انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے فکری جنگ کون لڑے؟ 


\"anwar”انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے فکری ضرب عضب ناگزیر ہے۔ “ یہ الفاظ وفاقی وزریر اطلاعات پرویز رشید کے ہیں جو انہوں نے گلشن اقبال پارک لاہور میں حملے کے بعد کہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ فکری جنگ کون لڑے؟ سیاستدان یا فوج؟ سول اسٹیبلشمنٹ یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ؟ تاجر یا میڈیا؟ ایک ایک طبقے پر نظر دوڑا کر جائزہ لیں۔ قارئین! اگر انقلاب کی وجوہات پر غور کیا جائے تو تاریخِ انسانی بتاتی ہے دنیا میں انقلابات ہمیشہ دو وجہ سے آئے۔ ایک مذہب کے نام پر۔ دوسرا بھوک و افلاس اور طبقاتی تفریق کے سبب۔ ہر اہم انقلاب کے پیچھے ان دو میں سے کوئی نہ کوئی سبب ضرور نظر آتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں دونوں وجہیں اپنے عروج پر ہیں۔ سرِدست ہم فکری دہشت گردی پر بات کرتے ہیں۔

16 دسمبر 2015ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر بزدلانہ دہشت گرد حملوں کے بعد جو متفقہ طور پر نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا، اگر اس پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہوجاتا تو آج ہمیں یہ سیاہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات کا اگر طائرانہ جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے ان میں سے اکثر پر کسی نہ کسی صورت میں عمل کیا جا رہا ہے، لیکن بعض شقوں پر ذرہ بھر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ سیاستدان ہیں۔ ہر پارٹی اپنوں کو بچانا اور دوسروں کو پھنسانا چاہتی ہے۔ اختیارات کی کھینچا تانی ہے۔ ذاتی مفاد ات کو ملکی مفاد پر ترجیح دی جارہی ہے۔ دوسری بڑی وجہ علما اور اسٹیبلشمنٹ میں قدرے دوریاں ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے کے بعد عوام میں اثر و رسوخ رکھنے والے علما کے ذریعے عوام کی ذہن سازی کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ مائنڈ سیٹ بدلنے کا اہم کام نہیں کیا گیا۔ عسکری تنظیموں سے وابستہ ہزاروں کارکنوں اور لاکھوں ہمدردوں کے برین واش کا مشکل ترین فریضہ علما ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔

دیکھیں! 1970ءکے بعد جب سوویت یونین کی شکست و ریخت کا فیصلہ کیا گیا تو دنیا بھر خصوصاً عرب ممالک کی مسلم تنظیموں سے خفیہ اور علانیہ رابطہ علما کے ذریعے ہی کیا گیا۔ حکومت نے علما سے کہا کہ وہ جہاد کی فضیلت اور اہمیت کو اجاگر کریں محراب و منبر نے جہادی فضا بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ ائمہ مساجد جمعے کے خطبوں میں اس موضوع پر تقریریں کرنے لگے۔ آخرکار سوویت یونین کو شکست ہوئی۔ سانحہ پشاور کے بعد شروع کی گئی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی مہم میں بھی ایک اہم ترین بات کو فراموش کیا جارہا ہے، وہ ہے بزرگانِ دین، مشایخ عظام، ائمہ مساجد، علمائے کرام اور روحانی مراکز کا کردار۔ عوام میں علما، مشائخ اور روحانی بزرگوں کا گہرا اثر و رسوخ تھا اور ہے۔ میڈیا کے ذریعے تو دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے، لیکن محراب و منبر اور علما کے کردار کو بالکل فراموش کر دیا گیا ہے، حالانکہ جتنی ذہن سازی علما کر سکتے ہیں اتنی کوئی اور نہیں کر سکتا، چنانچہ حکومت کے کرنے کا ایک بڑا اور اہم کام یہ ہے کہ ملک بھر کے چند علمائے کرام اور ائمہ مساجد کے ذریعے ان کی ذہن سازی کروائیں۔

پاکستان کی 95 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہر مسلمان ہفتے میں ایک دو بار لازمی مسجد جاتا ہے، کم از کم جمعے کی نماز کے لئے تو مسجد جاتا ہی ہے۔ اگر حکومت ملک بھر کے جید علما اور عوام میں مضبوط جڑیں رکھنے والے علما و مشائخ کو جمع کرے، ان کے سامنے حالات رکھے، ان سے راہنمائی طلب کرے، ان سے تجاویز مانگے اور عوام کی ذہن سازی کا کام ان کے ذمے کردے تو جلد ہی حالات میں بہتری آ سکتی گے۔

انفرادی طور پر تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے علما  پاکستان میں مسلح جدوجہد کو حرام قرار دے چکے ہیں۔ ایک قدم آگے بڑھ کر حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو چاہئے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے اور قیامِ امن میں علمائے کرام، مشائخ عظام اور روحانی مراکز سے مدد لیں۔ یہ محبِ دین اور محبِ وطن علما حکومت کا بھرپور ساتھ بھی دیں گے اوردہشت گردی کے خلاف فکری اور نظریاتی جنگ بھی لڑیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو جامع میکنزم وضع کیا گیا ہے اس میں جید علمائ، اتحاد تنظیمات مدارس کے سربراہوں خصوصاً وفاق المدارس کو شامل کرے، تاکہ دہشت گردی کے خلاف فکری اور نظریاتی جنگ لڑنے کا مشکل فریضہ باآسانی سر انجام دے سکیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ ریاست تو ”ماں“ ہوتی ہے اور ماں اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو بھی کھلے دل سے معاف کردیتی ہے، بے جا ضد نہیں کرتی۔ اس پس منظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو عام معافی کا اعلان بھی کرنا چاہئے کہ ان باغیوں، دہشت گردوں، فراریوں اور کالعدم قرار دی گئی تنظیموں میں سے جو بھی براہِ راست کسی کی جان لینے میں ملوث نہ ہو اور توبہ تائب ہوجائے، ہتھیار پھینک دے، حکومتی رٹ کے سامنے سرنگوں ہوجائے، اپنے سابقہ جرائم پر نادم ہوجائے، اسے امن ہے۔ ماضی کے ساتھ چمٹے رہنا، اسے یاد کرنا اور انتقام انتقام کے نعرے لگانے سے کبھی ملک وقوم ترقی نہیں کرتے۔ اس کی مثالیں تاریخ سے بھی ملتی ہیں۔ آغازِ اسلام میں کفار مکہ اور مشرکین نے آقائے دوجہاں ﷺاور ان کے ساتھیوں کو بے پناہ تکلیفیں دیں۔ انہیں ملک بدر کیا۔ شعب ابی طالب میں محصور کر دیا۔ غزوہ بدر سے احد تک اور معرکہ خیبر سے خندق تک بیسیوں جنگیں لڑی گئیں۔ 13 سال بعد جب آپﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو غلبہ ملا تو ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل نہیں ہوئے، بلکہ ان کے سر تشکر سے جھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے بدلہ نہیں لیا، بلکہ معاف کردیا۔ کہا گیا جو شخص ہتھیار پھینک دے، ابوسفیان کے گھر پناہ لے یا پھر اپنے ہی گھر میں پرامن رہے، ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کچھ ہی عرصے کے بعد سب بھائی بھائی بن گئے۔ دشمنی دوستی میں بدل گئی۔ سچائی کا پیغام جزیرة العرب سے نکل کر اس وقت کی سپر طاقتوں فارس اور روم تک پہنچنے لگا۔ مدینہ کی ریاست وجود میں آئی۔ معیشت وتجارت ترقی کرنے لگی۔ غریبوں اور محروموں کے غم دکھ دور ہونے لگے۔ عدل وانصاف کا بول بالا ہوا۔ فتح مکہ کے وقت آپﷺ نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جو بھی ہتھیار پھینک دے، اس کو امان ہے۔ جو پرامن رہے اسے کچھ نہ کہا جائے۔ جو چھپ جائے اسے بھی امان ہے۔ قرآن میں جو جہاد کا حکم ہے وہ آخری آپشن کے طورپر ہے۔ جہاد مقصود بالذات نہیں ہے، بلکہ یہ رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لئے ہے۔ یہی وجہ ہے آپﷺ نے 12 سالہ مدت میں سو سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں۔ ان میں مارے جانے والے افراد کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔

قومی ایکشن پلان کے تحت پکڑ دھکڑ، گرفتاریوں اور چھاپوں کا سلسلہ عروج پر ہے تو اپنے ماضی پر شرمندہ، نادم اور توبہ تائب ہونے والے بھی پریشان ہیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پرامن رہنے والوں کو نہ چھیڑا جائے۔ انہیں جعلی مقابلوں میں نہ مارا جائے۔ دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ توبہ کرنے والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ توبہ کرنے کے بعد صرف سابقہ ریکارڈ کی بنا پر گرفتار نہیں کیا جاتا۔ یہ بھی سیکھنے کی چیز ہے کہ دیگر ممالک نے دہشت گردی پر کس طرح اور کن کن طریقوں سے قابو پایا ہے؟ یہاں پر صرف ایک مثال دیتا ہوں۔ نائن الیون کے واقعے میں نامزد تقریباً تمام افراد ہی عرب تھے۔ غالب گمان یہی تھا اس سے ایک عرب ملک کے خاموش معاشرے میں بھونچال آجائے گا، لیکن کیا مجال کہ وہاں دہشت گردی کی کوئی بڑی کارروائی ہوئی ہو۔ اکا دکا جو کارروائی ہوئی اس میں ملوث افراد گرفتار ہوئے۔ دہشت گردی میں ملوث افراد کو 4 مختلف کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں سے بعض انجام تک پہنچے۔ کئی توبہ تائب ہوکر اچھے شہری بن گئے۔ کچھ جلاوطن ہوگئے اور کچھ سے معاہدے ہوگئے۔ اس حسنِ تدبیر کے نتیجے میں یہ عرب ملک ایک بڑی آزمائش سے بچ گیا اور اس وقت امن کا گہوارہ بنا ہوا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ دہشت گردی کو مذہب اور کسی خاص طبقے خصوصاً مدارس کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ گلشن اقبال پارک میں تفریح کی غرض سے آنے والے مدرسے کے قاری یوسف شہید کو جس طرح خودکش حملہ آور ثابت کرنے کی مذموم اور بھونڈی کوشش کی گئی اس نے مدارس، علما، طلبہ اور دینی طبقے کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ اس طرح کے اذیت ناک اور نا انصافی پر مبنی واقعات فکری انتہا پسندی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments