شبِ ہراس


کیا عجیب دور تھا جب رٹائرڈ ہائی اسکول ٹیچر عبدالحمید انصاری اور ان کی بیوی بڑھاپے میں ہمیشہ سے بڑھ کر ایک دوسرے کی زندگی کا جز و توبن گئے تھے لیکن ایک دوسرے سے دل کی بات چھپانے لگے تھے، جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ جانتے تھے کسے، کس وقت کیا تکلیف ہے، کیا چاہیے ہے، لیکن اندر کا کیا حال ہے، وہاں کیا ہورہا ہے اسے مُنھ سے نہ پھوٹنے کی جیسے دونوں نے قسم کھا رکھی تھی۔

جاڑوں کی رات تھی، ہلکی پھوار پڑی تھی اور امکان تھا پھر پڑے گی۔ ایک دھماکے کے بعد جس کے لیے محاورہ تھا ’ٹرانسفورمر اُڑ گیا‘ بجلی چلی گئی تھی اور امید نہیں تھی کہ جلد پھر آئے گی۔ باہر گھپ اندھیرا تھا اور ہر طرف خاموشی۔

نزہت برابر کے کمرے میں اتنی غافل سو رہی تھیں کہ بیچ کا دروازہ کھلا ہونے کے باوجود اگر ضرورت پڑ جاتی تو جگانے کے لیے انصاری صاحب کو لگاتار تین چار آوازیں دینی پڑتیں یا خود اٹھ کر آتے۔ اور ضرورت کیا؟ بس یہی ناکہ ’باورچی خانے میں سے برتنوں کے گرنے کی آواز آئی ہے، کہیں بلّی تو اندر نہیں گھس گئی؟‘

بلّی کیا چور تو نہیں دیوار پھاند کر اندر آگیا ہے، کہنے پر بھی نزہت کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار پیدا نہ ہوتے کیونکہ اگر ڈاکو بھی اندر گھس آئے ہیں تو دونوں کیا کرسکتے تھے! باوجود بیٹا بیٹی اور بہی خواہوں کے کہنے کے کہ گھر میں ہمیشہ کوئی ہتھیار ہونا چاہیے دونوں نے فیصلہ کر لیا تھا ایسا کرنا خطرے کو بڑھانا ہوگا اور نقصان علیحدہ، ڈاکو کی پہلی نظر اس ہتھیار پر جائےگی۔

کسی نہ کسی طرح دونوں نے وقت یعنی زمانے کو تسلیم کر لیا تھا: سب کے لیے ایک جیسا ہے۔ بیٹا بیٹی بغیر کسی حادثے کے تعلیم کی راہیں طے کرکے اس شہر کیا، اس ملک سے باہر جاچکے تھے اور خوش تھے۔ انصاری صاحب کی بہنیں البتہ فکر مند رہتی تھیں، کیونکہ ان کے شوہر اور داماد ڈیوٹی پر جاتے تھے اور بچے، بچیاں اسکول، کولج۔ لیکن کیا کِیا جاسکتا تھا۔ سب عورتوں کے شوہر اور بچے گھر سے نکلتے تھے بلکہ بہت سے گھروں کی عورتیں تک۔ جب ہر قسم کے حادثے اور جرم سے مڈبھیڑ، ہر ایک کی، ہر جگہ ہوسکتی تھی تو اس کا رونا کیا! واردات کے بعد تھانے جاکر رپورٹ لکھوانے کی لوگوں کی عادت تقریباً ختم ہوچکی تھی۔

عام مجرم سمجھتا تھا وہ جرم کررہا ہے اس لیے اس کی جرأت کے پیچھے خوف چھپا ہوتا تھا۔ اعلیٰ نصب اور بااقتدار گھرانے کا فرد جس نے اس پیشے کو اپنا لیا ہو بیچ دن کے یہی کام شاہراہ پر یا مین دروازے سے گھر یا اوفس میں داخل ہو کر کرتا اور بعد میں پوچھے جانے پر اپنی مونچھ کو اُمیٹھ کر کہتا: اس کے لیے ہمّت چاہیے تھی__ ’پیشۂ مرداں مددِ خدا۔‘

جن کی بیٹیاں چھوٹی تھیں یا جوان، وہ ماں باپ جب تک بیٹی گھر لوٹ کر گھر نہ آجائے وسوسے میں رہتے تھے پر کیا کرسکتے تھے؟ دنیا ایسے دور میں نکل آئی تھی جب بچیوں اور عورتوں کا اکیلے گھر سے نکلنا اُس تھوڑے ہی دنوں کے پرندے کی طرح ضروری ہوگیا تھا جسے ایک وقت آنے پر ماں باپ دھکیل کر گھونسلے سے باہر نکال دیتے ہیں__ چاہے اسے پوری طرح اُڑنا آیا نہ آیا ہو۔ باہر چیل، کوّے بھی ہوتے ہیں اور جھاڑیوں میں چھپی بلّیاں اور نیولے بھی۔ پر کیا کِیا جائے۔ خطرہ مول لیے بغیر زندگی کیسے آگے چل سکتی ہے! یہ مشکلیں سمجھ لینے کی تھیں اور جس کی سمجھ میں آگئیں وہ گرمی میں پنکھا، بے پنکھا اطمینان سے سوتا تھا اور جاڑے میں بجھی ہوئی آگ کے پاس گدڑی میں۔ بغیر کسی کا گِلہ کیے۔

توحمید صاحب، لیمپ جلائے اپنے کمرے میں آرام کرسی پر لیٹے ایک فرانسیسی نَوول پڑھ رہے تھے۔ انگریزی میں۔ پیر اُن کے بستر پر تھے۔ آدھی رات تک نیند ان کی آنکھوں سے دور رہتی تھی جو اتنی عمر کو پہنچنے کا تاوان تھا جو وہ سالوں سے بُھگتا رہے تھے۔ اس حقیقت کو بھی ماننا پڑتا ہے۔ چھوٹے پوتا پوتی اگر گھر میں ہوتے تو ممکن ہے یہ تکلیف اتنی نہ کُھلتی۔ انہیں کہانی سناتے سناتے خود بھی جھپکی لے لیا کرتے۔ لیکن اس عمر کے بچے دور تھے اور نیند بھی اتنی ہی دور۔

یہ کوئی نہیں جانتا ایسی راتوں اور تنہائی کے لیے ہی وزنی نوول تخلیق میں آتے ہیں، ان کے لکھنے والے خود بھی نہیں۔ مختصر کہانیاں جنہیں افسانے کہا جاتا ہے انہیں سفر اور وقتی شدید اکتاہٹ (عام بولی میں بوریت) جنم دیتی ہے۔ جتنی ایجادات ہوئی ہیں ان کے پیچھے انسان کی وقت کی ضرورت کار فرما تھی۔ اس اصول سے فکشن کیوں کر مُبّرا ہوسکتی تھی! رہا تحقیقی اور تنقیدی ادب اس کا پڑھنا اس نوعیت کی چیز ہے جس کے لیے کہا گیا ہے: ’اور دن ہم نے کام کے لیے بنایا ہے‘، لکھنے اور پڑھنے والوں دونو ںکے لیے۔

سو جس وقت سونے والی دنیا سو رہی تھی حمید صاحب اُس عالمی ادب کے شاہکار بھاری نوول سے نیند لانے والی گولی کا کام لے رہے تھے۔ اُن کے پرانے شاگردوں میں سے دو ایک جو بڑھاپے میں ان کا خیال رکھ رہے تھے جہاں اُن کے دس کام کرتے تھے وہاں ان میں سے ایک لائبریریوں، گھروں اور فٹ پاتھ بک سیلرز سے کتابیں لا کر دینا بھی تھا۔ فیلڈنگ، اسکوٹ، تھیکرے، ڈکنز، ایلیٹ، ہارڈی کو حمید صاحب نمٹا چکے تھے، بعض کو دوبارہ منگوا کر، پھر روسی ادب کی باری آئی اور اس وقت جب بجلی گئی ہوئی تھی، ماسٹرنی صاحبہ سورہی تھیں، وہ اس فرانسیسی نوول میں غرق تھے۔ بی نزہت کا تعلیم کی دنیا سے کبھی واسطہ نہیں رہا تھا لیکن گھر کے آس پاس وہ اسی نام سے پہچانی جاتی تھیں۔

بڑے میاں اس نووَل کی ساری تفصیل کو دلچسپی سے پڑھ رہے تھے، پوری چوکسی کے ساتھ۔ وہ ان پڑھنے والوں میں سے تھے جنہیں پیدائشی پڑھنے کے شوقین کہا جاتا ہے، جو بھی مل جائے پڑھتے ہیں__ کبھی گہری توجہ سے ٹھیر ٹھیر کر، کبھی کسی اچھے جملے یا سچوئیشن (موقع) کا لطف لینے کے لیے اُسے دوبارہ پڑھتے ہیں، اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کتاب یارسالے کو پڑھ کر ایسے ختم کر دیتے ہیں جیسے ٹرین کے ڈبے میں بیٹھے کسی اجنبی کی بات سُن رہے تھے__ اس کے کاروبار کے چوپٹ ہو جانے کی، رشتے داروں کی بے مرّوتی کی، یا بیماری کی تفصیل جواسٹیشن کے آجانے پر، چاہے ادھوری ہو، سنانے والا یا سننے والا، اَچھا بھائی رخصت کہہ کر پلیٹ فورم پر اتر جاتا ہے۔ پھر بھی یہ اضافہ کرنا مناسب ہوگا کہ کتاب جو بھی ہو حمید صاحب کا اس سے تعلق بس اتنا ہی ہوتا تھا کہ بعد میں اگر کوئی اس کا ذکر کر بیٹھے اور کہے بڑی اچھی کتاب ہے، تو وہ کہتے ’جی ہاں میں نے پڑھی ہے‘ اور اس گفتگو کو ادھر میں چھوڑ کر مسافر کی طرف پلیٹ فورم پر اتر جاتے۔ ان کا اسٹیشن انہی چھ لفظوں پر آجاتا تھا۔

نوول ایسا تھا جو سست رفتاری سے چلتے چلتے کہیں کہیں اچانک دلچسپ ہو جاتا تھا۔

کرسمس کا دن تھا، دوپہر، ایک آدمی جیسے بہت دیر چلنے کے بعد رات کو ٹھیرنے کے لیے سرائے ڈھونڈ رہا تھا، معمولی قسم کے گھروں کے کم آباد علاقے میں، ہیئت سے افلاس زدہ لگتا تھا لیکن کپڑے صاف ستھرے تھے۔ سرپرگول بہت پرانا ہیٹ تھا لیکن برش کیا ہوا۔ اووَر کوٹ ضرورت سے زیادہ لمبا تھا، اندر واسکٹ تھی، پتلون کا رنگ گھٹنوں پر سے اڑ گیا تھا۔ پاپوش کچھ پھیلے ہوئے سے تھے جیسے بہت عرصہ پہنے جانے پر ہو جاتے ہیں۔ لگتا تھا کہیں باہر سے آیا ہوا ہے، شریف گھرانے کا ہے، بال سفید، تھکا ماندہ، ہونٹ خشک، ساٹھ کا ہو گالیکن چہرےسے ٹپکتا تھا زندگ سے ہار مانے ہے۔ اس کے الٹے ہاتھ میں ایک پُٹلیا تھی اور سیدھے میں چھڑی جسے ڈنڈا کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس پر وہ جھک کر چل رہا تھا۔

’کچھ میرا سا حلیہ ہے‘ حمید صاحب نے دل میں کہا۔

یہ وہ وقت تھا جب شام کو شہنشاہ لوئس ہشتم کی سواری وہاں سے نکلتی تھی اور اس کے آگے آگے گھڑ سوار، چند آدمی جو سڑک کے اس ویران حصّے میں تھے سواری سے بچنے کےلیے ایک طرف کو دبک گئے۔ دو آدمیوں میں دبی زبان میں کچھ بات ہوئی اور ایک نے کہا ’’اچھا تو یہ ہیں گورمنٹ!‘‘ نواردنے بھی اس جملے کو سُنا۔

برابر کے کمرے سے کروٹ بدلنے کی آواز آئی جس میں ہمیشہ ہلکی کراہٹ کی آمیزش ہوتی تھی۔ یعنی اتنی نہیں تھی کہ حمید صاحب اٹھ کر جائیں اور پوچھیں ’بیگم کیا ہوا؟‘ اطمینان ہو جانے پر انہوں نے پڑھنا جاری رکھا۔ ویسے بھی نیند آنے کا رستہ بھول چکی تھی۔

