سیاست فرض ہے!


\"abid الیکسینڈاوس پانا گاﺅس، اپنے دوستوں اور پولیس کے لیے ”آلیکاس“1943ء میں یونان کے شہر ایتھنز میں پیدا ہوا ۔ اس کی ماں کا نام اتھینا اور باپ کا نام باسل پانا گاﺅس تھا۔ باسل پانا گاﺅس فوج میں کرنل کے عہدے پر کام کرتا رہا تھا ۔ اس نے جنگ بلقان پہلی عالمی جنگ، ایشیا ئے کوچک میں ترکوں کے خلاف جنگ اور 1950ءلڑی گئی سول وار میں بھر پور شرکت کی تھی ۔ تین بھائیوں میں منجھلا لڑکا، تمام بھائیوں میں سب سے زیادہ جمہوریت پسند اور اس سے کہیں زیادہ فسطائیت دشمن تھا ۔ یونانی مزاحمتی تحریک کا بانی اور سر براہ ۔ وہ تحریک جسے جرنیل اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود تباہ برباد کرنے میں ناکام رہے۔ اس سازش کا منصوبہ ساز جو بال برابر ناکام ہوئی، جس کی کامیابی کی صورت میں پاپا ڈوپاؤس لوس کواپنی جان اورفوجی جنتا کو اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑتے، اس جُرم کی پاداش میں اسے گرفتار کیا گیا۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران اور سزا کے فیصلے کے بعد اسے بے پناہ اور مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے باوجود انھیں یہی پتا چلا کہ وہ نا کسی کی طاقت کا گماشتہ تھا اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کے احکامات کی تکمیل کر رہا تھا بلکہ وہ خود اس یونانی مزاحمتی تحریک کا بانی تھا ۔ وہ تحریک جو اپوزیشن کی اکثریت کی نمائندگی کر رہی تھی اور اسی کے لیے اسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا تھا ۔ ایک ایسی سزا جسے خود اس نے کمرئہ عدالت میں دو گھنٹے طویل دفاعی تقریر میں تجوےز کر کے ججوں پر سکتہ طاری کر دیا تھا….

”تم آمریت کے نمایندے ہو اور مجھے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ تم مجھے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرنے کا حکم دو گے، لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہر سچے شاعر کا آخری گیت اور سچے جنگ جو کی آخری جدوجہد فائرنگ اسکواڈ کے سامنے آخری ہچکی ہوتی ہے۔ “

\"alek-panagoulis\"

یہ ناقابلِ فراموش اور نا قابلِ یقین مقدمہ تھا۔ اس سے پہلے کبھی کسی ملزم کو اس طرح بھری عدالت میں مدعی اور خود عدالت کو مجرم قرار دیتے ہوئے نہ دیکھا گیا تھا ۔ وہ اس حالت میں عدالت میں وارد ہوا کہ اس کے دونوں ہاتھ اس کی پشت پر بندھے ہوئے تھے ۔ پولیس نے اس کے کاندھے، بازو اور کمر پوری طرح کس دیے تھے، مگراس نے پورے زور سے چھلانگ لگا کر اپنے قدموں پرکھڑا ہو کر ایک ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کر کے ان کے لیے تحقیر اور نفرت کے جذبات کا بر ملا اظہار کیا تھا۔

اس خدشے کے پیش نظر کہ اس طرح کہیں وہ عوام کی نگاہ میں ہیرو نہ بن جائے، اُس وقت انہوں نے اُس کو سزائے موت کا حکم نہ سُنایا مگر اس باوجود وہ ایک قدیم یونانی سورما بن گیا، اس لیے کہ بعض اوقات مرنا کہیں زیادہ آسان ہو جاتا ہے، اُس جینے سے کہ جیسے وہ جیا ۔ وہ اسے بار بار یہ دھمکی دیتے ہوئے کہ، ”باہر فائرنگ اسکواڈ تمہارا منتظر ہے“ مسلسل ایک سے دوسری جیل میں منتقل کرتے رہے، وہ اس کے سیل میں بے دریغ گھس آتے اور اسے بے پناہ تشدد کا نشانہ بناتے۔ انھوں نے مسلسل گیارہ ماہ تک اس کے ہاتھ باندھے رکھے، تمام دن اور تمام راتیں، حتیٰ کہ اس کی کلائیاں ایک پکے ہوئے پھوڑے کی طرح سوج گئیں، وہ اسے مختلف وقفوں سے سگریٹ پینے اور کتاب پڑھنے سے روکتے رہے۔ حد یہ ہے کہ اسے کبھی کاغذ اور \"5-1-thumb-large\"پنسل تک نہ دی گئی کہ جن پر وہ اپنی نظمیں رقم کر سکتا ۔

یہ اس یونانی شاعر کی داستان ہے جس نے کہا تھا کہ، ”سیاست فرض ہے اور شاعری ضرورت ۔ “ اس نے اپنا یہ قول عملی طور پر ثابت کر دکھایا اور جب اس ملک پر ایک فوجی آمرنے زبردستی حکومت پر قبضہ کیا تو اس نے اپنی ” ضرورت“ کو بالا ئے طاق رکھ کر ”فرض “ نبھایا۔

اپنے دیس کی مزاحمتی تحریک میں عملی طور پر شامل ہوا اور ڈکٹیٹر حکمران پر براہِ راست قاتلانہ حملہ کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ دُنیا کی معروف صحافی اور بعدازاں اس کی ہم درد و غم خوار بن جانے والی اور یانا فلاشی نے جب ان کا انٹرویو کیا تو اس داستاں اس قدر متاثر کن تھی کہ دنیا کے بڑے کٹھن اور مشکل مقامات پر خود پہ قابو رکھنے والی یہ بے باک صحافی اپنے دل پر قابو نہ رکھ سکی اور جب اس کا انٹرویو کر کے واپس آئی تو پتا چلا کہ دل تو وہیں چھوڑ آئی ہے۔ اوریانا کی مشہور زمانہ کتاب  interview with History کا یہ آخری انٹرویو تھا لیکن اس رشتے کا یہ آغاز تھا جسے انھوں نے نہ تو کوئی نام دیا، نہ زمانے کی کسی رسم کا پابند بنایا ۔ اوریانا چند برس \"assetss\"پہلے ہم سے بچھڑ گئی، جب کہ آلیکاس کو اُنھی دنوں فوجی حکمرانوں نے سزائے موت دے دی تھی ۔

آلیکاس کی یہ داستان بھی اوریانا نے اُس کے انٹرویو سے قبل تعارفی حصے میں خود ہی درج کی ہے ۔ میں جب اس کا یہ انٹرویو پڑھ رہا تھا تو کئی مقامات پر مجھے ایسا لگا جیسے میں اپنی سرزمین کے کسی باغی شاعر کے حالات پڑھ رہا ہوں ۔ بغاوت کا وہی جذبہ، سرزمین سے وہی عشق، دھرتی کو غاصبوں سے پاک کرنے کا وہی عزم، حتیٰ کہ آمروں کی طرف سے اس باغی کو سزائیں دینے کا عمل بھی وہی جو ہمارے ہاں رائج ہے۔ میں نے اس کے انٹرویو سے کچھ چھوٹے چھوٹے اقتباسات نوٹ کیے ہیں، انھیں پڑھ کر آپ بھی میری اس رائے سے اتفاق کرے گے کہ دنیا بھر کے محکوموں اور باغیوں کے خیالات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔

آئیے ارسطواور سقراط کے دیس کے اس باغی عاشق شاعر کے، عشق کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں:

\"upl536217b0c8648\"”ہم وہ لوگ ہیں جو کبھی نہیں روتے اور اگر کبھی اتفاق سے ہمیں رونا بھی پڑ جائے تو ہم دوسرے لوگوں کے آگے کبھی آنسو نہیں بہاتے۔ “ (ہے نا بالکل خالص بلوچوں والی بات !)

’دنیا میں سب سے ہول ناک شے صرف دُکھ اٹھانا نہیں بلکہ تنہائی میں دُکھ اٹھانا ہے ۔ ‘

’انسان کو بنیادی طور پر بھلا ہونے کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور اسی لیے اکثر وبیش تربدی کے بجائے وہ نیکی کا انتخاب کرتا ہے۔ “

’میں محبت سے بے پناہ محبت کرتا ہوں اور میرا باطن ہر اس شخص کے لیے نفرت سے بھرا ہوا ساگر ہے جو آزادی کو ہلاک کرتا ہے ۔ ‘

’میں نے اپنی جیل کی سیل کی ایک دیوار پر جلی حروف میں لکھا تھا، میں آمروں سے نفرت کرتا ہوں لیکن بزولوں سے مجھے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ ‘

’ایک سچی جمہوریت میں، سیاست میں ہونا، اتنا ہی خوب صورت بن جاتا ہے، جیسے آپ محبت سے محبت کر رہے ہوں ۔ ‘

 ارسطو نے جس’مثالی ریاست‘کا تصور پیش کیا تھا، اُس میں اس نے شاعروں کو دیس نکالا دینے کا حکم دیا تھا کیوں کہ اس کا خیا ل تھا کہ شاعروں کی حقیقت سے اور سماج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہ لوگ تخیلاتی باتیں کر کے لوگوں کو حقائق سے اور مسائل سے دُور رکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر ارسطونے اپنی سر زمین پہ آلیکاس جیسے شاعر دیکھے ہوتے تو آج وہ ایسے شاعروں کو معاشرے میں باعزت ترین مقام اور اعلیٰ ترین اعزاز دینے کا مطالبہ کرتا، وہ یقینا انھیں اپنے سماج کا ضمیر قرار دیتا، جن کا نظریہ ہے کہ، ”سیاست فرض ہے اور شاعری ضرورت۔ “

میں سوچتا ہوں جس روز میرے دیس کے شاعر اور لکھاری اس قول پر عمل پیرا ہونے لگے، اس روز سے اس دیس کی سیاست کا رُخ اور اس سرزمین کے عوام کا مقدر بدل جائے گا….!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments