اگلی باری پھر مسلم لیگ نواز کی ہے


میں، اور میرا گرائیں، خرم مشتاق، میاں نواز شریف صاحب کو اقامہ کے “ناقابل معافی اور بھیانک جرم” کے نتیجہ میں ہونے والی نااہلی کی سزا سے اک رات قبل فون پر لمبی گپ کر رہے تھے۔ خرم میدان سیاست کے عوامی زاویہ کا اچھا نباض ہے اور خادم بھی تھوڑی لے دے کر لیتا ہے تو دونوں کا ایک ہی بات پر اتفاق ہوا کہ کوئی صورت ایسی نظر آتی نہیں کہ میاں صاحب کو ٹھوکر مار کر نکال باہر کیا جا سکے کہ وطن کے سیاسی، معاشی و معاشرتی حالات اب چند اک مثبت ارتقائی منازل طے کر چکے ہیں۔

اگلے دن ہم دونوں اپنی “تجزیاتی بغلیں” جھانک رہے تھے۔ خرم تو علی الاعلان مسلم لیگ نواز کا سرگرم کارکن ہے، مگر خادم تو سیاسی اکھاڑے سے باہر بیٹھا تماشائی ہے، تو اسکا فیصلہ پر گرم ہونا اک فطری امر تھا، جبکہ میں میاں نواز شریف صاحب سے زیادہ، پاکستان کے اک اور منتخب وزیر اعظم اور اس کے منصب کی بےتوقیری پر دل شکستہ تھا۔ اس دن ہم دونوں نے پھر بات کی، اور اک بات پر بہرحال اتفاق کیا کہ وطن عزیز میں سیاسی معجزات کا چابک کبھی بھی، کہیں بھی اور کسی بھی سمت سے آ کر “ٹھاہ” کر کے لگ سکتا ہے۔

اس گفتگو کے بعد خرم اپنی سرگرمی میں مگن ہو گیا، میں اپنی مشاہداتی تماش بینی میں جو تاحال جاری ہے، اور تاعمر جاری رہے گی۔ خادم کے مشاہداتی تماشائی بن جانے کے فیصلے کی بنیاد میں اک ہی فقرہ ہے صاحبو: اپنی کرنی ہے، اپنی کھانی ہے۔ اور اپنی کرنی کو اپنے کسی بھی سیاسی نظریہ سے ہزار نہیں، لاکھ نہیں، کروڑ بھی نہیں، اربوں گنا بہتر جگہ پر رکھتا ہوں۔ پاکستانی سیاسی نظریہ کی چاٹ اور جذباتیت کی چیونگم کبھی شدت والی غربت میں بڑے شوق اور جہالت سے چبایا کرتے تھے۔ اب نہیں۔ کبھی نہیں!

میاں صاحب کی نااہلی پر دل شکستگی کچھ کم ہوئی تو یہ شعوری احساس دوبارہ واپس آیا کہ سیاست اک دیوار میں جا لگنے کا نام نہیں ہوتا، بلکہ، یہ اک مسلسل جاری سفر کا نام ہوتا ہے۔ عقلمند لوگوں نے اگست 2014 کے عمرانی دھرنا کے بعد مسلم لیگ نواز کی حکومت پر اک کے بعد اک حملہ جاری رکھا۔ کئی حملے سامنے نظر بھی آتے رہے اور کئی وہ ہیں جن کی تفصیلات کبھی عوامی میدان میں نہیں آئیں گی۔ حکومت میں تھے تو میاں صاحب پر ان کی نظر آنے والی صلح جوئی سے ان کی جماعت کے لوگ بھی سخت شاکی تھے اور بہت سارے معاملات میں، چاہے وہ عمرانی دھرنا کی ہینڈلنگ ہو یا اپنے خلاف چلائی جانے والی مسلسل میڈیا کمپین، انہوں نے اکثریتی معاملات میں بظاہر کوشش کی کہ حکومت اور جمہوریت اپنے پانچ سال مکمل کرے اور سسٹم، انہی کی موجودگی میں ہی، سیاسی ارتقاء کا اک قدم آگے لے جائے۔

ایسا ممکن نہ ہو سکا۔

عقلمند لوگ راولپنڈی کے چلے ہوئے کارتوس کے ذریعے سے بار بار بذریعہ سیٹھ میڈیا، انسانی شکل کے پاکستانیوں کے فہم و شعور پر بار بار حملے کرتے رہے اور انسان دِکھنے والے پاکستانی احباب بھی ساڑھے چھ سے لے کر رات بارہ بجے تک میڈیا کی سیٹھ افیون کے اسیر رہے، اب بھی ہیں، اور رہیں گے بھی۔ جس کو اپنے المشہور خلیفہ صاحب دنیا کی تیسری ذہین ترین قوم کہتے ہیں، اس کے اطوار عجیب ہیں، اور غریب بھی۔ میری باقی ماندہ زندگی تک ایسے ہی رہنے کی توقع ہے۔ راولپنڈی کے چلے ہوئے سیاسی کارتوس کا تازہ ترین حملہ جناب کامران شاہد صاحب کے پروگرام میں نازل ہوا جس میں اعلیٰ حضرت نے اک بار پھر ختم نبوتﷺ کی Shield کے پیچھے چھپ کر “لعنت، لعنت، لعنت” کی گولہ باری کی۔ کامران شاہد صاحب مسکراتے رہے۔ سوچتا ہوں کہ میڈیا کے دوست کیسا محسوس کریں گے اگر کوئی ان کے سامنے اتنی ہی شدت سے میڈیا پر لعنت لعنت لعنت کی گردان کرے تو؟ کیا تب بھی ہاسے ہی ہوں گے؟

آج ابھی جب سیاسی تلاطم میں کچھ کمی کا احساس ہو رہا تھا تو مسلم لیگ نواز کے سینیٹر، جناب نہال ہاشمی صاحب کو توہین عدالت پر اک ماہ قید کی سزا کا حکم سنا دیا گیا۔ پاکستان جیسے ممالک میں سیاست کرتے ہوئے قیدی بن کر جیل جانا کوئی بڑی بات نہیں رہی۔ سینکڑوں نہیں، ہزاروں بھی نہیں، لاکھوں سیاسی کارکنان اور رہنماؤں کا اک سلسلہ ہے جو جیل جاتا رہا ہے، اور وہاں سے باہر بھی آتا رہا ہے۔ سیاستدان کو جیلیں نہ پہلے عوامی سیاست سے روک سکی ہیں، نہ ہی آئندہ روک پائیں گی۔

مجھے اس عدالتی فیصلہ پر کوئی رائے رکھ کر اٹھوائے جانے کا کوئی شوق نہیں، مگر ہاں، اس فیصلہ کے سیاسی اثرات بہت دلچسپ معلوم پڑتے ہیں۔

مسلم لیگ نواز، پاکستان کی تمام سیاسی و غیر سیاسی تاریخ کی واحد جماعت ہے جو حکومت میں ہو کر بھی ریاستی اداروں کے جبر کی شکایت کر سکتی ہے۔ یہ شکایت غلط ہے یا درست، اس کی جمع تفریق عقلمند لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ میرے نزدیک مگر میاں صاحب کی اقامہ جیسے “گھناؤنے اور بھیانک اقدام” پر نااہلی سے لے کر، آج نہال ہاشمی صاحب کی اک ماہ کی قید تک محسوس یہ ہوتا ہے کہ عقلمندان و دانشمندانِ سیاست کے داؤ پیچ، سیٹھ میڈیا کی مسلسل یلغار کے باوجود وہ نتائج برآمد نہیں کروا پائے جس کی میاں صاحب کی نااہلیت سے انہیں توقع تھی۔ یاد کرواتا چلوں کہ راولپنڈی کے المشہور لعنت والے بطل حریت تو مسلم لیگ نواز کے 42 ایم این ایز کے استعفے جیب میں ڈالے پھر رہے تھے۔ آج کل موصوف، جو وطن عزیز کی عمومی معاشرت کا اک مثالی عکس ہیں، اپنا استعفیٰ جیب میں ڈالے پھر رہے ہیں اور سیٹھ میڈیا انہیں مسلسل اپنی دلہن بنائے ہوئے ہے۔

عمرانی دھرنا کے بعد ہونے والے نوے فیصد سے زائد ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نواز جیتی۔ مسلسل لڑکھڑاتی سیاست کے باوجود بجلی، گیس اور امنِ عامہ کی صورتحال پہلے سے بہتر ہے۔ سی-پیک پر تعمیر و ترقی کا سفر جاری ہے۔ تمام اسمبلیاں قائم ہیں، اور وفاقی حکومت بار بار اس بات کا اعادہ کر چکی ہے کہ وقت سے قبل الیکشنز نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ نواز، حکومت میں بھی ہے، اور عوامی اپوزیشن میں بھی، اور اس مسلسل حملہ آور ہونے والے جبر کے نتیجے میں اس کا کارکن بھی زیادہ جذباتی اور دلیر ہوا ہے، ڈرا اور سہما نہیں۔ یہ صورتحال تو کسی صورت بھی کائنات کی واحد شفاف اور صاف ترین جماعت، پاکستان تحریک انصاف کے حق میں جاتی نظر نہیں آتی۔

اک سازشی نظریہ یہ ہے کہ یہ سب کھیل مسلم لیگ نواز، بطور جماعت، کو اگلے دو الیکشنز جتوانے کے لیے کھیلا گیا تھا کہ جس میں میاں نواز شریف صاحب الیکشن سے قریبا اک سال قبل وہ کردار ادا کرنا شروع کر دیں جو وہ کر رہے ہیں، تاکہ جماعت سرگرم اور فعال رہے۔

اور اگر یہ سازشی نظریہ درست نہیں، تو موجودہ صورتحال عقلمند لوگوں کی عقل پر اک بھدا تبصرہ ہے جو راولپنڈی کے چلے ہوئے کارتوس اور کینیڈا کے مسخرے کی کوششوں سے تو بدلتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ شارٹ ٹرم میں تو صاحبو، اگلی باری پھر مسلم لیگ نواز کی ہی نظر آ رہی ہے۔

مگر وہ کیا ہے کہ وطن عزیز میں سیاسی معجزات کا چابک کبھی بھی، کہیں بھی اور کسی بھی سمت سے آ کر “ٹھاہ” کر کے لگ سکتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).