تقسیم کی تفہیم اور علی اکبر ناطق


خدا لمبی حیاتی دے ڈاکٹر تنظیم الفردوس کو، داستان گوئی کی کلاس میں دنیا کی اولین اور مختصر ترین کہانی سنائی تو اردو ناول کے بارے میں بصیرت افروز خیالات کا اظہار بھی فرمایا اور کہا کہ ! میاں ناول لکھنے کے لئے سانس برقرار رکھنا پڑتی ہے اور کرداروں کی بنت زمانی ترتیب سے جڑی ہوتی ہے ۔ الغرض ان کے اسی فقرے کو ذہن میں نقش کیا اور مطالعے کا سفر اردو ادب سے ہوتا ہوا مغربی دریچوں میں پہنچا تو کا ڈویل کی جرات پسندی اور ایلیٹ کی انفرادی صلاحیت سے واسطہ پڑا لیکن اردو ادب میں جو اثرات تقسیم کے سانحے نے مرتب کیے، ان کا اظہار آج تک یا تو سرحد کے اس طرف کے نظریے کے تحت ہوا یا اپنی مقامی صف کے تحت، البتہ حالیہ دنوں میں تقسیم کا ایک نیا زاویہ دیکھنے کو ملا جس نے کئی بند گوشوں پر دستک دی اور

 لا تعداد سوالیہ در وا ہوئے۔

جاگیر دارانہ نظام کے تحت اگر لوگوں کے حقوق سلب ہوئے تو تقسیم کے وقت ہونے والی لوٹ مار نے کئی حقداروں کوسفید پوشی کی چادر سے بھی محروم کر دیا لیکن یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ علی اکبر ناطق نے اپنے اولین (آخر ترین ہرگز نہیں) ناول میں جو Localeبنانے کی کوشش کی ہے (عہدہ برا کتنا ہو ئے ہیں یہ تو نظریاتی نقاد ہی بتائیں گے)۔ وہ پنجاب کی سرزمین سے کتنا قریب ہے، مولوی کرامت ہو یا ولیم، ان تمام کا سر چشمہ نو آبادیاتی دور کی یادگار ہے ۔ یہ تمام ہی کردار نو آبادیاتی دور کی غلامی و محرومی کی فضا میں سانس لیتے نظر آتے ہیں۔

اردو ادب میں گرچہ تقسیم کو برتنے کا جو معیاری انداز کارفرما تھا، اسے بام عروج پر پہنچانے میں کئی لکھاریوں نے اہم کردار ادا کیا لیکن علی اکبر ناطق کا مرکزی کردار انگریز تقسیم کو اپنی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور بقول D.H Lawrence ناول کیونکہ پورے انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا بیان ہوتا ہے لہذ ااس انگریز کا ہر پہلو قابل دید ہے بلکہ ناول کے آخر میں تو اس کی افسردگی اور موت کا منظر رابرٹ فراسٹ کی تخلیق کردہ کسی نظم کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

علی اکبر ناطق نے تقسیم کو نہ ہی ہندو سمجھا نہ ہی مسلمان بلکہ پنجاب کے چٹیل میدانوں سے لے کر سرکاری دفاتر تک انسانی رویوں کا گویا ایک انسائیکلوپیڈیا مرتب کیا ہے جس کا سرغنہ ایک انگریز ہے گرچہ اس میں

 تاریخی تسلسل تو موجود ہے لیکن مسلم لیگ کی سیاست کا جو نمونہ دکھایا گیا وہ قابل گرفت ہے۔

عہد حاضر میں جو ناول لکھے جا رہے ہیں،ان پر مغربی اثرات نمایاں نظر آ تے ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ

اردو ناول بلکہ اردو فکشن کو پروان چڑھانے میں مغربی ادب کا خا صا کردار نظر آ تا ہے مگر علی اکبر نا طق نے جہاں مغربی دریچوں میں جھانکا ہے وہیں مقامی صنف کو بھی نطر انداز نہیں کیا اور کہیں کہیں ان کی منظر کشی اردو مراثی کا سا ماحول بناتی ہے کیونکہ خود علی اکبر نا طق کا خمیر بھی پنجاب کی مردم خیز زمین سے اٹھا ہے ۔

درج بالا تمام گزارشات کا مقدمہ صرف یہ تھا کہ تقسیم برصیغر ایک ایسا سانحہ یا حادثہ تھا جس کے اثرات پورے خطے کے عوام تادم قیامت محسوس کرتے رہیں گےاور اب تو تقسیم کے وقت پیدا ہونے والی نسلیں بھی چیزوں کو دیکھنے کا وہ زاویہ بھولتی جا رہی ہیں جو ان کے آبا و اجداد کے پاس تھا پھر بھی اس وقت کی ما بعد الطبعیات کو جھٹلانا ممکن نہیں لیکن اگر تقسیم کا ایک انوکھا نقطہ نظر میسر آئے تو اسے پڑھے اور سراہے جانے کی اشد ضرورت ہے کہ یہی حالات حاضرہ کا بھی تقاضا ہے اور ہم سب کا دعویٰ بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).