مہمانوں اور بچوں کو قتل کر ڈالنے والے


اتنی گہری، سیاہ اُداس ذہین آنکھیں میں نے آج تک نہیں دیکھی تھیں۔
وہ مجھے ائیرپورٹ پر ملا تھا۔ ایمریٹس ائیر کے بزنس لاؤنج میں اچھا ساکھانا کھا کر میں شیمپئن کی چسکیاں لے رہا اور کراچی جانے والے جہاز کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ وہ خود چلتا ہُوا میرے پاس آگیا۔
’’میں نے آپ کودیکھا ہے۔ ‘‘ اس نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
’’بیٹھیے ‘‘ میں نے ہاتھ کے اشارے سے خالی کرسی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کچھ لاؤں آپ کے لیے؟ کیا پئیں گے آپ۔ ‘‘ میں نے اخلاقاً پوچھا تھا۔
’’نہیں میں خود ہی لے آتا ہوں۔ ‘‘ اس نے اپنی پلیٹ ٹیبل پر اور بیگ زمین پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔

جب وہ واپس آیا تو اس کے گلاس میں بھی شیمپئن مسکرارہی تھی جس کے چھوٹے چھوٹے بے شمار بلبلے اوپر کی سطح پر دم توڑ رہے تھے۔ نہ جانے کیوں مجھے یہ دم توڑتے ہوئے بلبلے بہت اچھے لگتے تھے، زندگیاں بھی ایسے ہی دم توڑتی ہیں، ولولے اور جوش کے ساتھ پروان چھڑتے ہو سوچتے بھی نہیں کہ ایک وقت آئے گا جب سب چھٹ جائے گا۔ وہ بیٹھ گیا اور مجھے غور سے دیکھتے ہوئے بولا ’’میں نے آپ کی تصویر اخبارمیں دیکھی تھی، ڈان اخبار میں ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے۔ ‘‘
یہ کہہ کر اس نے گلاس سے ایک بھرپور گھونٹ پیا اور مجھے غور سے دیکھنے لگا۔

کچھ تھا اس کی آنکھوں میں جیسے سارے زمانے کا درد بھرا ہُوا ہو۔ وہ جاذب نظر تھا، گہرے سیاہ بال، گندمی مائل گورا رنگ، آنکھ ناک ہونٹ بھنویں اور پیشانی نے مل کر اس کے کتابی چہرے کو بہت پُرکشش بنادیا تھا۔ اس نے عمدہ، اچھے اور مہنگے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میں اس کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔

’’ڈان اخبار میں، اچھا مجھے تو یاد نہیں ہے، کب کی بات کررہے ہیں آپ۔ ‘‘میں نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
’’مردوں اورعورتوں کے ساتھ کراچی پریس کلب کے سامنے کھڑے مظاہرہ کررہے تھے آپ لوگ عربوں کے خلاف۔ ان عربوں کے خلاف جو پاکستان میں سردی کے موسم میں تلور کا شکار کرنے آتے ہیں۔ آپ بھی ان میں کھڑے تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک پوسٹر تھا۔ مجھے وہ تصویر یاد ہے۔ آپ کے پوسٹر پر مرے ہوئے تلور کی تصویر تھی جس پر لکھا تھا ’’یہ ہمارا مہمان تھا جسے ہم نے قتل کردیا۔ ‘‘ آپ ہی ہیں نا وہ؟

مجھے یاد آگیا، وہ پوسٹر بھی یاد آگیا جو میرے ایک دوست بنا کر لائے تھے، مجھے حیرانی یہ ہوئی کہ اس آدمی کو وہ پوسٹر اس پر لکھے ہوئے الفاظ اور میں کیسے یاد رہے تھے۔
’’ مگر یہ توبہت پرانی بات ہے۔ وہ مظاہرہ تو کافی دنوں پہلے ہُوا تھا، ان پرندوں، لاچار اور بے بس پرندوں کی حفاظت کے لیے جو دُور بہت دور یورپ اور سائبریا کی سردی سے بچنے کے لیے ہمارے گرم ملکوں میں آتے ہیں مہمان بن کر۔ ہمارے ندی نالوں، دریا، پہاڑوں، چٹانوں، درختوں اور جنگلوں میں بسیرا کرتے ہی پھر جب سردی کا خاتمہ ہوتا ہے تو اپنے ملکوں کی طرف واپس چلے جاتے ہیں کہ وہاں انڈے دیں، اپنی نسل کوبڑھائیں۔ اس دنیا کے ہزاروں رنگوں میں ان کا بھی ایک رنگ ہے ان کی بھی کوئی اُمنگ ہے۔ مگر ہم انہیں لوٹنے سے پہلے ماردیتے ہیں محض چند سکوں کی خاطر۔ ‘‘ میں نے اسے جواب دیاتھا، ’’اس کے بعد ایک مقدمہ بھی کیا تھا ہم لوگوں نے اس درندگی کے خلاف لیکن مجھے حیرت یہ ہے کہ اس تصویر کی بنا پر آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا، یہ تو کافی پرانی بات ہے۔ ‘‘

بڑی اُداس سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر بکھرتی چلی گئی تھی، ایسی اداسی کہ جس سے دل دہل جائے، کچھ لوگوں کے چہرے ایسے ہی ہوتے ہیں، میں اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’بس ایسی باتیں یاد رہ جاتی ہیں۔ بڑا اچھا لگا تھا مجھے، آخر کوئی تو بولا ورنہ کسے فکر ہے کہ پرندے آئیں اور جان سے جائیں۔ ‘‘ اس نے دُکھ کے ساتھ کہا تھا۔ ’’مگر مجھے مقدمے کا پتہ نہیں ہے، کیا ہُوا تھا مقدمے میں۔ ‘‘ اس نے سوال کیا۔

’’کیا ہونا تھا مقدمے کا۔ ہم لوگ جیت گئے تھے۔ بہت ساری پیشیاں بھگتائی تھیں ہمارے دوستوں اور وکیل نے، نہ جانے کیسے ججوں کی سمجھ میں بات آگئی اور انہوں نے فیصلہ دے دیا تھا کہ پاکستان میں تلور کا شکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پابندی لگ گئی تھی اس کے بعد اور ہم لوگ یہ سمجھے تھے کہ پرندے بچ گئے ہیں، مہمانوں کو بچالیا تھا ہم لوگوں نے۔ ‘‘ میں نے مایوسی کے ساتھ اسے بتایا۔ ایسی خوشی ہوئی تھی جیسے کوئی عزیز بیمار آئی سی یو سے بچ کر نکل آتا ہے۔
’’تو کیا پابندی نہیں لگی تھی۔ ‘‘ اس نے سوال کیا۔

’’پابندی تو لگ گئی تھی مگر حکومت دوبارہ سپریم کورٹ چلی گئی کیوں کہ قطر، اومان، ابوظہبی، دبئی، شارجہ، سعودی عرب کے شہزادے اور امراء کو شکار پسندتھا۔ وہ شکار کرنے پاکستان آتے تھے اور ان کے ذریعے سے پاکستان میں پیسے آتے تھے۔ ان پیسوں سے ہر قسم کے کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا تھا، اونٹ کی خریداری سے لے کر عورت کی فروخت تک۔ حکمران ان شہزادوں کومایوس نہیں کرسکتے تھے۔ ان کے پاس دولت تھی، اقتدارتھا اور ہمارے بے غیرت حکمرانوں سے دوستی تھی۔ مہمان پرندوں کے پاس کیا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ صرف ہزاروں سالوں کی عادتیں تھی جو ان کے جینز میں بھردی گئی تھیں ان کے خمیر میں رچ بس گئی تھیں، وہ ہزاروں سالوں سے اسی طرح سے اُڑ اُڑ کر یہاں آتے تھے کیوں کہ یہی ان کامقدرتھا وہ کہیں اور تونہیں جاسکتے تھے کہ ان کو اتنی سمجھ کہاں تھی کہ وہ اب جہاں جارہے ہیں وہاں کے اطوار بدل گئے ہیں جہاں ان کی زندگیوں کا ان کے آنے سے پہلے ہی سودا ہوجاتا ہے۔ ان کے ساتھ پہلے کبھی ایسا نہیں ہُوا تھا۔ ہم جیتا ہُوا مقدمہ دوبارہ ہارگئے تھے، اس اعلیٰ عدالت میں جہاں انصاف ہونا چاہیے تھا۔ ‘‘ میں نے جواب دیا تھا۔

