سیاسی طوفان میں ٹھہراؤ کے آثار


گھمسان کی لڑائی کے دوران اس تاثر کی تو نفی ہو گئی کہ اب کسی ایک فریق کو 100 فیصد کامیابی مل سکے گی۔ ملکی منظر نامے میں آگے جو ہو گا، دیکھا جائے گا مگر یہ طے ہے کہ کوئی بھی سٹیک ہولڈر پوری طرح سے پرانی پوزیشن پر قبضہ قائم نہیں رکھ سکے گا۔ ہم بحیثیت قوم ابھی اخلاق کے اس اعلیٰ معیار کونہیں پہنچے کہ دل صاف کر کے پکی صلح کر لیں۔ سو جان لیجئے کہ اگر معاملات کسی حد تک درست نظر آئے تو اس کا یہی مطلب ہو گا کہ کوئی کسی پر احسان نہیں کر رہا جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے کسی مجبوری کے تحت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری اس کشمکش میں افراد اور جماعتیں ہی نہیں بلکہ اداروں نے بھی مہروں کا کردار ادا کیا۔ یہ کوئی نیا کام نہیں، ماضی سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ نئی چیز یہ سامنے آئی کہ ہر شعبہ تقسیم ہو کر رہ گیا اور یہ جنگ عملاً لابیوں کے درمیان ہوتی نظر آئی۔ اگرچہ ارکان اسمبلی وغیرہ کو توڑنے کے حوالے سے تاریخ کو تو دہرایا نہ جا سکا لیکن ایسا ہو بھی جاتا تو شاید محاذ آرائی کی شدت میں کمی نہیں لائی جا سکتی تھی۔ گوپانگ، پیرزادے یا ہراج ٹائپ لوٹے کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، یہ گیم بہت اوپر کی ہے۔ داﺅ پیچ اور فیصلے کسی اور بنیاد پر ہونا ہیں۔ مسلم لیگ کے انداز سیاست اور حکمرانی کے اطوار پر کئی حوالوں سے تنقید کی جا سکتی ہے اور انشاءاللہ پاکستان کا آزاد میڈیا اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ مگر یہ ماننا ہو گا کہ جو کام ملکی تاریخ میں کوئی سیاسی جماعت نہ کر پائی وہ فوجی آمر جنرل ضیاء کے گملے سے اگے پودے نے تن آور درخت بن کر دکھایا۔ تو اس حساب سے تازہ ترین صورت حال کچھ یوں ہے کہ معاملات کسی نہ کسی سطح پر ”طے“ کیے جا رہے ہیں۔ اس کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ سیاسی نظام آئندہ ہموار طریقے سے چلتا رہے گا۔ جی نہیں !ابھی بہت لمبی جدوجہد کرنا باقی ہے۔ قوم کو بہر طور یہ اطمینان ہونا چاہیے کہ بڑی خرابی پیدا کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں بالآخر اچھائی سامنے آئے گی، سب کا احتساب ہو گا۔ مقدس گائے کا لفظ بذات خود گالی کے مترادف ہو جائے گا۔ یہی وہ مراحل ہیں کہ جن سے گزر کر مختلف ممالک استحکام کی منازل طے کرتے ہوئے ترقی اور فلاحی معاشرے کے سفر پر رواں ہوئے۔ 2014ء کے دھرنوں سے جاری تمام مشق کا مقصد سیاسی نظام کو ٹانگیں توڑ کر وہیل چیئر پر بٹھانا تھا۔ اس کے لیے سیاسی گروہ اور مذہبی تنظیموں کو باقاعدہ ”قائم“ کر کے خوب استعمال کیا گیا۔ ادارے تو پہلے ہی سے ہر طاقتور کے سامنے سربسجود ہونے کیلئے تیار رہتے ہیں۔

2014ء کے عمرانی اور قادری دھرنوں کے مجموعی نتائج اگرچہ ان دونوں کیلئے زیادہ خوش آئند نہیں تھے مگر اسٹیبلشمنٹ نے بڑی حد تک اپنے مقاصد حاصل کیے۔ ایک کمزوری تھی جس پر قابو نہ پایا جا سکا وہ یہ کہ سازش کو خفیہ رکھنے کے تمام حربے ناکام ہو گئے۔ بات چل نکلی تو گلی کوچوں تک آگئی۔ یہ عوام کا موڈ ہی تھا کہ حکومتی کارکردگی اور نواز شریف کی تساہل پسندی کی حد تک گوشہ نشینی کے باوجود غیر جمہوری قوتوں کو ایک حد سے آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ جنرل راحیل کے دور میں تو عملاً کمانڈ انہی کے ہاتھ میں نظر آتی تھی مگر جمہوری حلقے اپنے طور پر بار بار آوازیں بلند کرتے رہے۔ یہ سچ ہے کہ نواز شریف کی آنکھ تو نااہلی کے فیصلے کے بعد ہی کھلی۔ بہتر یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے بعض ”آرام پسند“ ساتھیوں کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا کہ شکست کو مقدر جان کر صبر کر لیا جائے۔ نواز شریف باہر نکلے تو وہ تمام لابیاں بھی حرکت میں آگئیں جو ان کی کارکردگی کے حوالے سے بعض تحفظات رکھنے کے باوجود جمہوری نظام بچانے کیلئے یکسو تھیں۔ اس دھماچوکڑی کے دوران جہاں ملک کے ہر شعبے میں تقسیم کے مناظر دیکھنے کو ملے وہیں یہ بھی نظر آیا کہ پاکستان کے معاملات میں دوست ممالک سعودی عرب، چین اور ترکی نے فریقین سے رابطے کر کے درمیانی راستے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ اور برطانیہ نے اپنے مفادات کو آگے رکھ کر اپنی منصوبہ بندی کے تحت مشورے مسلط کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ سچ ہے کہ مشرف کے جانے کے بعد شروع ہونے والا سیاسی دور ہر لحاظ سے پرخطر تھا۔ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ خانہ جنگی ہو کررہے گی۔ اختیارات اور وسائل پر قبضے کی اس جنگ میں ملکی مفادات حقیقتاً پس پشت ڈالے گئے، اس نازک موڑ پر بھی بلوچستان جیسے حساس صوبے میں محض سینیٹ الیکشن کو سبوتاژ کرنے کیلئے جو کھیل کھیلا گیا وہ اس امر کا کھلا ثبوت ہے۔ کبھی مذہبی منافرت کو ابھارا جاتا رہا اور کبھی غداری کے الزامات لگائے گئے۔

قدرے استحکام کی صورت میں جو کچھ اب نظر آرہا ہے وہ بھی لازم نہیں کہ برقرار رہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں شدید بدگمانی اور بداعتمادی کی اس فضا میں عارضی بندوبست کو فریقین کی مجبوری سمجھا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ سینیٹ الیکشن اور عام انتخابات کا پٹڑا کرنے کیلئے مدعو کیے گئے طاہر القادری کینیڈا واپس سدھار گئے۔ استعفوں اور ایجی ٹیشن کی دھمکیاں دینے والے عمران خان بھی کچھ کر کے نہ دکھا سکے۔ عدالتی فیصلوں اور ریمارکس میں استعمال ہونے والی زبان نے بظاہر حکمران جماعت کو زچ کیا مگر درحقیقت انہیں بھی موقع ملا کہ وہ اداروں کی جانبداری پر انگلیاں اٹھا سکیں۔ معاملات اب سینیٹ الیکشن اور پھر عام انتخابات کی جانب بڑھ رہے ہیں جو بلاشبہ غیر جمہوری قوتوں کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ اگلی گیم کیا ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اب آنے والے سارے سروے جو کچھ بتا رہے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ 2013ء والے نتائج ہی دہرائے جائیں گے۔ اگر فی الواقع ایسا ہی ہوتا ہے تو پھر اتنی لمی چوڑی، مشقت کرنے اور بدنامی مول لینے کی کیا ضرورت تھی؟ اگلی کوشش اب یہ ہو سکتی ہے کہ آئندہ عام انتخابات کو ”مینج“ کرنے کی کوشش کی جائے۔ نواز شریف کی نااہلی سے خالی ہونے والی این اے 120 لاہور کی نشست پر ضمنی الیکشن کے دوران کئی تجربات کر کے اس کا جائزہ بھی لیا گیا، گیم جمی نہیں بلکہ اس کا شدید ردعمل سامنے آیا ۔ یہ تو صرف ایک حلقے کا معاملہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ انتخابات میں پورے ملک میں بیک وقت اسی قسم کی مہم جوئی کرنے کی کوشش پر کیا ردعمل آ سکتا ہے؟

یقیناً جو بھی آئے گا کسی بھی لحاظ سے ملک و قوم کیلئے سود مند نہیں ہوگا۔ شاید اسی لیے عالمی و مقامی سٹیک ہولڈرز کے تیار کردہ ملے جلے نسخے کے تحت کچھ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے آئندہ وزارت عظمیٰ کیلئے شہباز شریف کی نامزدگی میں اسی امر کی جانب اشارہ ہے، آگے کیا ہو گا؟ اس کا جائزہ لینے کیلئے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ حملہ آور کون ہے اور اپنا دفاع کون کر رہا ہے؟ پھر یہ کہ دفاعی پوزیشن پر موجود فریق نے بھی تو کئی جوابی گولے داغنا شروع نہیں کر دئیے۔ اگر دونوں جانب سے لڑائی کی جا رہی ہے تو پھر سیز فائر کس کی مجبوری بن گیا ہے اور یہ کہ سیز فائر حقیقت میں ہو گا یا موقع دیکھتے ہی پھر سے گولہ داغ دیا جائے گا۔ بداعتمادی کی یہ فضا آسانی سے ختم نہیں ہو سکتی۔ نیک نیتی ہو تو عمل سے ثابت کرنا پڑے گی۔ اس لڑائی میں اب کسی ایک فریق کا ہی سب کچھ داﺅ پر نہیں لگا بلکہ جنگ چھڑتے ہی ہر فریق کو کچھ نہ کچھ کھونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہر طرح کی آفات سے محفوظ رکھے، صلح صفائی کا فائدہ کیا ہے اور جنگ و جدل کا نقصان کتنا ہو گا اس کا اندازہ پوری قوم کو ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن کا تجزیہ ایک ذمہ دار شخصیت کے ذریعے معلوم ہوا۔ چند ہفتے پیشتر جاری سرگرمیاں دیکھ کر ان کا کہنا تھا کہ ہم انارکی کی طرف جا رہے ہیں، امید کی جاتی ہے کہ یہ نتیجہ دیگر تمام حلقوں نے بھی اخذ کر لیا ہو گا۔ مصنوعی سیاسی تلاطم پیدا کرنے کی کوششوں میں ٹھہراﺅ برقرار رہا تو اس کا اندازہ ہو جائے گا۔

پس تحریر: سپریم کورٹ کے حکم پر صدیق الفاروق کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا، چیف جسٹس کا حکم سر آنکھوں پر، پوری ذمہ داری سے عرض ہے کہ متروکہ وقف املاک بورڈ نے اپنی تاریخ میں صدیق الفاروق سے زیادہ فرض شناس، دیانتدار اور محنتی سربراہ نہیں دیکھا ہو گا۔ اللہ کرے کوئی معجزہ برپا ہو اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے حکومت ان کے قریب قریب کا بھی کوئی بندہ لانے میں کامیاب ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).