قصہ ایک بےچارے دلہےکے نصیب کھلنے کا


کسی شاعر نے کہا تھا ” عقد سے کس کو رستگاری ہے۔ آج ہم کل تمہاری باری ہے“۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس سے ہمارے ملک کے لوگوں کی اکثریت کو زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ تو ضرور دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کو ایک بار کی ہزیمت ہضم نہیں ہوتی اور وہ دوبارہ اورسہ بارہ بھی یہ ہزیمت اٹھانے کو بخوشی تیار ہو جاتےہیں۔ آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہی ہوگا کہ آ بیل مجھے مار۔ شادی بھی ایک ایسا ہی بیل ہے جس کو لوگ ہنسی خوشی آ کر مارنے کی دعوت دیتے ہیں۔ پھر جب یہ بیل آ کر زوردار ٹکر مار دیتا ہے تو ساری عمر اپنی کڑکڑاتی ہوئی ہڈیوں کی سیکائی کرتےرہتے ہیں۔

شادی کو ہمارے ہاں نصیب کھلنا بھی کہتے ہیں۔ ہمارے والدین کو بھی ہمارے نصیب کھول ڈالنے کا بہت شوق تھا۔ چناچہ اکثر گھریلو بحث کا موضوع ہمارا نصیب ہی رہتا تھا۔ ہم دوسرے تیسرے نصیب کھولنے کے چکر میں لگے رہتے تھے جبکہ والدین کے نزدیک وہ سب خرافات تھیں۔ روز روز کی تحریک استحقاق سے تنگ آ کر ہم نے بالآخر نصیب کھلوانے پر اتفاق کر لیا۔ جب ہم اپنے والدین کے ساتھ ایک پیج پر آ گئے تو ایک مکمل طور پر با اختیار مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں مختلف اداروں سے مدد لی گئی۔ ارکان میں والدہ، ہمشیرہ، خالہ، پھپھی، چچی، تائی، ممانی، نانی اور دادی جیسے ہیرے شامل تھے۔ بوقت ضرورت یہ جے آئی ٹی کسی سے بھی تعاون طلب کر سکتی تھی۔ اس جے آئی ٹی کا واحد ہدف بے پناہ خصوصیات کی حامل ایک ایسی موصوفہ کی تلاش تھا جو دنیا کے کسی بھی کونے میں پائی جا سکتی تھی۔

ہمارے ملک کی تاریخ میں تشکیل پانے والی تمام جے آئی ٹیز نے حیران کن کارنامے سر انجام دیے ہیں۔ چناچہ اس جے آئی ٹی کے ہیروں نے بھی اپنی شاندار روایات کو برقرار رکھتے ہوئے برق رفتاری سے اپنا ہدف تلاش کر لیا اور صرف چار سال کی شبانہ روز محنت کے بعد بالآخر بے شمار خصوصیات کی حامل ایک عفیفہ تلاش کر لی گئی جو برضا و رغبت ہماری زوجیت میں آنے کی سزا قبول کرنے کا حوصلہ رکھتی تھی۔ اس وقت ہمیں یقین آیا کہ ”وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا“۔ بعد کے معاملات محض رسمی تھے چناچہ آناً فاناً طے کر لیے گئے اور نصیب کھلنے کی تاریخ مقرر کر دی گئی۔

تاریخ مقرر ہوتے ہی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ اراکین خانہ کو ذمہ داریاں بانٹ دی گئیں اور تمام جملہ ذمہ داریوں کو بروقت ادا کرنے کی سخت ہدایات جاری کر دی گئیں۔ ہمارے ذمے محض انتظار کرنا اور اس ایونٹ کے اخراجات مہیا کرنا تھا۔ حکومت کی طرح ہمارا بجٹ بھی ہمیشہ سے خسارے کا شکار رہا ہے چناچہ ہم نے فوراً اپنے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا اور منصوبہ بندی شروع کر دی کہ کس کس مد میں کٹوتی کر کے اس بارِ گراں کے لیے قابل ذکر اور قابل قدر اخراجات کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔ اشاریوں پر اشاریے ترتیب پاتے چلے گئے اور اخراجات کا تعین دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا گیا۔ مثال کے طور پر روزِ قرباں کے لیے جو بناؤ سنگھار ہمارا ہونا تھا اس کی کل لاگت کا تخمینہ قریباً اڑھائی لاکھ روپے کا لگایا گیا تھا۔ ہم یہ تخمینہ جان کر بھونچکے رہ گئے تھے۔ گوٹے کناری اورسنہرے تلے کے کام والی شیروانی بشمول شلوار کرتا، سلیم شاہی کھسے اور دستار جو شہر کے مشہور ڈیزائنر کے ہاں سے خریدی جانی تھی اس کی قیمت صرف ایک لاکھ پچھتر ہزار روپےتھی۔ اس کے علاوہ بیوٹی پارلر کا خرچہ صرف پچاس ہزار اور دیگر چھوٹے موٹے اخراجات اس کے علاوہ تھے۔ مرے پر سو درے کے مصداق ولیمے کے لیے زوجہ محترمہ کا لباس، دیگر افراد خانہ و خاندان کے لیے تحفے تحائف، رشتہ تلاش کرنے والی جے آئی ٹی کا ہدیہ تشکر اور دیگر بے شمار اخراجات اس کے علاوہ تھے۔ اب جو ہم نے عقد مسنونہ کے کل اخراجات کا تخمینہ ملاحظہ فرمایا تو ہمارے دیوتا کوچ کر گئے۔ ہم اس شادی سے صرف ایک نکی جئی نہ کر کے ایک چھوٹی موٹی مرسڈیز گاڑی خرید سکتے تھے۔ اصل مسئلہ مگر قلت زر تھا جو کسی طور حل ہوتا نہ دکھائی دے رہا تھا۔ ہم ٹھہرے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے عوام۔ اس مرحلے پر ہم نے تحریک التوا بھی پیش کی مگر اس کو ایسے ہی مسترد کر دیا گیا جیسے قومی اسمبلی کا اسپیکر اپوزیشن کی تحاریک کو مسترد کر دیتا ہے۔

وہاں سے مایوس ہو کر ہم نے مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر کے اس بحران سے نبٹنے کا منصوبہ بنایا مگر ہمارے تمام منصوبے ہمارے عزیز و اقارب کی خواہشات کے اونچے درجے کے سیلاب میں بہ گئے۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ ہم نے بنک میں قرضے کی درخواست دے ڈالی۔ یہ وہ ادارہ ہے جو اس وقت کام آتا ہے جب سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ چناچہ بنک نے ہماری درخواست پر ہمدردانہ غور کرنے کے بعد ہمیں فراہمی زر کی یقین دہانی کروا دی۔ یہ مسئلہ حل ہوا۔ اب ہم نے کوشش کی کہ گھر والوں کے سمجھا سکیں کہ ہم قرض کی مے پینے جا رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یہ فاقہ مستی ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لا کر رہے گی اس لیے جہاں میٹرو ملن اگر بتی کی طرح، جو چار کی جگہ ایک جلانے پر بھی کام چل جاتا ہے، شادی کے لیے بھی چار کی جگہ ایک روپیہ خرچ کر لیں۔ مگر ہماری ایک نہ چلی اور نہایت دھوم دھام بلکہ دھوم دھڑکے سے ہمارے نصیب کھول ڈالے گئے۔ اللہ جانے کس کس نے کون کون سے ارمان دلوں میں پال رکھے تھے جو اس موقع پر دل کھول کر پورے کیے گئے۔

اب ہمارے نصیب کھلے ہوئے دو برس گزر چکے ہیں۔ ہماری نئی نسل بھی اس دنیا میں تشریف لا چکی ہے اور اس کی والدہ کو ابھی سے اس کے نصیب کھولنے کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ جبکہ ہم شدید ترین مالی بحران میں گھر چکے ہیں۔ ہماری آمدنی اور اخراجات کا توازن بری طرح تنزلی کا شکار ہے۔ وہی بنک جس نے شادی سے قبل وہ کردار ادا کیا جو آئی ایم ایف پاکستان کے مالی بحران میں ادا کرتا رہا ہے، اب ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار ادا کرتا ہوا ہم سے اپنے پیسوں کا تقاضہ کر رہا ہے اور ہم کونے کھدروں میں منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ ہمیں اس وقت صرف ایک ہی خیال آ رہا ہے کہ اگر ہم کفایت شعاری کو اپناتے ہوئے سادگی سےنصیب کھول ڈالتےاور اللے تللوں سے پرہیز کرتے تو نہ ہمیں بنک سے قرض لینا پڑتا اور نہ ہی آج ہم زبردست مالیاتی بحران کا شکار ہوتے۔ مالیاتی بحران کے اپنے مضمرات ہوتے ہیں۔ کمزور معیشت رکھنے والے دنیا میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ چاہے وہ دھوم دھام سے قرضہ لے کر نصیب کھلوانے والا بے چارہ دلہا ہو یا دھوم دھام سے قرضہ لے کر چلنے والا بے چارہ ملک۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad