لوگ ہوا کرتے تھے، اخبار اور رسائل دونوں کے لکھنے والے یا تو ایک دوسرے کی خبر رکھتے تھے یا پھر اکثر اوقات اچھے صحافی ادیب اور اچھے ادیب صحافی بھی ہوا کرتے تھے۔ایسے بہت سے کالم نویس ہیں، جنہوں نے اخباروں میں باقاعدگی سے لکھا اور اچھا ادب بھی تخلیق کیا۔

پچھلے دنوں ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ تصنیف بھائی! آخر اتنا پڑھنے سے بھی کیا فائدہ ہے؟ جب معاشی طور پر آپ کے بقول جاہل لوگ کامیاب ہی ہیں تو پڑھنا اور نہ پڑھنا تو ایک ہی بات ہے۔میں نے اس سوال پر غور کیا اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ معاشی قسم کا کوئی ‘فائدہ’ نہیں ہوتا۔آدمی معاشی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے، اچھا لباس پہن سکتا ہے، اچھا مکان بنوا سکتا ہے مگر یہ فائدے کی بات نہیں ہے۔کیا ذہنی ارتقا کی خواہش رکھنے والا کوئی فرد ان چیزوں سے دور ہی رہے گا؟ بالکل نہیں، بلکہ اسے یہ تمام چیزیں جلد یا بدیر حاصل ہوجائیں گی، بس اسے اپنی زندگی میں سے کچھ وقت ان معاملات کو نمٹانے کے لیے صرف کرنا ہوگا۔مگر اصل ‘فائدہ’ تو انسانی ذہن کی ترقی سےہوگا،معاش کی ترقی سے نہیں، بلکہ معاشی ترقی ایک حد سے زیادہ ہو تو سماجی طور پر ایک جرم بن جاتی ہے۔آپ اتنا کمائیں، جتنے کی آپ کو ضرورت ہو، اس سے زیادہ کماکر آپ دوسروں کے حق کو کسی نہ کسی صورت میں چھین رہے ہیں۔جبکہ علمی معاملات میں آپ جس قدر بھی آگے بڑھتے جائیں گے، اتنا ہی اپنی تشنگی کو بڑھتا ہوا محسوس کریں گے، کتابیں انسان میں لوگوں کی مختلف نفسیات کو سمجھنے کاحوصلہ پیدا کرتی ہیں، ان سے برداشت  کا جذبہ اور آگہی کی روشنی ساتھ ساتھ چلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور انسان ایک بہتر سماج کی تشکیل میں فروعی باتوں کو چھوڑ کر اصل معاملات او راصل مسئلوں کی دریافت اور ان کے حل پر گفتگو کا راستہ ہموار کرتا ہے۔اور یہی علم کا سب سے بڑا فائدہ ہے، یہ فائدہ اس لیے بھی ہے کیونکہ یہ انسانی نسلوں میں قائم رہنے ہی والی نہیں بلکہ انہیں قائم رکھنے والی ایک ایسی سیڑھی ہے، جس کو معاشی فائدے کی اصطلاح میں تبدیل کرکے ہم اس  پر قدم رکھنے والے انسانوں کی تذلیل کرتے ہیں اور ایک بہتر صورت حال کے پیدا ہونے کی گنجائش کو قتل کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔

شاعری کیا ہے اور وہ بھی خاص طور پر غزل کی شاعری ؟ دو جمع دو برابر چار کا فارمولہ۔جب لوگ دشت و صحرا، غزال و مشک، فراق و وصل جیسے معاملات کو سنتے سنتے جمائیاں لینے لگیں گے تب کیا ہوگا، نئی غزل؟ وہ دکان بھی کہاں تک چلے گی۔اور چلے گی بھی تو غزل کے نئے فارمولے تیار کیسے ہونگے؟ نظم کیسے کہی جائے گی؟فلسفہ کیسے سمجھا جائے گا؟سماجیات کا کیا ہوگا؟ کہانی کدھر سے آئے گی؟ کیونکہ ان ساری چیزوں کا تعلق پچھلی تخلیقات سے کچھ سیکھ کر آگے بولنے کے لائق ہونے کی مشق سے ہے۔آپ جڑکاٹ رہے ہیں، کتاب سے دور ہورہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ راہ مضمون تازہ تا قیامت کھلا بھی رہے۔اگر کھلا بھی رہے تو گونگی بستیوں پر ایسے مضامین اترنے کا فائدہ ہی کیا۔نیا اسلوب ختم ہوجانے کا مطلب ہے، زندگی کی نئی راہ کا سرے سے پیدا ہی نہ ہونا اور اس موت کا مطلب ہے، بولتی ہوئی ، بڑھتی ہوئی اور سیکھتی یا جانتی ہوئی دنیا میں بونوں اور بے وقوفوں کی طرح چپ چاپ کھڑے ہوکر حیرت سے ادھر ادھر دیکھتے رہنا۔

پچھلے دنوں مجھے ایک اور دوست نے بتایا کہ کوئی بزرگ تھے، جن کے انہماک کا یہ عالم تھا کہ کتاب پڑھتے وقت ایک رات ان کا شملہ جلنے لگا اور انہیں خبر ہی نہ ہوئی،اور جب خبر ہوئی تو انہیں کتاب بچانے کی فکر پہلے لاحق ہوئی۔اب معاملہ دوسرا ہے، کتاب جل رہی ہے اور لوگ شملے بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔آپ اپنے بزرگوں کو ان کی گھسی پٹی تنقید پر لعن طعن کرسکتے ہیں، ان کے لمبے لمبے لیکچرز کو بورنگ کہہ سکتے ہیں، ان کے تذکروں، خودنوشتوں کو جھوٹ کا پلندہ ثابت کرسکتے ہیں، مگر ان کے لکھنے کے سلیقے پر انگلی نہیں اٹھاسکتے۔میری مایوسی کی وجہ ہندوستان میں اردو کا معاشرہ اس لیے بھی ہے کیونکہ ہمارے یہاں جن اداروں کی بنیاد ہی کتابوں کو شائع کرکے لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری پر رکھی گئی تھی، ان کا بھی اب یہ ماننا ہے کہ مفت میں بھی کتابیں لوگوں کو بھیجنے کے باوجود، قیمتیں کم سے کم رکھنے کے باوجود ، لوگ نہ تو کتابیں قبول کرتے ہیں، نہ خریدتے ہیں نہ پڑھتے ہیں۔زبان ختم نہیں ہوگی، وقت کے ساتھ نئی لغت تیار ہوجائے گی، چاہے اس میں کیسے ہی الفاظ کیوں نہ ہو، مگر فکر کا جو نقصان ہوگا، اس کی بھرپائی ممکن نہیں ہے۔کتاب کے بغیر جو معاشرہ بنے گا، اس میں عدم برداشت کے ساتھ ساتھ جھوٹ کو قبول کرلینے کی کمزوری  بھی حد سے زیادہ ہوگی ، ایسے میں موسم ہی خراب نہیں ہوں گے، شک اور اپنے سیاسی آقائوں کی کہی گئی باتوں پر اندھا یقین بھی ماحول کو بگاڑنے میں بڑا رول ادا کرے گا۔ٹھیک وہی ماحول ، جس میں پدماوت جیسی مثنوی اچانک تاریخ کا بھوت بن کر لوگوں کے سر پر سوار ہوجاتی ہے اور وہ سچ اور جھوٹ  کو سمجھنے کے لیے کسی بھی منطقی بات کو ماننے پر تیار ہی نہیں ہوتے۔وجہ یہی ہے کہ ہم نے کتابوں کو جلنے دیا ہے اور شملوں کو سنبھالنے کی فکر میں لگے ہیں۔اور یہ جھوٹی اور بے وقوفانہ فکر ہمیں مستقل کرب اور تکلیف کی دلدل میں دھنساتی چلی جارہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).