استاد نذر حسین کی یاد میں


ہمارے ہاں ایک زمانے تک موسیقی کی جس شکل کو قبولِ عام کا درجہ حاصل رہا وہ فلمی موسیقی ہے۔ یہ ذرا بعد کی بات ہے جب غیر فلمی موسیقی بھی فلمی سنگیت کی طرح مقبول ہوئی۔ کلاسیکی موسیقی کا معاملہ البتہ الگ ہے کہ اسے خواص کا سنگیت سمجھا جاتا ہے۔ اگر پاکستان کے مایہ ناز سنگیت کاروں یا موسیقاروں کی بات کی جائے تو سارے کے سارے ایسے نام یاد آتے ہیں جنھوں نے فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دے کر نام اور مقام حاصل کیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اُستاد نذر حسین اُن معدودے چند موسیقاروں میں سے تھےجنھوں نے غیر فلمی موسیقی کے ذریعے اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ایسا نہیں ہے کہ فلمی سنگیت کی جانب استاد نذر حسین کا رجحان نہ رہا ہو۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انھوں نے اپنے فنی سفر کے ابتدائی دور میں کراچی کی ایک فلم ’’ندیا کنارے‘‘ کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی۔ اس فلم کے لیے انھوں نے دو نغمے ریکارڈ کیے۔ ’’ستا ستا کے ہمیں اشک بار کرتی ہے‘‘ یہ وفا رومانی کی لکھی ہوئی غزل تھی جسے انھوں نے مہدی حسن سے گوایا۔ دوسرا گیت انھوں نے رونا لیلیٰ کی آواز میں ریکارڈ کیا جس کے بول تھے ’’چھین کے دل ہمارا۔ ۔ ۔ ‘‘ اس فلم کے باقی تین نغمے ایک دوسرے موسیقار ارشد راجو نے کمپوز کیے تھے لیکن یہ فلم نامکمل رہی اور کبھی ریلیز نہ ہوسکی البتہ استاد نذر کا کمپوز کیا ہوا مہدی حسن کا گیت آج بھی کہیں کہیں سننے میں آجاتا ہے۔

استاد نذر حسین اپنی طرز کے منفرد موسیقار تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بے شمار گیتوں اور غزلوں کی دھنیں بنائیں۔ ان کی بنائی ہوئی دھنوں میں وہ خوبی تھی جسے شاعری کی اصطلاح میں سہل ممتنع کہا جاتا ہے یعنی سننے میں یہ دھنیں سادہ اور سیدھی معلوم ہوتی ہیں لیکن جب ان دھنوں کو گایا جاتا ہے تو ان کی پیچیدگی اور مشکل کا اندازہ ہوتا ہے۔

استاد نذر حسین کا جنم تو پنجاب میں ہوا لیکن تلاش معاش انھیں سندھ کے شہر حیدرآباد لے آئی۔ یہیں ریڈیو حیدرآباد اور بعد ازاں کراچی سےانھوں نے ایک سازندے کے طور پر اپنا فنی سفر شروع کیا۔ یہ ریڈیو کی مقبولیت کا زمانہ تھا اور ریڈیو کو اپنے موسیقی کے پروگراموں کے لیے سازندوں کی ضرورت رہتی تھی۔ استاد نذر حسین کو سرود بجانے میں مہارت حاصل تھی۔ سرود انھوں نے استاد مہردین سے سیکھا تھا جو مشہور فلمی موسیقار طفیل فاروقی کے والد تھے۔ سرود بجانے والے پاکستان میں بہت کم تھے۔ نذر حسین کے علاوہ مشہور فلمی موسیقار وزیر افضل نے بھی سرود نواز کے طور پر اپنا فنی سفر شروع کیا تھا۔ استاد نذر حسین کی سرود نوازی تو زیادہ نہ چل سکی البتہ وہ ایک موسیقار کے طور پر ریڈیو پر اپنی جگہ بنانے میں جلد کامیاب ہوگئے اور جلد ہی اس فن میں اپنے انفراد کا رنگ جما دیا۔ ان کی دھنوں میں تال اور ماترے کا نظام ہمیشہ منفرد اور پیچیدہ ہوتا تھا جو ان کی دھنوں کی مزید انفرادیت بخش دیتا تھا۔ اپنے بارے میں وہ خود کہا کرتے تھے کہ میں بنیادی طور پر ایک ’’گنت کار‘‘ ہوں۔ گفتگو کرتے ہوئے بھی ان کی انگلیاں ماترے گنتی رہتی تھیں۔ فن میں سرتاسر ڈوبے ہوئے ایسے فنکار اب کہاں۔

 ان کے فن سے فیض یاب ہوکر اپنا نام بنانے والے فنکاروں کی ایک لمبی فہرست ہے ایسے ہی فنکاروں میں ایک گلوکارہ مہناز بھی تھیں۔ مہناز نے بھی اپنا فنی سفر کراچی ریڈیو سے شروع کیا اور استاد نذر حسین کی دھنوں میں کتنے ہی خوبصورت گیت اور غزلیں گائیں اور سننے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی، پھر چاہے وہ اطہر نفیس کی غزل ’’اک صورت دل میں سمائی ہے، اک شکل ہمیں پھر بھائی ہے‘‘ ہو یا پوربی انگ کا گیت ’’ سکھی ری مورے نین پیا سنگ لاگے‘‘ یا پھر نیم کلاسیکل بندش ’’برکھا بہار آئی، پیا ناہی آئے رے‘‘، مہناز نے استاد نذر کی دھنوں کو ہمیشہ اپنی آواز سے چار چاند لگائے۔ مہناز کے علاوہ، ریڈیو کے زمانے میں جن دوسرے نمایاں گلوکاروں نے استاد نذر حسین کی دھنیں گائیں ان میں رونا لیلیٰ، فریدہ خانم اور بلقیس خانم کے نام شامل ہیں۔ سننے والوں کے ذہنوں میں شاید آج بھی رونا لیلیٰ کی غزل ’’عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے‘‘ اور فریدہ خانم کی گائی ہوئی غزل ’’کس کے آنچل کی ہوا لے کے بہار آئی ہے‘‘ تازہ ہو، اسی طرح بلقیس خانم کی گائی ہوئی، عبید اللہ علیم کی غزل ’’کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں، پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا‘‘ کسے یاد نہ ہوگی۔  اس غزل کی تال میں انھوں نے ایک نہایت دلچسپ تجربہ کیا۔ سندھ میں عام طور پر تلواڑا تال بجائی جاتی ہے۔ اس کا ایک مخصوص ردھم ہے جو غزل گائیکی کے لیے مناسب نہیں سمجھا جاتا لیکن یہ استاد نذر حسین کا کمال ہی ہے کہ انھوں نے تلواڑا میں اس خوبصورت غزل کا ردھم قائم کیا۔

انھوں نے پاکستان کے سبھی بڑے بڑے گانے والوں کے لیے دھنیں تخلیق کیں جن میں خصوصیت کے ساتھ ملکہ ترنم نورجہاں شامل ہیں۔ 1980 میں جب اسلام آباد ٹیلی ویژن مرکز سے ’’ترنم‘‘ پروگرام شروع ہوا تو نذر حسین کو خاص طور پر نورجہاں کے لیے غزلوں کی دھنیں ترتیب دینے کے لیے بلایا گیا۔ نورجہاں کے لیے دھن بنانا کسی بھی موسیقار کے لیے فخر اور مسرت کی بات ہو سکتی تھی ، خود نورجہاں کے لیے بھی، اپنی تمام تر شہرت اور مقبولیت کے باوجود، غیر فلمی غزل گائیکی کا یہ پہلا موقع تھا اور وہ اس کی حسّاسیت سے واقف تھیں۔ انھوں نے ایک ریڈیو انٹرویو میں اس بات کا اقرار کیا کہ ’’ترنم‘‘ پروگرام کے گیت اور غزلوں کے لیے انھوں نے بہت محنت کی۔ استاد نذر نے ان دھنوں کو ترتیب دیتے ہوئے ثابت کیا کہ وہ اس فن کے کتنے بڑے استاد ہیں اور نورجہاں نے انھیں خوبی اور مہارت سے گا کر یہ منوایا کہ وہ مشکل سے مشکل دھن کو گانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ذرا رضی ترمذی کی غزل ’’جب یہ جان حزیں وقف آلام ہوئی‘‘ یاد کیجے۔ اس غزل کو عام گانے والا نہیں گا سکتا۔ پوری دھن میں جا بہ جا ایسی باریکیاں ہیں اور ایسی استادانہ ’’جگہیں‘‘ رکھیں گئی ہیں جنھیں نورجہاں کا گلا ہی ادا کرسکتا تھا۔ یہی بات شہزاد جالندھری کی غزل ’’گل کھلے چاند رات یاد آئی ‘‘ کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ ناصر کاظمی کی لکھی ہوئی ، نورجہاں کی مشہورغزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا‘‘ بھی اس ضمن میں ایک اور مثال ہے، بظاہر سیدھی سادی ہونے کے باوجود یہ دھن فنی خوبیوں سے مالا مال ہے۔ اسی طرح مصطفیٰ زیدی کی خوبصورت غزل ’’آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا‘‘ ، قمر جلالوی کی غزل ’’کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو‘‘ اور ناصر کاظمی کی غزل ’’ نیّت شوق بھر نہ جائے کہیں‘‘ ایسی ہی دوسری یادگار غزلیں تھیں جن کی دھنیں استاد نذر حسین نے ’’ترنم‘‘ پروگرام کے لیے بنائیں۔ 12 برس بعد، 1992 میں یہ پروگرام لاہور سے پیش کیا گیا۔ اس طرح استاد نذر حسین کی دھنوں کو ایک بار پھر نورجہاں کی آواز ملی۔ اس بار بھی انھوں نے ایسی ایسی شاہکار دھنیں تخیلق کیں جو نہ صرف فنی خوبیوں سے مالا مال تھیں بلکہ عوام اور خواص میں مقبول ہوجانے کی صلاحیت بھی رکھتی تھیں۔

کلیم عثمانی کی غزل ’’رات پھیلی ہے ترے سرمئی آنچل کی طرح‘‘، سلیم گیلانی کی غزل ’’نگاہ جور سہی، دیکھیے تو کم سے کم‘‘، جاوید قریشی کی غزل ’’وہ میری بزم میں آیا ہو کبھی یاد نہیں‘‘، جمیل الدین عالی کی غزل ’’ذرا بھی چھو لو تو اڑ جاؤں کہکشاں کی طرح‘‘، میر حسن کی غزل ’’ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں‘‘، داغ دہلوی کی غزل ’’لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے‘‘ اور ایسی کتنی ہی خوبصورت غزلوں کی دھنیں ہیں جو استاد نذر حسین نے نورجہاں کے لیے اس پروگرام میں ترتیب دیں۔ آخری دو غزلیں وہ اس سے پہلے ریڈیو کے زمانے میں بالترتیب عابدہ پروین اور مہناز سے گوا چکے تھے لیکن مطمعئن نہ ہوئے تھے، اس بار ان غزلوں کو نورجہاں کی آواز اور ادائی ملی تو دھن کو گویا چار چاند لگ گئے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میری دھن کو نورجہاں سے اچھا کوئی نہیں گا سکتا۔ نورجہاں بھی ان کی فن کی بے حد معترف تھیں۔ ترنم پروگرام ہی میں انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے استاد نذر حسین کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا۔ انھوں کے کہا تھا ’’آج میں نذر حسین صاحب کے لیے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ ترنم پروگرام میں ان کی میں نے بہت ساری غزلیں گائی ہیں۔ جن لوگوں نے سنی ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان غزلوں پر کتنی محنت تھی۔ اللہ کا شکر ہے میرا حافظہ بہت اچھا ہے، میں ایک بار سنتی ہوں، دوسری بار سنا دیتی ہوں، مگر نذر صاحب کی غزلیں سن کر میں نے ریہرسل کی، کئی دفعہ ٹیپ کر لیں کہ آپ کے پاس (ریہرسل کروانے کا) وقت نہیں ہے، مجھے ٹیپ کر دیں۔ یہی ایسی چیزیں تھیں جن پر میں نے محنت کی۔ اور مجھے معلوم ہوا کہ ان کا کام کوئی ایسا ویسا گانے والا نہیں کرسکتا جب تک کہ کسی نے اپنے استاد سے سیکھا پوچھا نہ ہو، ریاض نہ کیا ہو یا کلاسیکل کی بنیاد نہ ہو۔۔۔ ایسا گانے والا ان کی غزل پر، میرا ایمان ہے، میرا یقین ہے، میرا دعویٰ ہے۔۔۔۔ کوئی ’’آ‘‘ بھی نہیں کرسکتا‘‘۔ نورجہاں جیسی بے مثال گلوکارہ کے یہ الفاظ استاد نذر حسین کے فن کے لیے ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ بلا شبہ وہ ایسے ہی شاندار خراج تحسین کے حقدار تھے۔

نورجہاں کے لیےاستاد نذر حسین نے ایک نعتیہ البم کی دھنیں بھی بنائیں۔ یہ البم ای ایم آئی نے جاری کیا تھا اور اس کی تمام ہی نعتیں نہایت خوبصورت تھیں خصوصیت کے ساتھ ’’ بہ حضور سرور سروراں‘‘، ’’ان کے دربار میں، ان کی سرکار میں‘‘ اور ’’لم یات نظیرو۔ ۔ ۔ ‘‘ یہاں استاد نذر حسین کے ترتیب دیے ہوئے ملّی نغموں کا تذکرہ بھی ضرور ہے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لے متعدد ملّی نغموں کی دھنیں ترتیب دیں جن میں دو اس وقت مجھے یاد آرہے ہیں، ’’چڑھتا چاند، ابھرتا سورج‘‘ اور ’’پھر شیر خدا جاگے، پھر وقت جہاد آیا‘‘، یہ دونوں نغمے نورجہاں نے گائے تھے۔

استاد نذر حسین ایک بہت اچھے گائیک بھی تھے اور سلطانی صاحب پشاور والے کے شاگرد تھے۔ بہت سریلا گلا پایا تھا، جب کوئی راگ گاتے تو سماں باندھ دیتے۔ حیدرآباد میں ایسی ہی ایک محفل میں جب وہ گا رہے تھے تو مشہور کلاسیکل گائیک استاد فتح علی خان (گوالیاری) بے اختیار رونے لگے۔ یہ ایک بڑے فنکار کے لیے دوسرے بڑے فنکار کی داد تھی۔ ریڈیو سے ان کی گائی ہوئی ٹھمری غارا نشر ہوا کرتی تھی جو سننے سے تعلق رکھتی تھی۔ انہوں نے متعدد غزلوں کو بھی اپنی گائیکی سے سجایا۔ کچھ سال ہوئے ان کی غزلوں کا ایک البم ’’رچنا‘‘ بھی سامنے آیا تھا۔ اس البم میں مجید امجد کی غزل ’’جو دن کبھی نہیں بیتا، وہ دن کب آئے گا‘‘ ایک نہایت خوبصورت دھن تھی جسے انھوں نے نہایت خوبی کے ساتھ گایا تھا۔ یہ غزل خاصی مقبول ہوئی۔

استاد نذر کے فن کے معترف صرف پاکستان ہی میں نہیں تھے بلکہ جہاں جہاں اردو غزل سے محبت کرنے والے موجود ہیں وہاں وہاں استاد نذر کے فن کو تکریم اور احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔ ہندوستان کے مشہور غزل گائیک ہری ہرن 2004 میں جب اپنی غزلوں کے البم ’’لاہور کے رنگ ہری کے سنگ‘‘ کے لیے پاکستان آئے تو انھوں نے خاص طور پر درخواست کی کہ ان کے اس البم کے لیے کچھ غزلوں کی دھنیں استاد نذر حسین مرتب کریں۔ استاد نذر حسین نے ہری ہرن کے لیے دو غزلوں کی دھنیں بنائیں اور وہ دونوں ہی غزلیں اس البم کی جان تھیں۔ مجید امجد کی غزل ’’دل سے ہر گزری بات گزری ہے‘‘ اور ناصر کاظمی کی غزل ’’بیگانہ وار ان سے ملاقات ہو تو ہو‘‘۔ ناصر کاظمی کی غزل کی دھن استاد نذر حسین کی ایک شاہکار دھن ہے جسے انھوں نے راگ درباری میں مرتب کیا تھا۔ دُھن پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست جمالیاتی تاثر کی حامل ہے ، اس کا ردھم خصوصیت کے ساتھ اہمیت کا حامل ہے۔ استاد نذر نے اس دھن میں دُہرا دادرا بجوایا ہے، یہ تال بھی غزل گائیکی میں شاذ و نادر ہی استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ گاتے ہوئے گائیک قدم قدم پر امتحان سے گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ استاد نذر حسین کا کہنا تھا کہ اس دھن کو گانے کے لیے ہری ہرن کو ایک ماہ ریہرسل کرنا پڑی تھی۔

استاد نذر حسین طویل عرصے تک عملی طور پر فن موسیقی سے وابستہ رہے، وقت بلا، وقت کا چلن بدلا ، لیکن استاد نذر کی فن کی ندرت اور دلکشی ویسی ہی رہی بلکہ اس پر نیا نکھار آتا چلا گیا، اس کا واضح ثبوت اس وقت دیکھنے میں آیا جب 2008 میں انھوں نے ’’ترنگ‘‘ نامی میوزک البم کے لیے حمیرا چنا سے پنجابی گیت ’’چیت چڑھیا‘‘ گوایا۔ یہ ایک بے حد خوبصورت اور دلکش گیت تھا جو بے اندازہ مقبول ہوااور اس بات کا ثبوت بن گیا کہ بڑے فنکاروں کے فن پر وقت کا بدلاؤ کچھ اثر نہیں کرتا بلکہ ان کا فن ہر وقت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

21 جنوری 2018 کو استاد نذر حسین ایک طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال کرگئے۔ ان کے انتقال سے ہم نے ایک بے حد منفرد اور بے مثال موسیقار کو کھو دیا لیکن ان کی خوبصورت دھنیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).