اس کے چہرے پر ایک زہریلی سی مسکراہٹ کوندی تھی۔ ہمارے ملک میں یہی ہوتا ہے۔ وہ تو پرندے تھے، ناسمجھ ہمیں تو سمجھ داروں نے ان کے سامنے ڈال دیا تھا۔ چند روپوں کی خاطر ہماری معصومیت اور ہماری زندگیوں کو بیچ دیا تھا۔

اس نے ایک چھوٹا سا نوالہ لیا اور شیمپئن کا بڑا سا گھونٹ پی کر کہا تھا۔ ’’ہم 19 بچے تھے۔ میں سب سے بڑا تھا، سات سال کا۔ ہم سب کو اغوا کیا گیا یا ہمارے والدین سے خریدا گیا تھا، اب میں تیس سال کا ہوں ہم نو بچے بچ گئے ہیں، باقی سب مرگئے ایک نامعلوم موت سسک سسک کر گھٹ گھٹ کر بیماری سے، اونٹوں سے گر کر، زمین پر گھسٹ گھسٹ کر۔ میں بچ گیا لیکن مجھے پتہ نہیں ہے کہ میں کون ہوں؟ میری ماں مجھے روتی ہوئی تلاش کرتی ہوئی مرگئی ہوگی یا اگر زندہ بھی ہوئی تو نہ جانے کہاں ہوگی؟ ‘‘ اس کے لہجے کا کرب الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میری سمجھ میں آگیا تھا کہ وہ اتنا اُداس کیوں ہے۔ اس کا وجود اس کے چہرے کا وہ درد میرے خیالوں میں آکر ابھی بھی کبھی کبھی مجھے بے چین کردیتا ہے۔
’’ایسا کیا ہُوا تھا تمہارے ساتھ۔ ‘‘ میں نے اپنا گلاس خالی کرکے فلپائنی ویٹرس کو اشارہ کیا تھا کہ اسے بھر کرلے آئے اوراسے غور سے دیکھنے لگا تھا۔

’’یہ تیئس سال پہلے کی بات ہے، جب میری آنکھ کھلی تو مجھے اونٹ، پتھر، پہاڑیاں اور داڑھی مونچھوں والے بڑے بڑے لوگ نظر آئے تھے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں اوربچے بھی مگران کے بچے ہم سے مختلف تھے۔ میں گھر کے باہر کھیل رہا تھا کہ گزرتے ہوئے ایک آدمی نے مجھے کھانے کے لیے مٹھائی دی تھی، پھر مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیا ہُوا اورمیں اس جگہ کیسے پہنچا تھا۔ ہم میں سے کچھ بچے اسی طرح سے اغوا کیے گئے تھے اور کچھ بچوں کو ان کے خاندانوں سے خرید لیا گیا تھا۔ پتہ نہیں کیا مجبوری ہوگی ان ماؤں اور باپوں کی جنہوں نے اپنے بچوں کو بیچ دیا۔ وہ سارے بلوچ تھے اور بلوچی میں ہی بات کررہے تھے۔ مجھے ان کی تھوڑی بہت باتیں یاد ہیں۔ آگے فوج کا ٹرک ہے، راستہ کھلا ہے، دن کو نہیں چلنا ہے۔ رات کا سفر ہوگا، چاند سے پہلے پہنچ جائیں گے، کمشنر سے بات ہوگئی ہے، سردار کا پیغام ہے۔ اسی قسم کی باتیں کرتے ہوئے نہ جانے کتنے دن اونٹوں کے قافلے میں ندی نالوں کے راستوں سے کبھی پہاڑوں کے جنگل میں تو کبھی صحرا کے سمندر میں چلتے رہے کہ ایک دن پتہ چلا تھا کہ اومان آگئے ہیں۔ اومان میں وہ لوگ چاراونٹوں کے علاوہ سارے اونٹ اور ہم انیس بچوں کوچھوڑ کر چلے گئے تھے۔ مجھے آج تک پتہ نہیں لگا وہ کون تھے اور ہمارا کتنے میں سودا ہوا تھا۔ ہم سب بچوں کو ایک اسباح میں لے جایا گیا تھا۔ اسباح اونٹوں کے اصطبل کو کہتے ہیں۔ صحرا میں بنے ہوئے ان اسباح میں اونٹوں کی پرورش ہوتی ہے انہیں تربیت دی جاتی ہے، اس اسباح میں ہم بچے تھے اور چند عربی نوکر جو وہاں کام کرتے تھے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا تھا۔

شیمپئن کا ایک اورگھونٹ پینے کے ساتھ اس نے بولنا چاہا مگروہ بول نہیں سکا۔ اس کی آنکھوں میں جھلملاتے آنسو تھے، نہ جانے اسے کیا یاد آگیا۔ اس نے اپنی انگلیوں سے آنسو صاف کیے اورآہستہ آہستہ بولنا شروع کیا تھا۔

وہ اسباح صحرا میں تھا، بڑے بڑے کمرے جہاں اونٹوں کے درمیان ہم لوگوں کا بھی ایک بڑا کمرہ تھا۔ دن بھرکی گرمی اور سیاہ راتیں۔ پہلے ہفتے ہی ہم سب بچوں کو ڈرادیا گیا، ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ہم سب مرجائیں گے۔ ایک ایسا خوف تھا اس اسباح میں۔ پہلے ہفتے ہی تین بچے اُلٹیاں کرتے ہوئے مرگئے تھے۔ مجھے ان کی معصوم شکلیں ابھی تک یاد ہیں۔ پھر ہمیں آہستہ آہستہ سمجھ میں آگیا کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ صبح سے شام تک اسباح کے مختلف کام ہوتے۔ صبح ناشتے کے بعد اونٹوں کی لید کی صفائی پھر اونٹوں کے اوپر ہمیں باندھ کر اونٹ دوڑائے جاتے تھے۔ پہلے آہستہ آہستہ پھر تیز او ر تیز۔ ہمیں اونٹوں کی دوڑ میں شتربان کی تربیت دی جارہی تھی۔ تربیت کے دوران ایک ایک کرکے اونٹوں پر بندھے بندھے چار بچے مرگئے تھے اورانہیں صحرا میں ہی کہیں خاموشی سے دفن کردیا گیا تھا۔

یہ کہہ کر وہ پھر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگیا تھا۔ میں اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ عجیب قسم کا کرب تھا، اس کے چہرے پر اس نے میری انکھوں سے آنکھیں ملاتے ہوئے مسکرانے کی ناکام کوشش کی اور دوبارہ بولنا شروع کیا تھا۔

وہ ایک عجیب جگہ تھی، ہم سب کو اونٹوں کی دوڑ کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔ ہمیں تربیت دینے والے جنگلیوں سے بھی بدتر تھے۔ دن بھر کے کام کاج اوراونٹوں کی دوڑ کے بعد رات کی تاریکی میں ہم میں سے کئی بچے خاموشی سے پامال بھی کیے گئے، چار دوسرے بچے رات کی تاریکی میں بھاگ گئے اور صحرا میں ہی کہیں کھو گئے۔ ہم روز سوتے تھے ڈرتے ہوئے لرزتے ہوئے، اپنے گھروالوں کو اپنی ماؤں کو اپنی بہنوں کو یاد کرتے ہوئے۔ کئی سال گزرگئے ہیں اور ابھی بھی کبھی کبھی رات سوتے ہوئے مجھے ان سسکتے بلکتے ہوے بچوں کی آوازیں آتی ہیں۔ خوف سے تھرتھراتی ہوئی صدائیں پھر کوئی صحرا کا بدو ان کی طرف جھپٹتا ہوا نظر آتا ہے، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے چاروں طرف بدو گھوم رہے ہیں اپنے تنے ہوئے اعضا تناسل کے ساتھ ہم پر جھپٹنے کے لیے تیار، میں پناہ کے لیے بھاگتا ہوں، پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے نہ جانے کتنی دفعہ ان لوگوں نے ہمیں پامال کیا، ہمارا بلاتکار ہوا۔

میرا سر گھوم گیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا بھی کہیں ہُوا ہوگا، ایسا بھی کہیں ہوتا ہوگا، یہ کیسی باتیں کررہا ہے یہ شخص۔ اتنی بھیانک باتیں مگروہ سچ کہہ رہا تھا، سارا سچ۔ بڑے لوگ دولت مند انسان اپنی عیاشی اور اپنی تفریح کے لیے کیا کچھ کرتے ہیں۔ ماؤں کی گودیں اجاڑدیتے ہیں، باپوں کے سپنے روند دیتے ہیں، بہنوں کا مان توڑدیتے ہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے جسموں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، سب کو پتہ ہوتا ہے اور سب لوگ اپنی آنکھیں بند کرکے رکھتے ہیں۔ کیسے دل ہوتے ہیں ان لوگوں کے۔ کیا مذہب، نظریہ، ایمان، اعتقاد ہوتا ہے ان لوگوں کا۔ ایک شدید نفرت کا طوفان اُٹھا تھا میرے دل میں۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو تسلی دی، اپنے آنسوؤں کو روکا۔ مجھ سے شیمپئن نہیں پی گئی تھی۔

آپ پرندوں کو بچانے میں کیسے کامیاب ہوتے، آپ کا ملک تو بچوں کو نہیں بچاسکتا ہے۔ ان کا اغوا ہوتا ہے، انہیں بیچا جاتا ہے، انہیں پامال کیا جاتا ہے، انہیں ماردیا جاتا ہے، ان کی مائیں ان کا خاندان ان کی یاد میں آنسو بہا بہا کر ایک دن مرجاتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ ان کے بچے کہاں کھوگئے۔ میں ان چند بدقسمتوں میں تھا جو بچ گئے۔

چار سال بعد جب میں گیارہ سال کا تھا اور اب اس قابل نہیں تھا کہ شتربانی کروں تو مجھے پاکستان واپس بھیجنے کی بجائے دبئی بھیج دیا گیا تھا جہاں چنیوٹ کے ایک خاندان نے مجھے اپنا لیا تھا، ان کے کوئی بچے نہیں تھے انہوں نے مجھے والدین کا پیار دیا، پالا، پڑھایا۔ اب میں ان کے خاندان کا فرد ہوں لیکن ابھی بھی وہ گھر در اور گھر میں گھومتی پھرتی ہوئی ماں جھاڑو لگاتی ہوئی، بہن میرے یادوں کے دریچوں میں جھانکتی ہیں، اپنے آنسو بھرے چہروں کے ساتھ لیکن میں انہیں پا نہیں سکتا ہوں، میں ان کے لیے کھوگیا ہوں، وہ میرے لیے مرگئے ہیں۔

اس کے اداس وجود پر مجھے پیار بھی آیا، رحم بھی مجھے تلور کا شکار کرتے ہوئے۔ عربی ہاتھوں سے اڑتے ہوئے جھپٹتے ہوئے شکاری باز نظر آتے تھے جنہیں ہم نہیں ہراسکے تھے۔ کالے کوٹوں میں ملبوس خرانٹ وکیل اور اوپر بینچ پر بیٹھے ہوئے مضحکہ خیز لباس پہنے ہوئے جج دکھائی دیے۔ میں نے سوچا تھا ان کے سروں پر گھومنے والے پنکھے ان کے سروں پر کیوں نہیں گرتے ہیں۔ ان کے کمروں کو ٹھنڈا کرنے والی مشین آگ کیوں نہیں اگلتی ہیں۔ ان کے چہرے جھلستے کیوں نہیں، یہ مر کیوں نہیں جاتے، یہ مر کیوں نہیں جاتے۔ اگر کوئی انصاف کرنے والا ہے تو انصاف کیوں نہیں ہوتا ہے؟
مجھے وہ سسکتے بلکتے بچوں کے ساتھ نظر آیا جنہیں ہم نہیں بچاسکے تھے، میں نے اس کے چہرے پر نظرڈالی اور زاروقطار رو دیا تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).