پاکستان کے بارے میں ٹرمپ کا نیا بیانیہ اور چین


معروف ادیبہ دت بھارتی نے تو اپنے افسانوں کے انتساب کے لئے یہ جملہ چنا تھا کہ کانتا کے نام جو بارہا مری لیکن زندہ ہے۔ لیکن پاکستان امریکہ تعلقات پر بھی کانتا کے یہ حالات بالکل صادق آتے ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات میں دراڑیں بار بار پڑیں لیکن بہرحال دونوں ممالک کی ضروریات کے سبب سے یہ ابھی بھی قائم ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات اور تقاریر نے پاکستان اور امریکہ میں یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات صفر کی سطح تک آ چکے ہیں اور پاکستان مکمل طور پر چین کے کیمپ میں داخل ہو چکا ہے۔ حالانکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کسی کا کسی کیمپ میں چلے جانا ممکن ہی نہیں رہا۔ کیونکہ ہر کیمپ کے دوسرے سے مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ موجودہ صورتحال اور تلخی جو دونوں طرف پائی جاتی ہے پاکستان کے لئے کوئی نئی نہیں ہے۔

پاکستان اس حوالے سے رد عمل دینے میں بہت تجربہ رکھتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کوئی نئی زبان نہیں بول رہے ہیں۔ جب سابق صدر اوباما اپنے عرصہ صدارت میں پہلی بار افغانستان وارد ہوئے تو انہوں نے اپنی تقریر میں پاکستان کا ذکر کیا اور وہ تمام الزامات عائد کیے جو اب ٹرمپ عائد کر رہے ہیں۔ پھر 2011؁ء تو سخت ابہامات کا سال گزرا۔ اس میں ایبٹ آباد آپریشن کا واقع ہوا جس کے متعلق باراک اوباما خود کہہ چکے ہیں کہ اسامہ کے ٹھکانے کا علم پاکستان کو نہیں تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کا واقع ہوا جس نے پاکستان میں نچلی سطح پر بھی بڑھتی ہوئی سی آئی اے کی سرگرمیوں کو پاکستان میں زبان زد عام کر دیا۔ امریکہ کی جانب سے کیری لوگر بل کا تماشہ کیا گیا کہ جس سے پاکستان کو بھارتی سرٹیفکیٹ درکار ہونا تھا۔ پاکستان نے اس بدتہذیبی کو ایک لمحے کے واسطے بھی برداشت نہ کرنے کا واضح موقف اپنایا۔ سلالہ چیک پوسٹ کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا اور پاکستان نے جوابی رد عمل میں سپلائی بند کر دی۔

ان تمام گزشتہ دور صدارت کے واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ میں ایک طویل عرصے سے اسی نوعیت کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ اب ٹرمپ امریکہ کا کوئی نیا بیانیہ بیان نہیں کر رہے ہیں۔ اس لئے یہ بھی واضح ہے کہ ان تمام اختلافات کی باوجود امریکہ پاکستان سے تعلقات کو صفر کی سطح تک لے کر نہیں آیا۔ اور نہ ہی پاکستان نے تمام دروازے مقفل کر ڈالے۔ اسی طرح جب ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات اور ٹویٹس کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے ابھی کچھ ایام قبل اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی بریفنگ کے دوران کیے گئے سوال پر کہ کیا پاکستان چین کے کیمپ میں امریکہ کو ترک کر کے شامل ہو گیا ہے۔ پر ترجمان کا جواب بہت اہمیت رکھتا ہے کہ امریکہ اور چین پاکستان کے لئے مختلف حوالوں سے اہمیت کے حامل ہیں۔ امریکہ از خود اپنی کمپنیوں کو یہ ہدایات نہیں دے سکتا کہ وہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے۔ جبکہ چین ایسا کر سکتا ہے اور پاکستان میں ایسا کر رہا ہے۔ جو پاکستان کی معیشت کے لئے بہت اہم ہے۔ لیکن امریکہ جتنے جدید ہتھیار فراہم کر سکتا ہے وہ چین نہیں کر سکتا۔

اس جواب میں یہ واضح ہے کہ امریکہ اپنی اس حیثیت کو تمام تلخیوں کے باوجود پاکستان میں برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت پاکستان میں بالکل اظہر من الشمس ہے کہ چین پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ جبکہ امریکہ کی طرف سے ٹھینگا ہے۔ لامحالہ پاکستان کا جھکاؤ چین کی طرف ہی ہو گا۔ پھر پاکستان، روس اور چین بجا طور پر امریکہ کی افغان پالیسی کو شکوک شبہات سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک مضبوط تصور یہ پایا جاتا ہے کہ افغان طالبان کے مقابلے میں پوری دنیا سے داعش کو افغانستان میں لا بسایا جا رہا ہے۔ ایسی حکمت عملی کے خونریز اثرات لامحالہ پورے خطے اور بالخصوص پاکستان اور چین پر بھی پڑیں گے۔ لیکن چین کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ چین South China Sea سے لے کر کوریا تک تنازعات کے ساتھ زندہ ہے۔ وہ پاکستان میں جاری سرمایہ کاری کو ایک ایسے محاذ کے طور پر قطعاً پیش نہیں کرنا چاہتا جو امریکہ یا اس کے اتحادی کے خلاف محسوس ہو۔ کیونکہ پاکستان اس وقت چین کی اقتصادی کامیابیوں کے لئے اینکر پرسن بنا ہوا ہے۔ اور چین اپنے ساتھ اس تعلق کو کسی دوسرے کے نزدیک متنازعہ بنانا نہیں چاہے گا۔

اسی لئے چین کے انگریزی میں سب سے زیادہ کثیر الاشاعت روزنامے گلوبل ٹائمز نے اپنی اشاعت میں چینی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ چین نئی دہلی کو یقین دلائے کہ اس کے پاکستان سے معاملات بھارت کے خلاف نہیں ہیں۔ پاکستان میں بھی فیصلہ ساز ان حقیقتوں کو سمجھتے ہیں۔ جب نواز شریف جلا وطنی کے بعد پاکستان واپس تشریف لائے تو چین کے سفارتکاروں نے میرے ذریعے ان سے رابطہ قائم کیا اور چین کے دورے کی دعوت دی۔ نوازشریف نے چین کا دورہ کیا اور اس وقت کے نائب صدر جو اب چین کے صدر ہیں سے ملاقات کی۔ اس سے پاکستان کی موجودہ قیادت کے لئے چین کی موجودہ قیادت اجنبی نہیں تھی نہ ہے۔ رابطے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ تو نئے ہیں لیکن ان کی پارٹی یا کابینہ کے اراکین پاکستان کے لئے نئے نہیں ہیں۔ خیال یہ ہے کہ پاکستان کسی کیمپ میں جانے کی بجائے امریکہ سے نہ یاری ہے نہ دوری ہے والا رویہ اپنائے گا کیونکہ پاکستان کے مفادات اسی میں پنہاں ہیں۔ اور چین بھی اس حقیقت کو سمجھتا ہے۔

ویسے بھی حالیہ آسیان کانفرنس جو بھارت میں منعقد ہوئی اور بھارت کے یوم جمہوریہ پر پہلی بار ان تمام آسیان ممالک کے رہنماء بطور مہمانان خصوصی شریک ہوئے۔ چین کے لئے ایک اہم سٹریٹیجک چیلنج کے طور پرسامنے آ چکا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ چین کے ساؤتھ چائنہ سی میں شدید تنازعات ہیں اور یہ ممالک آسیان کے رکن ہیں۔ ان سمندری تنازعات کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو آسیان کانفرنس کا بھارت میں انعقاد مزید اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ اس آسیان کانفرنس کا Theme تو Shared values/ Common Destiny تھا لیکن موضوع بحث کا انتخاب Maritime Security and Cooperation تھا۔ موضوع کو دیکھتے ہوئے ہی اس امر کی واضح طور پر وضاحت ہو جاتی ہے کہ آسیان ممالک بھارت کے ساتھ مل کر ان سمندری حدود میں طاقت کا توازن قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اور پلڑا صرف چین ہی کی طرف جھکا نہیں رہنے دینا چاہتے۔ حالانکہ چین ان سمندری تنازعات کے باوجود آسیان ممالک سے تجارتی تعلقات قائم کرنے میں سرگرم عمل ہے۔

بہرحال آسیان کانفرنس کا بھارت میں انعقاد آسیان ممالک کی حکمت عملی کو واضح کرتا ہے۔ انڈیا پہلے ہی انڈو پیسفک میں امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر ایک سمندری اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور یہ چاروں ممالک گفتگو کے متعدد دور کر چکے ہیں۔ انڈیا نے 2014؁ء سے قبل Look east Policy تیار کی تھی مگر 2014؁ء میں انڈیا نے اس کا درجہ بڑھا کر Act East Policy اختیار کر لی۔ گزشتہ تین سالوں میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سابق بھارتی صدر پرناب مکھرجی سابقہ بھارتی نائب صدر حامد انصاری نے آسیان کے تمام 10 ممالک کے دورے کیے۔ جبکہ اس دوران بھارتی نیوی کے جہاز انڈونیشیاء، ملائیشیاء، فلپائن، تھائی لینڈ، ویت نام، سنگا پور، کمبوڈیا، اور برونائی کی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہوئے۔ یہ تمام سرگرمیاں بھارت کی انتہائی دلچسپی کو ثابت کرتی ہیں۔ پھر بھارت پانچ سال سے اس بلاک کا اسٹریٹجک پارٹنر بھی بن چکا ہے۔

آسیان ممالک سے بھارت کو زبردست کاروباری مفادات حاصل کرنے کا بھی موقع ہے اور بھارت ان مواقع کو حاصل کرنے کے لئے ہی اقدامات کر رہا ہے۔ آسیان ممالک کی شرح ترقی بہت بہتر ہے۔ 600 ملین افراد کی بہت بڑی منڈی ہے۔ بھارتی کاروباری افراد گزشتہ 20 برسوں میں 70 ارب ڈالر کے انتہائی خطیر رقم ان ممالک میں کاروبار میں لگا چکے ہیں اور بھارت نے 2022؁ء تک اپنی سالانہ تجارت 200 ارب ڈالر تک آسیان کے ساتھ لیجانے کی حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔ بھارت کے علاقائی کردار سے بڑھ کر ایک توازن پیدا کرنے والی طاقت بننے کی خواہش چین میں گلوبل ٹائمز کے مشورے اور امریکہ کا جارحانہ رویہ۔ پاکستان کو بہت محتاط ہو کر اپنے پتے کھیلنے چاہیں کیونکہ سارے انڈے ایک ٹوکری میں رکھنے سے نقصان کا احتمال بڑھ سکتا ہے۔ چین اور امریکہ دونوں سے مفادات حاصل کرنے کی حکمت عملی ہی کامیابی کی کنجی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).