چسکا ہمارا قومی مشغلہ بن چکا ہے


افواہ سازی اور دروغ گوئی ہر دور میں مقبول عام رہی ہے کبھی تفریح طبع کے لئے اور کبھی ہتک و تذلیل کے لئے۔ ہم تک جتنی داستانیں پہنچی ہیں ان سب میں بیان کرنے والوں نے سامعین کی طبیعت کے مطابق کم و کاست کیا ہے اور زیبائش کے لئے موقع کی مناسبت سے رنگوں کا انتخاب کیا ہے۔ آج کے زمانے میں داستان گوئی کی ہیت اور صورت بدل گئی ہےاب داستان سننے کے لئے پشاؤر کے قصہ خوانی بازار میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے گھر بیٹھے صرف ٹیلی ویژن کا ریموٹ کا بٹن دبانا ہے یا انٹر نیٹ پر جاکر اپنی پسند کی داستان پر کلک کرنا ہوتاہے مگرداستانوں میں اب بھی زیب داستان کے رنگ وہی ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں بھی افواہ سازی پرانی ہے۔ 1857 ء کی بغاوت بھی ایک ایسی افواہ کے بعد پھوٹ پڑی تھی جس میں ہندوؤں کو کہا گیا کہ فرنگیوں نے کارتوس میں گائے کی چربی کو استعمال کیاہے اور مسلمانوں سے کہا کہ اس میں سور کی چربی ہے جس کو منہ لگا کرکارتوس کا ڈھکن کھولنا پڑتا تھا۔ اس افواہ کے پیچھے صداقت کتنی تھی یہ کسی نے بھی نہیں دیکھا مگر دہلی اجڑ گیا۔ 1947 ء کے فسادات میں بھی ایسی ہی افواہوں کا ہاتھ تھا جس میں ایک جگہ کی خبر دوسری جگہ پر زیب داستان کے لئے بڑھا چڑھا کر سنائی گئی جس کی وجہ سے اشتعال اور بڑھ گیا اور تشدد میں اور زیادہ شدت آگئی۔ پھیلائی گئی خبروں کی صداقت کا معلوم ہوجانے تک لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن چکے تھے جن کے بارے میں سعادت حسین منٹو نے کہا تھا کہ ہندو کہتے ہیں اتنے ہندو مرگئے اور مسلمان کہتے ہیں اتنے مسلمان مرگئے مگر یہ کوئی نہیں کہتا کہ کتنے انسان مرگئے۔ انسان تو مرگئے لیکن افواہ کی صنعت زندہ رہی اور داستان میں وقت کے ساتھ رنگ بھرتا گیا اور آج بھی اس دور کے افواہوں پر نت نئی داستانیں، فلمیں اور ڈرامے پڑھنے، سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔

پاکستان میں ٹیلی ویژن کی ابتدا ایوب خان کے مارشل لاء میں ہوئی تو لوگوں نےتفریح اور اطلاعات کے اس بصری ذریعے کو بہت پسند گیا جو اب تک ریڈیو کے سمعی ذریعے پر انحصار کرتے تھے۔ ایوب خان نے بھی اس نئے ذریعہ ابلاغ کا خوب فائدہ اٹھایا اور اپنے دس سالہ دور حکومت کے کارنامے گنوانے اور لوگوں کو یہ باؤر کرانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا کہ وہ ہی نابغہ روزگار ہیں۔ اخبارات اور پریس پر بے جا پابندیاں لگاکرسرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن پروپگنڈہ جاری رہا۔ فلم کی طرح ٹیلی ویژن پر آنے والوں کی بھی شہرت عام ہوئی اور ایسے لوگوں کی باتوں پر لوگوں کو یقین ہونے لگا۔ ٹیلی ویژن پر آنے والے لوگوں کی شہرت کا حکومت اور دیگر مقتدر قوتوں نے بھر پور فائدہ بھی اٹھایا۔

اکیسویں صدی کو ابلاغ کی صدی بھی کہا جاتا ہے جس میں انسان نے زرائع ابلاغ میں بے پناہ ترقی کی ہے اور ابلاغی ترقی کا یہ سفر جاری ہے۔ اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور دیگر زرائع ابلاغ ایک موبائل فون میں سمٹ کر ہتھیلی میں آگئے ہیں اور انسان کے کواطلاعات کی فراہمی سے زیادہ اس میں انتخاب ایک مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستان بھی جدید ابلاغ کی اس دوڑمیں شامل ہے جس میں حکومت اور ریاست کی قدغن اور بندش کی خواہش اور کوشش کے باوجود عام آدمی کی اطلاعات تک رسائی روکی نہیں جا سکتی مگراطلاعات کے مصدقہ ہونے یا نہ ہونے، کسی بات کا افواہ ہونے یا سچی خبر ہونے کی تصدیق آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

اپنی مختصر تاریخ میں انتہائی محدود زرائع ابلاغ کے ساتھ رہنے کے بعد سن دو ہزار میں پرائیوٹ ٹیلی ویژن کے دن میں چوبیس گھنٹے اور ہفتے میں سات دن کے چینلز کے لئے شاید ملک تیار نہیں تھا۔ نہ حکومت ایسی آزادی اظہار رائے کے لئے تیار تھی اور نہ لوگوں کو ایسی آزادی کی عادت تھی۔ دوسری طرف ٹیلی ویژن کے سرکاری کنٹرول سے نکل کر ایک مسابقتی صنعت بننے کے لئے بھی حالات سازگار نہیں تھے۔ ملک میں ٹیلی ویژن کی صنعت کو چلانے کے لئے انسانی وسائل کی بھی شدید قلت تھی جہاں کیمرہ اٹھانے والوں سے لے کر سکرپٹ لکھنے اور پیش کرنے والے سب ناپید تھے۔

نئے کھلنے والے چینلز میں کام کرنے کے لئے ملک میں موجود کہنہ مشق صحافیوں کا ٹیلی ویژن میں کام کرنے کا پہلے سےتجربہ نہیں تھا اور جو لوگ شو بزنس اور کیمرے کا سامنے کرنے کا تجربہ رکھتے تھے وہ پیشہ ور صحافی نہیں تھے۔ ایسے میں کچھ اداروں نے جن کا صحافتی پس منظر تھا اپنے قلمکاروں کی خدمات کو بطور ٹیلی ویژن صحافی بدل دیا لیکن ایسے ادارے جن کا صحافتی دنیا سے کوئی تعلق نہیں تھا انھوں نے ایسے لوگ بھی رکھ لئے جو صحافتی علم میں کورے تھے لیکن تجارتی منافع کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھے۔ نئے کھلنے والے چینلز نے زور قلم کے بجائے شکل و صورت اور زبان اور لہجے کو ترجیح دی۔ قحط الرجال کے اس دور میں نظر انتخاب کچھ ایسے لوگوں پر بھی پڑی جو پیشہ ور صحافی تو نہیں تھے مگر کالج میں مباحثوں اور سیاسی تقاریر کا تجربہ رکھتے تھے۔ ایسےچرب زبان قسم کے لوگ اپنے زبان و بیان کے زور پر بہت جلد شہرت کی بلندیوں پر جگمگانے لگے مگر اتنی تیزی سے گہنا بھی گئے۔

وقت کے ساتھ ایک طرف نجی ٹیلی ویژن چینلز میں اشہارات کے لئے مقابلہ سخت ہوا اور ان سے نشرکیے جانے والے پروگراموں میں یکسانیت محسوس ہونے لگی تو نت نئے طریقے متعارف ہوئے۔ اب مقابلہ ریٹنگ کا ہوا تو پیشہ ور صحافیوں نے اپنی محنت سے اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کی کوشش کی لیکن جن لوگوں کا تعلق صحافت کے شعبے سے نہیں تھا انھوں نے اپنے پرگراموں میں سنسنی اور ہیجان خیزی کا سہارا لیا۔ ایک طرف مذہبی تعلیم اور معلومات کے پروگرام اب تفریح طبع کا ذریعہ بن گئے جن میں علمائے دین کی صورت بنائے لوگ اداکاری کرنے لگے تو دوسری طرف سٹیج کے اداکاروں نے جگت بازی اور تیسرے درجے کی کامیڈی کے ذریعے ٹیلی ویژن پر اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے مولانا اور مسخرے کا فرق مٹ گیا۔

حالات حاضرہ کے پروگرام پیش کرنے والے اینکرز کی تصویروں والے بل بورڈ شہر کی مصروف شاہراہوں پر آویزاں ہوئے اور ان کے اشتہار اخباروں کے صفحہ اول پر چھپنے لگے۔ اب ٹی وی چینلز پر حالات حاضرہ کے پروگرام پیش کرنے والے بھی فلمی ستاروں، کھلاڑیوں اور سیاستدانوں سے زیادہ پہچانے جانے لگے اور ان سے اٹو گراف لینا اور ان کے ساتھ سیلفیاں بنوانا ایک عام سی بات ہے۔ صحافیوں اور قلم کاروں کی نسبت خود کو اینکر کہلانے والے زیادہ متکبر ہوئے اور خود کو شیکرز اور موورز سمجھنے لگے۔ ایسے اینکر پرسنز یا یا میزبانوں کو لوگوں کو سامنے بٹھاکر یا ان کے پیٹھ پیچھے کردار کشی کے لئے کسی ثبوت یا شہادت کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ کوئی ان کے خلاف کہیں ہتک عزت کا دعویٰ کسی نے کر بھی لیا ہے تو کبھی کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ ایسے لوگوں نے ایوان صدر جیسے وفاق کی بنیاد سے لے کر کسی مخالف اینکر کی گھریلو زندگی پر کیچڑ اچھال کر بس نہیں کیا بلکہ اب ملک میں انتشار اور بغاوت کی افواہیں پھیلانے کی نئی رسم بھی شروع کر رکھی ہے۔

ایک ڈاکٹر شاہد مسعود کو جھوٹ بولنے اور عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کے جرم میں سزا دینے سے یہ سلسلہ رکنے والا نہیں کیونکہ جب تک ایسی خبروں کو پہنچانے یا بنانے اور ان پر یقین رکھنے والے موجود ہیں یہ دھندہ جاری رہے گا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے یہودی سازش ہونے سے لے کر کسی اسامہ بن لادین کے ایبٹ آباد میں غیر موجودگی تک ایسی لاتعداد خبروں پر اب بھی ایک کثیر تعداد یقین رکھتی ہے جن میں سے اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی ہے۔ جب تک ہم ایسی خبروں کا چسکا لیتے رہیں گے ڈاکٹر شاہد مسعود جیسوں کی ضرورت رہے گی کیونکہ کسی اور تفریح کی غیر موجودگی میں افواہوں اور سنسنی خیز خبروں کا چسکا ہی ہمارا قومی مشغلہ بن چکا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan