شریک حیات


\"nasreenایک خوش و خرم متوسط طبقے کا گھرانہ، ماں باپ اور ایک بیٹا جو ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ صاحب خانہ کسی پرائیویٹ فرم میں ملازم تھے، کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ مزے سے زندگی گزر رہی تھی۔ اچانک ایک دن صاحب خانہ ہارٹ اٹیک سے چل بسے۔ مہینے کے آخری دن تھے تنخواہ بھی نہیں ملی تھی۔

سوئم والے دن مالک مکان فلیٹ خالی کرانے آگئے۔ بیوہ ہکا بکا، کہاں جائیں۔ سسرالی رشتہ داروں نے مہر بانی کی اور اپنے ساتھ لے گئے۔ پرائیویٹ ملازمت، تنخوہ بند، پنشن کوئی نہیں، خاتون خانہ کو کچھ علم نہ تھا کہ بنک اکاونٹ کس بنک میں ہے، اکاونٹ نمبر کیا ہے، اس میں کوئی بچت ہے یا نہیں، کہیں کوئی سرمایہ کاری کی ہے یا نہیں۔ شوہر نے کبھی ان معاملات میں بیوی کو شریک کیا ہی نہ تھا۔ چند لمحوں میں سب تبدیل ہوگیا۔ اب وہ اور بیٹا بغیر کسی معاشی سہارے کے سسرال والوں کی ذمہ داری بن گئے ہیں۔

دو دوست جو بزنس پارٹنر بھی تھے۔ ایک دوست نے اپنا نیا مکان بنایا، سب دوستوں کو کھانے پر بلایا، ان کا مکان دیکھ کر دوسرے کو بھی ہوا کہ وہ بھی اب بہتر مکان میں شفٹ ہوجائے، بولا \”میں سب کو سرپرائز دوں گا، ایسا مکان بناوں گا سب حیران رہ جائیں گے دیکھ کر\”۔ اس نےکہیں ہزار گز کا پلاٹ لیا، مشترکہ کاروبار میں سے رقم لے لے کر مکان بناتا رہا، جگہ کسی کو بھی نہ بتائی، نا دوست کو، نہ گھروالوں کو، دوسرے دوست کو بس یہ پتا تھا کہ بہت شاندار سا مکان بن رہا ہے کہیں۔ گھر والوں کو یہ بھی نہ پتا تھا، ان کو سرپرائز جو دینا تھا۔

مکان تکمیل کے آخری مراحل میں تھا کہ اچانک اوپر سے بلاوہ آگیا۔ اور بندہ مٹی میں مٹی، اور گھر والوں کی مٹی جیتے جی خراب کر گیا۔ خاندان میں بیوی بچوں، بہن بھائی، ماں باپ کسی کو اس مکان کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ نہ ہی کوئی کاغذات گھر سے برامد ہوئے۔ دوست نے گھر والوں سے ذکر کیا تو سب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ کیوں کہ کاروبار سے رقم نکال نکال کر مکان میں لگاتا رہا تھا تو کاروبار میں اب اسکا شئیر اتنا کم رہ گیا کہ اس پر جو منافع مل رہا ہے وہ دال روٹی کو بھی مشکل سے پورا ہوتا ہے، گھر والے ابھی تک سرپرائزڈ ہیں۔

ایک اور تعلیم یافتہ اور خوشحال خاندان، تین بچے جو سب کالج لیول پر تعلیم میں مصروف۔ تمام بچت صاحب خانہ کے اکاونٹ میں اور انکے نام پر سیونگ سرٹیفیکٹس کی صورت محفوظ جس کے منافع سے اچھی گزر اوقات ہوتی تھی۔ ایک دن انہیں فالج ہوگیا، پر جتنی سانسیں اللہ تعالیٰ نے لکھیں تھیں وہ تو پوری ہونی تھیں۔ سالوں بستر پر فالج زدہ رہے، اس دوران بیوی بچے مشکل میں رہے۔ ایک تو علاج کی مد میں اخراجات بڑھ گئے۔ دوسرے بنک سے پیسہ نکالنے یا سرٹیفیکٹ کیش کرانے کے لیے ان کے دستخط درکار، جو وہ کر نہیں سکتے تھے بوجہ فالج۔
بنک والے کہتے کہ ان کے دستخط لے آؤ یا ان کا ڈیتھ سرٹیفیکٹ لے آؤ اور پیسے لے جاؤ۔ اور وہ نہ زندوں میں نہ ُمردوں میں۔ کوڑی کوڑی کو محتاج ہونا سنا تھا، لیکن اس گھرانے پر بیت رہی تھی، اور جب تک زندہ رہے بیتتی رہی۔

ہمارے معاشرے میں صنفی تقسیم کار کچھ ایسی ہے کہ عورت کو گھر کی ملکہ قرار دے کر گھریلو معاملات اس کی نگرانی میں دے دئیے جاتے ہیں اور مرد کے ذمے کمانا اور گھر کے باہر کے معاملات کر دیے جاتے ہیں۔ معاشی معاملات بشمول بنک اکاونٹ وغیرہ کی تفصیلات گھر کی خواتین سے شئیر ہی نہیں کی جاتیں۔ لہٰذا اچھے پڑھے لکھے اور باشعور گھرانوں میں بھی کبھی کسی کو یہ خیال ہی نہیں آتا کہ اپنے علاوہ کم از کم گھر کے کسی ایک مزید فرد کو تو اثاثہ جات کی تفصیلات سے آگاہ رکھا جائے، جو آپ کی غیر موجودگی میں یا کسی ایمرجنسی میں آپ کے خاندان کے لیے اہم اور ضروری ہوں۔
اس ضمن میں چند باتیں ہیں جن کا خیال ہم سب کو رکھنا چاہیے۔

1۔ جائیداد/ سرمایہ کاری/ بانڈز/ بچت سرٹیفیکٹ وغیرہ کے معاملات آپ کے علاوہ کم از کم ایک اعتماد کے بندے کے علم میں ضرور ہونے چاہئیں۔

2۔ ممکن ہو تو ان سب کاغذات کی ایک ایک نقل بمعہ آپ کے شناختی کارڈ کی نقل اس بندے کی تحویل میں ہو۔

3۔ جہاں تک ممکن ہو یہ سارے اثاثہ جات فرد واحد کی ملکیت/ کے نام پر نہ ہوں تو بہتر ہے۔ شوہر/بیوی/ بیٹے یا بیٹی کسی ایک کو شریک کرلیں۔

4۔ بنک اکاونٹ تو لازماً کم از کم دو افراد کے نام پر ہونا چاہیے۔ دونوں اس اکاونٹ کو انفرادی طور پر آپریٹ کر سکتے ہوں۔ لازمی نہیں کہ آپ کے اس دنیا سے کوچ کر جانے کی صورت میں اس کی ضرورت پڑے۔ آپ کے بیرونِ ملک یا بیرون شہر ہونے کی صورت میں بھی گھر والے کسی ایمرجنسی ضرورت سے نمٹ سکیں گے۔

5۔ خفیہ اکاونٹ اور خفیہ جائیداد آپ کے مرنے کے بعد آپ کے کام نہیں آنے والی، تو کسی اور کے کام ہی آنے دیں اور وہ \”کسی اور\” آپ کے بیوی بچے ہوں تو کیا برا ہے۔ اسے نیم خفیہ کر لیں۔ زمین پر کوئی ایک انسان ایسا ڈھونڈ لیں جسے ان خفیہ معاملات کا علم ہو۔ بہتر ہے یہ فرد آپ کی شریک حیات ہو۔

یاد رکھیں نماز، روزے، زکواۃ، صدقے، خیرات یقیناً اگلی زندگی کے لیے بہترین زاد راہ ہیں۔ لیکن کیا فائدہ اگر آپ کے بیوی بچے پیچھے آپ کو بد دعائیں دیتے رہیں۔ ان کی معافی کے بغیر آپ کو جنت میں داخلے کا ٹکٹ نہیں ملنا، حقوق العباد کہیں مروا نا دیں آپ کو۔ خدارا اپنی شریک حیات کو صرف اپنی حیات تک ہی حیات میں شریک نہ رکھیں، یہ بھی سوچیں کہ آپ کے بعد آپکی شریک حیات کا کیا بنے گا۔ بچوں کا کون والی وارث ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
16 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments