عمران خان کیا چاہتے ہیں؟


سنہ 1992میں پاکستان نے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تو اس ٹیم کے کپتان نے اپنی والدہ کے نام پر کینسر ہسپتال قائم کرنے کا اعلان کیا۔ کینسر کی تشخیص اور علاج دیگر ہسپتالوں میں جاری تھا لیکن اس عارضے کے لئے کوئی ہسپتال مختص نہیں تھا۔ اس مقصد کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم میں عمران خان راقم کے شہر تشریف لائے تو اپنے سکول کی نمائنگی کرتے ہوئے ہم نے انہیں چندے کی رقم پیش کی۔ اس وقت ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ اس سے قبل اسلامی جمہوری اتحاد کے تحت نواز شریف ڈھائی برس تک وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ نادیدہ و دیدہ قوتوں کے کردارکے باعث جمہوریت کی حالت ناساز تھی۔ نواز دور میں سرکاری اثاثوں کی کوڑیوں کے مال بیچا گیا تھا جب کہ بینظیر صاحبہ کے ادوار میں ان کے خاوند اور حواریوں نے کرپشن کی کہانیاں رقم کر رکھی تھیں۔

دور ضیاع کے بعد جمہوری نظام نے جڑ پکڑی تو امید تھی کہ سیاسی کے ساتھ معاشی ترقی بھی دیکھنے کے ملے گی۔ سماجی سطح پر ضیا دور میں پرورش پانے والی نسل صبح نو کا خواب تکتی تھی۔ بین الاقوامی امداد، افغان جنگ کے بعد سے زوال پذیر تھی۔   پیپلز پارٹی ایک زمانے میں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگاتی تھی لیکن اقتدار میں آنے پر یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوئے۔ اسلامی جمہوری اتحاد اور بعد ازاں مسلم لیگ نواز، کاروباری طبقے اور پنجابی مڈل کلاس کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی تھی۔ کینسر ہسپتال کی چندہ مہم کے دوران عمران خان نے عوام میں اپنی مقبولیت کی جھلک دیکھ لی تھی۔ ان کے بہت سے مداحوں نے انہیں سیاست میں حصہ لینے کی دعوت دی لیکن عمران خان نے صاف انکار کر دیا۔ ضیا دور میں ملک کو آئینی طور پر اسلام کا قلعہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی  اور جمہوری دور میں ان اقدامات کی ترویج ہوئی۔ ملک میں بہت سے لوگ (جن میں جماعت اسلامی سرفہرست تھی) کا خیال تھا کہ اسلامی نظام صحیح طرح نافذ نہیں ہوا۔ اس ضمن میں سوات کے ملا صوفی محمد اور دوسری بینظیر حکومت کے خلاف آپریشن خلافت جیسے سٹنٹ بار آور ثابت نہ ہوئے۔

اس اثنا میں عمران خان کو کسی نے مشورہ دیا کہ ملک میں ایک اسلامی جمہوری پارٹی کی جگہ موجود ہے، آپ اس خلا کو پر کر سکتے ہیں۔ یہ مشورہ دینے والے، قیاس کے مطابق جنرل حمید گل (جو افغانستان میں جلال آباد آپریشن کے باعث کافی بدنام تھے) اور ضیا حکومت کے گوئبلز، جنرل مجیب تھے۔ عمران خان نے اس سے قبل کسی سیاسی یا سرکاری عہدے پر رہنا تو ایک طرف، کبھی ووٹ بھی نہیں ڈالا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ حکمران جماعت (پیپلز پارٹی) اور بڑی اپوزیشن پارٹی (مسلم لیگ نواز) کی بدعنوانیوں کو ایشو بنا کر ایک صاف شفاف جماعت بنائی جائے تو اسے انتخابات میں کامیابی حاصل ہو گی۔ اس نئی جماعت کا ایجنڈا مرتب کرنے کے لئے انہوں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مبنی ٹیم تشکیل دی۔ اس ٹیم کے اہم کارکنان میں ماحولیاتی قانون کے عالمی ماہر ڈاکٹر پرویز حسن، نسیم زہرہ، کراچی سے ناظم حاجی (جنہوں نے بعد میں پولیس اور شہریوں کے رابطے کی تنظیم CPLC قائم کی)، بلوچستان سے اویس غنی، پشاور سے عبدالمتین (پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر) اور سوات سے ڈاکٹر فاروق (سوات میں قائم ہونے والی یونیورسٹی کے وائس چانسلر جنہیں طالبان نے شہید کیا) شامل تھے۔

جماعت کے ابتدائی ایجنڈے میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ، کرپشن کا خاتمہ، انتخاب سے پہلے احتساب، بیرونی قرضوں سے نجات اور امریکی غلبے کا خاتمہ شامل تھا۔ عمران خان اور ان کے مشیروں کا خیال تھا کہ اسلامی فلاحی ریاست کا وعدہ انہیں اقتدار کی جانب لے جائے گا۔ سنہ 1997کے انتخابات میں ان کی جماعت کے اڑتالیس امیدواروں کو کل ملا کر تین لاکھ ووٹ ملے۔ پانچ سال بعد ڈکٹیٹر مشرف کے تحت منعقدہ انتخاب میں وہ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ایک سیٹ ہونے کے باوجود وہ کسی طرح اقتدار کا حصہ بننے کی کوشش میں مصروف رہے۔ سیاسی سطح پر ناکامی کے باوجود ٹی وی پروگراموں (خاص طور پر جیو نیوز پر) میں انہیں باقاعدگی سے بلایا جاتا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی مہم کے دوران عمران خان نے پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت کے لڑکوں کا تشدد بھی برداشت کیا۔ سنہ 2008کے قومی انتخابات کا انہوں نے بائیکاٹ کیا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ وہ کرپشن اور  روایتی سیاسی جماعتوں کی مخالفت کریں گے لیکن اس ایجنڈے کی  بنیاد پر وہ پندرہ سال تک ایک بھی الیکشن نہ جیت سکے۔ اس کرپشن مخالف ایجنڈے میں امریکہ مخالفت اور طالبان کی وکالت کا تڑکا بھی لگا کر دیکھا لیکن کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

اقتدار کی ہوس انسان کو بہت کچھ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ تیس اکتوبر سنہ 2011کے بعد سے عمران خان کا ایجنڈا یک نکاتی ہے: پاکستان کا وزیر اعظم بننا۔ اس ایجنڈے کی ےتکمیل کے لئے انہیں نے اپنی جماعت کو روایتی سیاست دانوں سے بھر دیا لیکن اقتدار کی چڑیا اب تک ان پر مہربان نہیں ہو سکی۔   2013کے انتخابات کے بعد سے خان صاحب نے شکوے شکایتوں سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ خیبر پختونخواہ کے عوام نے انہیں ایک موقعہ دیا کہ وہ ان کے صوبے میں ”تبدیلی“ کا نمونہ پیش کریں تاکہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے باسی ان کے قول و فعل میں تسلسل کا مظاہرہ کر سکیں۔   گزشتہ ایک دہائی میں عمران خان نے ہمارے سیاسی ڈسکورس کو ذاتیات اور گالم گلوچ سے متعارف کرایا ہے اور ان کے حواری سوشل میڈیا پر  مخالفین کے لئے  گھٹیا ترین زبان استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ موروثی سیاست کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنانے والے آج اپنی جماعت میں اس عمل کا دفاع کر رہے ہیں۔

تحریک انصاف کا سیاسی ایجنڈا، خان صاحب کی وزارت عظمیٰ کی خواہش کے علاوہ جماعت اسلامی کے ایجنڈے کی کاپی ہے۔ کئی برس قبل برادر بزرگ علی آفتاب نے عمران خان کو خوب صورت جماعت اسلامی کا لقب دیا تھا۔ بحیثیت سیاست دان، عمران خان نے گزشتہ اکیس سال میں کیا اقدامات کیے ہیں؟ ان اکیس سالوں میں دس سال وہ قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ ان دس سالوں میں  انہوں نے کوئ  تاریخ ساز یا غیر معروف قانونی بل متعارف کروایا ہے؟   چندہ اکٹھا کر کے کینسر ہسپتال بنانا اور چلانا قابل تقلید کارنامہ ہے لیکن صحت کا نظام صرف چندے پر نہیں چلایا جا سکتا۔ خارجہ پالیسی اور ملک میں موجود سول ملڑی کشمکش میں عمران خان اور ان کی جماعت  کا کیا موقف ہے؟ گو نواز گو کی گردان کے نتیجے میں ان کی جماعت کو سیاسی طورپر کیا فائدہ حاصل ہوا؟   پاکستان کی تاریخ میں جتنے بھی معروف سیاست دان تھے، انہوں نے پاکستان کی سیاسی اور جمہوری جدوجہد میں حصہ ڈالا۔ تاریخ دان گزشتہ اکیس سال کی کارکردگی پر خان صاحب کے کھاتے میں کیا لکھیں گے؟ تحریک انصاف، اسی اور نوے کی دہائی میں پرورش پانے والوں کے لئے ایک نیا تجربہ تھی لیکن اس کے اعمال نے وہ تمام خواب خاک میں ملا دیے۔ اس ملک کو دھرنوں کی سیاست اور سیاست میں مذہب کی ملاوٹ کے اضافے کی ضرورت نہیں۔

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed