خان صاحب، چین سے سونا ہے، تو جاگ جائیں


صاحبو، کپتان اور میاں صاحب میں ٹھن گئی ہے۔ مقابلہ ہے کہ کون زیادہ سیاسی غلطیاں کرتا ہے اور مقابلہ یہ کڑا ہے، البتہ فقیرکی پیش گوئی ہے، فاتح کپتان ہی ٹھہرے گا۔
بے شک میاں صاحب ہر چھوٹے بڑے جلسے میں عدلیہ پر تنقید کرکے مزے سے اپنی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں، ان کی صاحبزادی اور چہیتے وزرا اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اوریہ بھی درست کہ شہباز شریف کو نامزد کرکے جس بلا کو ٹالا گیا تھا، اسے پھر للکارا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود بھی فقیر مصر ہے کہ سیاسی غلطیاں کرنے کی جنگ میں خان شریفوں کو شکست دے ڈالے گا۔
دراصل خان اور سیاسی غلطیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ فہرست یہ طویل۔ گننا شروع کریں۔ لاحاصل دھرنے، استعفوں کی بڑھکیں، بے وقت شادی کے اعلانات، ٹھس انتخابی مہمات، سندھ اور بلوچستان کو سہولت سے نظراندازکرنا، نیم صحافیوں کے پھسپھسے انکشافات پر ٹویٹ داغ دینا۔ جیسے زینب کیس کے ملزم کے بیرونی اکاؤنٹس کی کہانی سن کر ٹویٹ داغ دیا تھا۔ البتہ راقم الحروف کی پیش گوئی ان غلطیوں سے کشید کردہ نہیں۔ اس کا سبب تو پاکستان عوامی تحریک کے غیر فطری اتحاد کا حصہ بننا ہے۔

یہ فیصلہ بڑا گھامڑ اور گھاتک تھا متر۔ خان کو اپنے کیرئیر کے ناکام ترین اکٹھ سے خطاب کرنا پڑا۔ نہ تو سامعین میں جوش تھا، نہ ہی مقررین کو ہوش۔ ایم کیو ایم پاکستان بھی، انتشار کے ان زمانوں میں اس سے بڑا جلسہ کرسکتی ہے۔ ادھر تو پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی، ق لیگ اور پی ایس پی ایک اسٹیج پر تھے، قادری صاحب جیسا بزرگ بھی تھا، مگر اسٹیج پر سوگ کا سماں تھا۔

جانے کسی بھلے شخص نے سوچا تھا کہ شاہ رخ، عامر اور سلمان خان کو ایک ساتھ کاسٹ کرلیا جائے، تو کم بخت سارے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے، مگر لاہور کے اسٹیج پر اکٹھے ہونے کے بعد یہ سپراسٹار خود اپنے ہی ڈپلیکیٹ معلوم ہونے لگے۔ لکھ لیجیے، یہ فلم سنیما پر نہیں چلے گی، اگر پھر کوشش کی گئی، تو پروڈیوسرکا بھٹا بیٹھ جائے گا۔ خان کو ہمارا یہی مشورہ کہ ایسی غلط حرکت پھر نہ دہرائے۔ پی ٹی آئی کا ووٹر دھرنوں کے اعلانات، نیم پختہ سیاسی بیانات تو سہہ گیا، مگر پیپلزپارٹی سے سنجوگ کا صدمہ نہ سہہ پائے گا، یہ فیصلہ سم قاتل ثابت ہو گا۔

ویسے خان کو بھی اس کا کچھ کچھ اندازہ۔ جب ہی تو اس سے بچنے کی نیم دلانہ کوشش کی، اپنے اور زرداری صاحب کے لیے الگ الگ سیشنز رکھوائے، جیسے ادبی کانفرنسوں میں ہوتا ہے، پہلے سیشن کا صدر فلاں، دوسرے کا فلاں۔ مگر بات نہیں بنی، رنگ نہیں جما۔ شیخ رشید کو استعفوں کا چٹکلا چھوڑنا پڑا، خان نے بھی اس پر غورکرنے کا مصنوعی عندیہ دیا، مگر چڑیاں کھیت چگ گئی تھی۔ ن لیگ اب ہر دوسرے جلسے میں لاہورکی خالی کرسیوں پرجملے کستی ہے۔ مریم نواز کی میڈیا ٹیم تگڑی ہے، اچھا مزاح لکھنا جانتی تھی۔ کچھ اہتمام اب میاں صاحب بھی کرنے لگے ہیں۔ جڑانوالا میں قادری صاحب کی نقل کرکے، ڈرون کیمروں پر تبصرے جڑ کے، حاضرین کو I Love you too کہہ کر تفریح کا خوب سامان کیا۔ خود بھی ہنسے، اوروں کو بھی ہنسایا۔ توجہ اور خبریں دونوں بٹوریں۔

ادھر خان صاحب، جو گذشتہ روز کراچی پہنچے، تو مقتول انتظارکے گھرگئے اور پختون قومی جرگے میں تقریر فرمائی، یعنی ڈھنگ کے چند کام کیے۔ اب تک لاہورکی ناکامی سے نہیں نکل سکے ہیں اور مشکلات میں اضافہ متوقع۔ جس طرح دیگر صوبوں کے حادثوں، المیوں کو پی ٹی آئی والوں نے وہاں کی انتظامیہ پر پھبتیاں کسنے کے لیے برتا، ویسے ہی اب مخالفین خیبر پختون خوا میں قتل ہونے والی دونوں عاصموں کے کیسزآپ کے خلاف برتیں گے۔ بے شک وہ غلط کریں گے، مگر کیا کریں صاحب، یہ دھندا ہے، یہی چلتا ہے ادھر۔ ماڈل ٹاؤن اور زینب قتل کیس میں آپ کے حواری علامہ طاہر القادری بھی تو یہی کر رہے ہیں۔

فقیر کا مشورہ ہے، علامتوں پر غور کریں۔ میاں صاحب کی نا اہلی کے بعد، ان کی پارٹی میں جنم لینے والے اختلافات کے بعد، خادم رضوی اور سیالوی صاحب کے متحرک ہونے کے بعد، زینب قتل کیس اور قصور اسکینڈل کے بعد جس ن لیگی حکومت کو اپنے قدموں پر ڈھے جانا چاہیے تھا۔ وہ نہ صرف ٹکی ہوئی ہے، بلکہ ایک ایک کرکے معاملات سنبھالتی جارہی ہے۔

خادم اعلیٰ نے سیالوی صاحب کو منالیا۔ نہ تو رانا ثناء اللہ کا استعفیٰ آیا، نہ ہی شریعت نافذ ہوئی اور تو اور خادم اعلیٰ نے تو قصور سانحے میں پنجاب حکومت پر تنقید اور اپنی پریس کانفرنس کو بھی سنبھال لیا۔ پریس کانفرنس، جس میں وہ تالیاں بجاتے، مبارک بادیں سجاتے، فرانزک لیب سے متعلق فخر سے باتیں کرتے نظر آئے۔ کوئی پوچھے، قصور میں زینب سے قبل جو گیارہ بچیاں زیادتی کے بعد قتل ہوئیں(جن میں سے نو عمران نامی درندے کا شکار بنیں)، تب یہ ایشیا کی سب سے بڑی فرانزک لیب کیا کر رہی تھی، جس کی بے بدل خدمات آپ عاصمہ کیس میں کے پی کے حکومت کو پیش کر رہے ہیں؟

خیر، بات دور نکل جائے گی۔ تحریر کا موضوع خادم نہیں، کپتان ہے۔ جو اپنی اس متوقع جیت کو، جس کا تذکرہ کچھ تجزیہ کار مایوسی سے لرزتے اور کچھ جوش سے چھلکتے ہوئے کرتے ہیں، مسلسل مشکل بنانے میں جٹے ہیں۔ سترہ سال سیاست میں کھپانے کے بعد بھی صاحب یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ ون ڈے میچ نہیں، یہاں تک کہ ٹیسٹ میچ بھی نہیں۔ جلسے جلسوں سے بات کام نہیں بنے گی۔ یہ صبر آزما اور سوچ بچارکے ساتھ کھیلا جانے والا کھیل ہے۔ ہر قدم نپا تلا ہونا چاہیے۔ جوڑ توڑ پہلا اصول ہے۔

آپ نے آصف زرداری کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھنا تو گوارا نہیں کیا، مگر ان سے سیاست کے کچھ گر ضرور سیکھ لیجیے۔ جس بلوچستان سے پی پی کا بہ ظاہر صفایا ہوگیا تھا، وہاں زرداری صاحب نے ایسا سنسنی خیز چکر چلایا کہ سعد رفیق نے تلملا کر ایک ہی دن میں چار ٹویٹ کر ڈالے، الزام لگایا کہ وہ فریال تالپورکو سینیٹ کا چیئرمین لگوانا چاہتے ہیں۔ گو بلاول نے تردید کر دی، مگر پی پی رہنماؤں کے بیانات بتا رہے ہیں کہ وہ سینیٹ انتخابات کی ضمن میں ہوم ورک کررہے ہیں۔ ادھر سینیٹ کے انتخابات کی تاریخ کا بھی اعلان ہوچکا ہے، مگر پی ٹی آئی کی جانب سے ایک ایسی خاموشی ہے، جس کے پیچھے لاعلمی اور تذبذب پوری قوت سے کارفرما ہے۔ بس، فواد چوہدری نے میڈیا کی کمان سنبھال رکھی ہے۔

خان صاحب، شریفوں پر تنقید کا زمانہ لد گیا۔ اب منشور کے ساتھ میدان میں اتریں اور ٹھوس بنیادوں پر عملی سیاست کریں، ورنہ آپ پاکستان کی ترقی میں کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے بلاول اور مریم کے مدمقابل آنے سے پہلے کا ایک مختصر اور کمزور سا وقفہ بن کر رہ جائیں گے۔ جس کے ساتھ چند برس ایک معلق پارلیمنٹ ہوگی، مفادات پرست اتحادی ہوں گے اور روبرو ایک انتہائی طاقتور اپوزیشن۔ اور جب بلاول اور مریم کے مقابلے کا وقت آئے گا، آپ کا ساتھ دینے والے گدی نشین، صنعت کار، گلوکارسب ایک ایک کرکے کشی سے اتر جائیں، اور (فقیر کے منہ میں خاک) پی ٹی آئی قصہ پارینہ بن جائے گی۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).