وکٹری کا نشان ۔۔۔ چرچل سے شاہ رخ جتوئی تک


میں اگر کبھی تاریخ لکھنے بیٹھوں تو دو شخصیات کو ہمیشہ یا د رکھوں گی جنہوں نے وکٹری کا نشان بنایا۔ پہلی شخصیت برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل جنھوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران اس نشان کو فتح سے تعبیر کرتے ہوئے اپنایا۔ دوسرا سندھ اور کراچی کا جیالاشاہ رخ جتوئی جسے ڈیفنس میں شاہ زیب کو قتل کرنے کے بعد جب گرفتار کیا گیا تو چہرے پر مسکراہٹ اور بے فکری سجائے اس نے فتح کا نشان بنایا تھا۔ اب یہ بحث چھوڑ دیجئے کہ درمیان کے اتنے برسوں میں کس نے کب کب یہ نشان بنایا لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ایک طاقتور نے اس کی بنیاد رکھی دوسرے نے اس کا استعمال کر کے دنیا بھر کے طاقتوروں کو یہ پیغام دیا کہ سکہ ہمارا ہی چلے گا، طاقت ہمارا ہی سرچشمہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس پر سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کو دوبارہ گرفتار کرنے اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم جاری کیا۔ عدالت کے احاطے سے ہی شاہ رخ جتوئی سمیت مزید دو ملزمان کو گرفتار بھی کرلیا گیا لیکن سب سے دلچسپ مکالمہ وہ رہا جو فیصلہ سنانے والے اور کیس کے مرکزی ملزم کے درمیان ہوا کمرہ عدالت میں چیف جسٹس آ ف پاکستان ثاقب نثار نے دریافت کیا کہ وہ نوجوان کون ہے جس نے گرفتار ہونے پر وکٹری کا نشان بنایا تھا؟ جس پر شاہ رخ جتوئی کھڑا ہوا اور کہا جناب وہ میں تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے پوچھا بیٹا آپ نے ایسا کیوں کیا تھا؟َ تو جواب آیا وہ میرا بچپنا تھا۔

قربان جائیں ایسے بچپنے پر جس میں یہ یاد رہے کہ ہتھیار کیسے چلانا ہے اور قتل کرنے کے بعد باپ کی دولت کی دھونس کیسے دینا ہے۔ اس بچے نے کم عمری میں بڑا جرم کیا اور پھر سیاسی اور معاشی اثر ورسوخ کی بنا پر وی آئی پی جیل بھی کاٹی۔ پاکستان میں اکثر جب بھی کسی طاقتور کو سزا سنائی گئی تو اس جانباز کو اسی روز یاد آیا کہ ارے مجھے تو دل، گردے، کمر، دماغ یا ریڑھ کی ہڈی کا عارضہ ہے۔ اور اگر کسی طاقتور کا بیٹا پکڑا جائے تو کوشش کی جاتی رہی کہ اسے بے گناہ ثابت کیا جائے کچھ نہیں تو پاگل یا پھر کم عمر ہی بتا دیا جائے۔ یہاں گھر میں لینڈ لائن فون کا ڈیمانڈ نوٹ بھرے برسوں نکل جاتے تھے لیکن بچوں کی شادی کی عمر میں فون لگتا تھا، عدالت سے خلع مانگنے کوئی عورت آئے تو اسے بھی خوب پیشیاں بھگتانی پڑ جاتی ہیں لیکن ایسے وکٹری والے انصاف کے متلاشیوں کو جرم چھپانے کے لئے دستاویزات دنوں کیا، گھنٹوں میں بھی بنا کر دے دی جاتی ہیں ۔ شاہ رخ کے معاملے میں بھی ایسا کیا گیا کہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس نے یہ جرم اٹھارہ برس سے کم عمری میں کیا۔ کیا کیا جتن ہوئے اور بالاخر سندھ ہائی کورٹ نے مقدمے میں سے انسداد دہشت گردی کی دفعات کو خارج کیا اور بچے کو آزاد کر دیا۔ لیکن وکٹری کا نشان رہائی کے بعد بنا ہو یا نہ بنا ہو، گرفتار ی کے بعد پہلی بار کمرہ عدالت آتے ہوئے ضرور بنایا گیا تھا جس کی تصاویر تاریخ کا حصہ بن گئیں۔

یہ ضروری نہیں کہ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے ہاتھوں کا ہی استعمال ہو۔ یہ عمل کرنا ایک ثبوت تو بن جاتا ہے تاہم ہمارے ملک میں کئی ایسے مواقع آئے جب یہ نشان کبھی علامتی طور پر بنے تو کبھی الفاظ، تو کبھی چہرے پر لکھے اطمینان اور مسکراہٹ سے دیکھنے کو ملے۔ بھٹو کو پھانسی ہوئی، آمریت کو فتح ملی، پاکستان دو لخت ہوا بوجھ کم ہوجانے پر بھی فتح یابی ملی۔ ہم نے امریکہ کے ایما پر کرائے کی جنگ لڑی، جہادی بنائے، سوویت یونین کو روس میں تبدیل کیا ، وکٹری کا نشان بنایا۔ پھر ہمیں بتایا گیا کہ کمبختوں یہ جہادی اب دہشت گرد ہیں۔ انھیں مارو اور ثواب کماؤ۔ پھر ہمیں فتح سے ہمکنار ہونا پڑا ۔ پھر کچھ نے ہمارے دلوں پر وار کیا اور سولہ دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا اور نہتے معصوم بچوں پر گولیاں برسائیں تب ان دہشت گردوں نے بھی فتح کا نشان لہرایا ۔ جب کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی تو اسی روز بارہ مئی کی شام بھی ایک آمر نے ہوا میں مکے لہرائے اور فتح کا اعلان کیا۔ ججز کو نظر بند کیا گیا، صحافیوں کو کوڑے پڑے۔ طاقتوروں کے چہروں پر رعونت اور اطمینان فتح کا اعلان ہی تو تھا۔ نواز شریف نا اہل ہوئے تو تحریک انصاف کے کارکنان نے وکٹری کا نشان بنایا۔ جہانگیر ترین نااہل ہوا تو ن لیگ والوں نے یہی نشان بنایا۔ فیض آباد دھرنے کے فیض پانے والے استعفی لے کر جب واپس لوٹے تو وکٹری کا نشان بنا۔ قادری صاحب جب جب اپنے مقاصد پورے کرنے کی آڑ میں مجمع اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئے تو وکٹری کا نشان بنایا ۔

ہم نے اس معاشرے میں بسنے والی اور جینے کا حق مانگنے والی عورتوں کے چہرے تیزاب سے دھو دیے۔ اس شرمساری پر گردن تو نہ جھکا سکے لیکن اس پر فلم بنا کر ہم نے بین الاقوامی شہرت کمائی، انعام پائے تو بھی ہم فتح یاب ہوئے۔ زیادہ دنوں کی بات نہیں قصور کی سات سالہ زینب کی لاش جب ہمیں کوڑے کے ڈھیر سے ملی تو ہمارے دل پگھل گئے لیکن اس وقت پنجاب کے مخالفین نے تھو تھو کیا اور ان کے طنز اور تنقید کے انداز میں بھی فتح کا نشہ چھلکتا دکھائی دیا۔ سب صوبائی تعصب سے سرشار دکھائی دئیے۔ پھر مردان کی ننھی اسماء کی قتل کی خبر آئی تو یہی خیبر پختوانخوا کے لئے دہرایا گیا کہ چلو بھئی میچ ایک ایک سے برابر ہوا۔ کیا وہ پریس کانفرنس بھول گئے آپ جس میں خادم اعلی نے زینب کے باپ کے ساتھ بیٹھ کر یہ بھی نہ سوچا کہ اس پر کیا بیتے گی لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے رفقا کے ہمراہ قہقہے لگائے، ستائشی کلمات ادا کئے، شاباشیاں دیں کہ ہم نے مجرم پکڑلیا، اس روز بھی ہاتھ سے وکٹری کا نشان بنانا رہ گیا تھا لیکن انداز بتا رہا تھا کہ ہم فتح یاب ہوئے اب خیبر پختوانخوا تیری باری۔۔

کوہاٹ کی تھرڈ ائیر کی طالبہ عاصمہ رانی کو شادی سے انکار پر مجاہد آفریدی نے دن دیہاڑے قتل کیا اور بیرون ملک فرار ہوگیا، یقینا ٹی وی پر اپنے متعلق خبریں دیکھ کر ہنستا ضرور ہوگا اور وکٹری کا نشان بناتا ہوگا۔ انکاونٹر اسپیشلسٹ راؤ انوار نے چار سو چوالیس جوان لڑکے پولیس مقابلے میں پھڑکا دیے۔ کسی نے نہیں پوچھا۔ ایک نقیب اس کے سامنے نقیب انقلاب بن گیا تو اسے چھپنا پڑا۔ جس بے بسی سے ملک بھر کی پولیس اسے ڈھونڈ تی پھر رہی ہے اور سندھ حکومت کے ناپسندیدہ آئی جی اے ڈی خواجہ عدالتوں کے سامنے جوابدہ او ر میڈیا کے سوالات سے بچتے پھر رہے ہیں یقینا راؤ انوا ر اور پیپلز پارٹی یہ سب دیکھ کر فتح یابی کا نشان ضرور بناتی ہوگی۔

لیکن میں سوچتی ہوں کہ کبھی کسی ایسے کو بھی وکٹری کا نشان بناتے دیکھوں جو صحیح معنوں میں اس کے مطلب سے واقف ہو۔ میں نے آج تک کسی مظلوم کو انصاف ملنے پر یہ نشان بناتے نہیں دیکھا۔ کسی ریپ کا شکار عورت کو اگر وہ مختاراں مائی جیسی ہو جس نے مظلوم عورتوں کے لئے کام کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا، اسے یہ نشا ن بناتے نہیں دیکھا۔ میں نے زینب کے گھر والوں کو بچی کا مجرم پکڑے جانے پر وکٹری دکھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ غرض یہ کہ میں یاد بھی کرنا چاہوں تو مشکل میں پڑ جاتی ہوں لیکن اس فتح کو جتانے والوں کی اتنی طویل فہرست میرے سامنے ضرور آجاتی ہے کہ کس کا بتاوں کسے بھول جاوں۔

بس کل” بابا رحمتے” اور ایک” معصوم بچے ”کے درمیان ہونے والے اس مکالمے نے بہت کچھ یاد دلایا اور ایک طرح سے خوشی ہوئی کہ چلو کسی نے تو پوچھا کہ بیٹا ایسا کیوں کیا تھا؟ اور کسی نے تو وجہ بتائی کہ ایسا اس لئے کیا تھا۔ لیکن جو مثالیں دی گئیں ان سے کون پوچھے؟ یہ کیا جواب دیں گے؟ ان کا انداز یہی بتانے کو کافی ہے کہ جو طاقتور ہے، وہی فتح یاب ہے۔ یہ نشان بنا ہی ہم جیسوں کے لئے ہے ۔ ہم ہی ازل سے ابد تک راج کریں گے، ہمارا ہی سکہ ہر دور میں چلے گا۔ ہماری شکلوں کو ناموں کو یاد رکھنا۔ ہم ہی ہیں جو کچھ بھی کر گزرنے کے بعد اس پر فخر کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar