پیپلز پارٹی کو ہر قیمت پر زندہ رہنا ہو گا


میں 45 برس کا ہوں اور پچھلے دس سال سے زندگی کے تقریبا تمام معاملات میں مکمل طور پر غیرمقلد ہوں۔ خدا بھلا کرے میرے دو پیشہ وارانہ اساتذہ، وجیہہ عباسی اور چوہدری شکیل صاحب کا کہ جنہوں نے میں جوانی کے دو اہم ادوار میں مجھے ذہنی طور پر “تُنکے” لگائے رکھے اور میری مسلسل اصلاح کرتے رہے۔

وجیہہ عباسی صاحب کے ساتھ مجھے 1997 سے 1999 تک کام کرنے کا اتفاق ہوا، جبکہ شکیل چوہدری صاحب کے ساتھ میری ملازمت کے تقریبا آٹھ سال بسر ہوئے۔ مجھے ان دونوں احباب کی کہی ہوئی باتیں جن میں “تنقیدی شعور، غیرجذباتی تجزیہ، حقائق اور خیال میں فرق، رائے اور شواہد، واقعاتی حقیقتیں” ایسے الفاظ کی اکثریت ہوتی تھی، سمجھ میں نہیں آتی تھیں، تو لہذا میں عموما تھوڑی دیر کے بعد غیرسنجیدگی سے جُگتیں شروع کر دیتا تھا۔ وجیہہ عباسی صاحب تو ہر وقت ہنس دیتے تھے، جبکہ شکیل صاحب کبھی کبھار ہلکے سے غصے میں آ جاتے تھے، جو چائے کے اگلے کپ پر ختم ہو جایا کرتا تھا۔

 اگرچہ میری اوائل جوانی کے دونوں ووٹ (1993، 1997)، بی بی محترمہ شہید کی نذر رہے، مگر یہ رومان بہت جلد ختم ہو گیا، مگر یہ دونوں احباب ترقی پسند تھے، اور ہیں۔ وہ معاملات کو سٹریٹیجی اور پالیسی کے لیول پر دیکھتے تھے، جبکہ میرا فوکس Tactic پر زیادہ ہوتا تھا، اور اک گفتگو جس پر میں ہمیشہ بدظن ہو جایا اور غصے میں آیا کرتا تھا وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ان دونوں کی سیاسی رومانویت تھی۔ میں جو اس وقت پاکستانی ریاست کی کلاسیکی Human Conditioning کا شکار تھا بالکل سمجھ نہیں پاتا تھا کہ اک کرپٹ، چور، غدار، پاکستان توڑنے کی متمنی اور بھارت کے ہاتھوں بِکی ہوئی جماعت کو یہ سلجھے اور سمجھ بوجھ رکھنے والے احباب کیوں سپورٹ کرتے تھے۔

میرا خیال تھا کہ وجیہہ اور شکیل صاحبان، دونوں گمراہ ہیں اور پاکستان کو بگاڑنے کے اُس ٹولے میں شامل ہیں جو سارے کا سارا پیپلز پارٹی میں موجود ہے۔ پھر کچھ ایسی ہی بدگمانی نوازشریف صاحب اور ان کے رفقاء کے بارے میں ہو گئی، حتی کہ بہت سارے پیشہ وارانہ معاملات کے پیچ و خم درست کرتے ہوئے ذاتی طور پر ہمیشہ کے لیے یہ جان اور سمجھ لیا کہ سیاسی جماعتیں کیسے، کسی بھی مملکت کے جغرافیہ کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں اور الیکشنز کے ذریعہ عوام کے ووٹ کی امانت کی نگہبان ہوتی ہیں۔ یہ بھی جانا اور سمجھا کہ سیاسی جماعتیں اور معاشرے، دونوں اک دوجے کا عکس ہوتے ہیں، اور جمہوریت کے سفر میں اعتماد اور تسلسل رہے تو یہ دونوں اک دوسرے کی مسلسل اصلاح کا عمل بھی کیے رکھتے ہیں، جو بالآخر ریاست کے زیادہ تر امور کو بہتر سے مزید بہتری کی جانب لے کر جانے کا سبب بنتا ہے۔

یہ بھی حتمی طور پر سمجھ میں آگیا کہ جمہوریت اک زندہ روایت ہوتی ہے جو وقت، حالات اور معاشرتی بہاؤ سے متاثر بھی ہوتی ہے اور ان کو متاثر بھی کرتی رہتی ہے، جبکہ آمریت ماسوائے اک بدبودار لاش کے اور کچھ نہیں۔ یہ کراہت اور رینگتے ہوئے کیڑوں کے علاوہ اپنے آس پاس والوں کو اور کچھ نہیں دکھا پاتی، بھلے اس پر “پلیتھن” (میک اپ) جتنا مرضی ہے تھوپ ڈالا جائے۔ آپ بھلے نوے دن میں الیکشن کروانے کا وعدہ کر کے آئیں، یا اپنی بغلوں میں کتے داب کر آئیں، ریاست اور معاشرہ بہت جلد اس بدبودار لاش کے تلے سسک سسک کر رینگنا شروع کر دیتا ہے تو کبھی بھٹو پھندے پر جھولتا ہے تو کبھی بگٹی قتل کیا جاتا ہے۔ بدبودار لاشیں جب معاشرے کے منہ سے اٹھ جاتی ہیں تو بھی معاشرہ اک بہت لمبا عرصہ اس بدبو میں مسلسل سانس لینے پر مجبور رہتا ہے۔

ایسی لاشوں پر پیپلز پارٹی کا سیاسی و جمہوری سفر بہت شاندار روایات سے سجا ہوا ہے جس پر بالآخر بی بی شہید کے خون کے چھینٹے پڑے اور پارٹی کے پاس، میرے نزدیک، اس وقت اک بہت عمدہ موقع تھا کہ اس کو اک ادارہ جاتی شکل دی جاتی، اور سب سے “بھاری” صاحب، خود اسی جماعت پر ہی بھاری نہ ہو جاتے۔ بہت لطف تب بھی آتا تھا، اور اب بھی آتا ہے جب بھاری صاحب کو سیاسی شیکسپئیر بنایا اور کہا جاتا ہے اور نہیں معلوم پر ان پر خود پارٹی کی صفوں میں تنقید کرنے والے کتنے ہیں کہ چوٹی پر بیٹھے ہمارے سیاستدانوں کا مزاج میں تنقید دوستی ہوتی ہی نہیں، حتیٰ کہ جدہ جانا پڑتا ہے، یا پنجاب، جو کبھی پی پی کا گڑھ تھا، وہاں سے مکمل صفایا ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں نظریاتی سیاست کی موت واقع ہو چکی تھی جس کو میاں نواز شریف صاحب نے دائیں بازو کے اک سرمایہ دارانہ فلسفہ کے ساتھ کچھ مزاحمتی بنیادوں پر استوار کیا۔ گو کہ شروعات ادارہ جاتی بالکل نہیں تھی، اور اپنی ذات کی توہین کے ساتھ بندھی ہوئی تھی، مگر اس میں وقت گزرنے کے ساتھ بہرحال بہتری آتی چلی گئی۔

پیپلزپارٹی پر ہزار تنقید بجا ہو گی، مگر اس جماعت نے پاکستان میں عمدہ سیاسی روایتوں کی عموما پاسداری کی، گو کہ ماجرا اب کچھ زیادہ دگرگوں دکھائی دے رہا تھا تو بلاول بھٹو کو جلسوں میں چیخنے و چلانے کے علاوہ ڈیووس میں سننے کا اتفاق ہوا تو اک دم سے ذہن و جسم میں اس شدید نقصان کا تازیانہ لگا جو پاکستان سے “عقلمند لوگوں” نے گہرائی والی گفتگو ختم کر کے معاشرے پر مسلسل برسایا۔ سیاستدان جو معاشرے، ملک اور ریاست کے وارث ہوتے ہیں، ان کو اپنے پالے ہوئے لاڈلوں کے ذریعہ سے مسلسل بدنام کیا اور Human Conditioning کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کے سیاسی اثاثوں کو روندے رکھا۔

بحیثیت اک پاکستانی شہری، میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی جذباتی تعلق نہیں، ووٹ مگر میں ضرور دیتا ہوں۔ خلاصہ کلام بیان کرتا چلوں کہ بلاول بھٹو کو سننے کے بعد اس بات کا احساس ہوا کہ پیپلز پارٹی کو اپنی گہرائی کی جانب لوٹنا پڑے گا۔ اس جماعت کو اک نئے اور زیادہ Contemporary پیغام کے ساتھ لوگوں میں نکلنا پڑے گا۔ پی پی کو پنجاب ہی نہیں، پاکستان کے تمام صوبوں میں نئی حکمت عملی اور قابلیت رکھنے والے پروفیشنلز کے ساتھ ساتھ ہمت رکھنے والے نظریاتی کارکنان اور رہنماؤں کے ساتھ اپنے پاؤں جمانا پڑیں گے۔ پیپلز پارٹی کو صرف سندھ ہی نہیں، سارے پاکستان پر اپنی ملکیت ثابت کرنا پڑے گی، اور یہ کام سطحیت کی سیاست سے نہیں ہو گا۔

سیٹھ میڈیا کے آزاد پروپیگنڈے کا شکار اک انقلابی جماعت کے علاوہ تمام قومی و علاقائی سیاسی جماعتیں بنتی رہتی ہیں، اس منفی پروپیگنڈے کے خلاف پاکستان کے سیاسی وارثوں کو اپنا بیانیہ بہتر بنانا پڑے گا جو پاکستانی شہریوں کی آنکھوں میں خوابوں کے قریب تر ہو۔ پاکستان پیپلز پارٹی شہری و سیاسی حقوق کی گفتگو کو پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ مل کر، بھلے اک سیاسی اختلاف کے تعلق میں ہی سہی، شہریوں کے سامنے رکھ سکتی ہے۔ لاڈلے بھلے گالیاں فرماتے اور بہتان کے تحائف پیش کرتے رہیں، سیاستدانوں کو پاکستانی شہریوں کا اک جدید و جمہوری بیانیہ بنانا پڑے گا، اور یہ کام نظریہ اور حکمت کے بغیر ممکن نہ ہوگا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کو لوگوں سے جڑنا پڑے گا۔ 2018 کا الیکشن نہ سہی، 2023 کا نہ سہی، 2028 کا ہی سہی۔ زندگی جب تک ہوتی ہے، تب تک ہوتی ہے، اور یہ سفر لمبا ہے۔ پاکستانی سیاست میں نظریہ زندہ رکھنا پڑے گا اور اس کے لیے، پاکستان پیپلز پارٹی کو ہر قیمت پر زندہ رہنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).