لیکن یہ شخص اس علاقے میں ان جانا تھا اور اُسے بھی نہیں معلوم تھا کہ یہی وقت ہے ’’گورمنٹ‘‘ کے ہواخوری کے لیے وہاں سے گزرنے کا۔

اگر نزہت بی جاگ گئی ہوتیں تو حمید صاحب ’کیوں بیگم کیا ہوا؟‘ کہنے کے بعد انہیں گورمنٹ کے ہوا خوری کے لیے نکلنے والا جملہ ضرور سناتے۔ وہ سن کر دل رکھنے کو مسکراتیں اور کروٹ کو مکمل کر لیتیں۔ انہوں نے شادی کے بعد ایم۔ اے۔ ادب میں کیا تھا شوہر کی طرح کسی ادق مضمون میں نہیں اور کسی زمانے میں شعروشاعری میں دلچسپی لیتی تھیں۔ لیکن اب نہیں۔

نووَل میں سراے کا مالک جس کی رنگت زرد تھی، بدن دبلا استخوانی۔ دوسروں کے لیے چاہے جیسا بھی ہو، اپنے یہاں جوان کام کرنے والیوں پر کبھی ناک بھوں نہیں چڑھاتا تھا۔ بیوی اسی لیے ایسی لڑکیاں سرائے میں کام کے لیے نہیں رکھتی تھی۔ وہ بھی غصّہ ور تھی۔ مصنف مالکن کے لیے ہتھنی کا لفظ استعمال کررہا تھا اور وہ بھی ایسی جس کی ٹھوڑی پر رُواں نہیں داڑھی تھی۔ اُسے اگر محبت تھی تو بس اپنے بچوں سے، اور ڈرتی اگر دنیا میں کسی سے تھی تو اپنے مرد سے۔

سرائے کے اسی گھرانے میں ایک اور بچی کا ذکر بھی آرہا تھا__ بن ماں باپ کی بچی جس کی زندگی ان دو خونخوار مالکان سرائے کے درمیان ایسی تھی جسے دو پاٹوں کے بیچ آگئی ہو۔

یہ تشبیہہ فرانسیسی فکشن نگار کی دی ہوئی نہیں تھی، خود حمید صاحب کے دماغ کی پیداوار تھی۔

اس گھر میں کوسیت (Koh-Zett,Cosette)، اس چھوٹی سی جان پر کون سا ستم تھا جو نہیں ڈھایا جاتا تھا۔ جاڑوں تک میں ننگے پیر رہتی تھی اور جسم پر بھی ڈھنگ کے کپڑے نہیں ہوتے تھے جو سردی اور بارش سے کچھ تو بچا سکتے۔ دن بھر سرائے میں تِگنی کا ناچ ناچتی تھی__ کبھی اوپر کبھی نیچے، فرش دھونا، پوچا لگانا، جھاڑو بہارو، پانی بھرنا، سانس پھولی ہوئی، دبلی پتلی لیکن کام کے پیچھے لگی ہوئی۔ وہ سرائے تھی یا مکڑی کا جالا جس میں وہ بُھنگے کی طرح پھنسی ہوئی تھی اور وہ دونوں اس جالے کو بُننے والے تھے۔

کوسیت آٹھ سال کی تھی۔ اُس دن مالکن کے ایک گھونسے سے اس کا ایک پپوٹا سوجا ہوا تھا اور اس کے لیے وہ مارنے والی بار بار کہتی رہی تھی: ’کتنی بدصورت لگ رہی ہے۔‘

اس رات سرائے میں چار نئے مہمان آئے تھے،۔ ان مہمانوں کے کمروں کی بالٹیوں اور تسلوں میں پانی بھرنا تھا۔ شام جارہی تھی اور کوسیت ڈر رہی تھی کہ ٹنکی میں بھی پانی نہیں ہے۔ ہتھنی نے اسٹوو پر سے کھولتی ہوئی دیگچی کا ڈھکن اٹھایا۔ جو پک رہا تھا اس کا چمچے میں لے کر معائنہ کیا، گلاس لے کر ٹنکی تک گئی اور ٹونٹی کھولی، بچی اس کی ایک ایک حرکت کو میز کے پیچھے چھپی دیکھ رہی تھی اور ڈر رہی تھی۔

نل سے پتلی سی دھار نکلی جس سے بس آدھا گلاس بھرا۔

حمید صاحب کے دماغ نے کہا: ’ماری گئی بے چاری۔‘

بچی کا سانس رکا ہوا تھا۔ ادھر سرائے میں آئے ہوئے شرابی کھڑکی سے باہر دیکھتے اور کہتے ’’گُھپ اندھیرا ہے‘‘۔

اس سے پہلے جب کوسیت مالکن کی نظروں سے بچنے کی کوشش نہیں کررہی تھی ایک مسافر نے اس سے کہا تھا : ’’میرے گھوڑے کو پانی نہیں دیا!‘‘

بچی نے کہا تھا: ’’نہیں، بالٹی بھر پانی دیا تھا اور اس نے پیا بھی تھا۔‘‘

اس نے زہر بھری آواز سے کہا تھا ’’جھوٹی چھوکری۔‘‘

’’میں اس کے پاس کھڑی رہی تھی۔‘‘

’’خاموش۔ جا اور اسے پانی دے‘‘ اس نے ڈانٹ کر کہا۔

تب وہ میز کے پیچھے چھپ گئی تھی۔ ساتھ ہی مالکن نے اُسے پکارا: ’’جارہی ہے یا نہیں۔‘‘

کوسیت نے کہا ’’ٹنکی میں پانی نہیں ہے۔‘‘

ہتھنی نے دروازہ پاٹوں پاٹ کھولا اور کہا: ’’جا اور جاکر پانی لا۔‘‘

بچی نے بالٹی اٹھائی جو اتنی بڑی تھی کہ اس وہ خود سما سکتی تھی۔

مالکن نے سختی سے کہا، ’’ابھی جا، چشمے سے لے کر آ__ وہاں ہوگا۔‘‘ ساتھ ہی اُسے کچھ سکّے دیتے ہوئے کہا: ’’اور لوٹتے ہوئے بیکری سے روٹی لیتی آئیو۔‘‘

کوسیت نے سکّے اپنی بوسیدہ فروک کی جیب میں ڈال لیے۔

باہر اندھیرا تھا اور سنّاٹا۔ وہ کچھ دیر مجسمے ساں کھڑی رہی۔ مالکن کی ڈانٹ پھر پڑی خطرے کو تیزی سے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ باہر نکلی اور کھڑی ہو کر کچھ دور کی سجاوٹ کی روشنیوں کو دیکھنے لگی۔ شاید کرسمس کی تیاری کی دکانوں میں روشنیاں تھیں۔

پیچھے سے مالکن کی آواز آئی: ’’جاتی ہے یا نہیں۔‘‘

پچھلے صفحوں کو الٹ پلٹ کر انصاری صاحب نے پھر پڑھا: تقریباً کوسیت ہی کی عمر کی ہتھنی کی دو بچیاں بھی تو تھیں۔ ان سے پانی نہ منگواتی لیکن ان میں سے بڑی کو وہ کوسیت کے ساتھ بھیج تو سکتی تھی۔ وہ دونوں سارے دن کیا کرتی تھیں؟ کچھ نہیں۔ اُن کے پاس آنکھوں کو لبھانے والی گڑیاں تھیں، ان سے کھیلنے کے سِوا اور کیا کرتی تھیں۔ کوسیت کو ساتھ کھلاتی تک نہیں تھیں، نہ اُسے گڑیوں کو چھونے دیتی تھیں۔ انصاری صاحب کے دل میں ان دونوں کےلیے نفرت کا پودا بڑا ہوتا جارہا تھا۔

’اور کوسیت کے پاس کیا تھا؟ ایک انگلی جتنی جستے کی تلوار۔ لڑکی اور کھیل کے لیے تلوار! وہ خود نہیں کہہ سکتی تھیں ’’اماں کوسیت رات کو گھر سے باہر جاتی ہوئی ڈر رہی ہے۔ ہم اس کے ساتھ چلی جائیں‘‘۔ ‘

کوسیت ان قابل نفرت ہستیوں کے درمیان پل رہی تھی۔

پانی کا چشمہ جنگل میں تھا۔ بچی اکیلے پن کے احساس کو دور کرنے کے لیے بالٹی کے ہینڈل کو بجاتی جارہی تھی۔ قصبے کے آس پاس کے رستوں پر کوئی راہگیر نہیں تھا۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتی جارہی تھی اندھیرا بڑھتا جارہا تھا اور گھر بھی دور ہوتے جارہے تھے۔ ایک عورت اُسے اندھیرے میں جاتی دیکھ کر چونکی اور بولی: ’’کوئی پری ہے یا کیا!‘‘

پھر پہچان کر آگے بڑھ گئی کہ ’’کوسیت ہے‘‘ یعنی ’چھوٹی سی چیز۔‘ جو نام قصبے والوں نے اُسے دے رکھا تھا۔

جہاں تک ویرانے میں گھر تھے اور ان کے بیچ کے راستے، اُسے کچھ حوصلہ تھا۔ جہاں پہنچ کر کسی موم بتی کا روشنی کا نظر آنا بھی معدوم ہوگیا اس نے بالٹی ہاتھ سے رکھ دی اور سر کھجانے لگی۔ اب آگے اصل جنگل تھا جس میں خونخوار جانور بھی ہوسکتے تھے اور بھوت بھی۔ پھر اسے جانوروں کے چلنےکی آوازیں آنے لگیں۔

تھوڑی دیر میں ہمت بندھی تو اس نے بالٹی اٹھا لی اور گھر (یا وہ جو کچھ بھی تھا) لوٹنے کا ارادہ کیا کہ جاکر ڈڑھیل ہتھنی سے کہہ دے چشمے میں پانی نہیں تھا۔ لیکن مالکن کا خوف عود کر آیا۔ اس نے پھر چلنا شروع کیا اور بھاگ کر قصبے کی حد سے باہر نکل گئی۔ اُسے راستہ یاد تھا۔ دن میں مشکل سے آٹھ منٹ کا۔ اب وہ دونوں طرف دیکھنے سے آنکھیں چُرا رہی تھی کہ جھاڑیوں پیڑوں میں کچھ نظر نہ آجائے۔

’بے چاری بچی‘ حمید صاحب کا دماغ بڑبڑایا۔

یہاں تک کہ وہ چشمے پر پہنچ گئی۔ جہاں سے پانی لینا تھا وہاں زمین میں سے آکر پانی نے ایک قدرتی تلیّا بنالی تھی__ دو فٹ گہری اور اس سے نکل کر پانی چشمے کی صورت میں نیچے گرتا تھا۔ تلیّا کے آس پاس کائی لگی تھی اور گھاس۔ وہاں تک راستہ سارا پہچانا ہوا تھا اور دن میں کوسیت اس کے کتنے ہی چگر لگاتی تھی۔

اس نے پاس ہی کے ایک پیڑ کے گُدّے کا سہارا لیا، لَچی اور ٹہنی سے لٹک کر بالٹی کو پانی میں ڈال دیا۔ ساتھ ہی سکّے بھی جیب سے نکل کر پانی میں گر گئے اور اُسے خبر بھی نہیںہوئی۔

’اب اسے سکّے گنوا آنے پر مار پڑے گی‘ انصاری صاحب کا دل مَلنے لگا۔

تلیّا سے بالٹی نکال کر تھک کر وہ گھاس پر پڑ گئی، جیسے بے جان ہو۔ سر پر سیاہ بادل تھے۔ پیڑ اور اندھیرا۔

اب اُسے ایک بڑا خوف یہ ستا رہا تھا شاید کل رات پھر یہاں آنا پڑے۔ خوف بڑھتا اور کم ہو جاتا۔ یہ سلسلہ چل رہا تھا۔ بالٹی بھری ہوئی تھی اور بھاری۔ اُسے اٹھانے سے انگلیاں برف سی یخ ہوجاتی تھیں۔ اُسے رکھ دیتی، پھر اٹھاتی اور چلتی، بوجھ کے مارے جھکی ہوئی۔

سُن انگلیوں کو مُنھ پر رکھ کر گرم کرتے ہوئے وہ سسکیاں لے رہی تھی لیکن رو نہیں سکی۔ مالکن کا خوف اندھیرے، تنہائی، تھکن اور سردی کی تکلیف پر بھاری تھا۔

وہ اپنے دل میں کہہ رہی تھی ’’ایسے تو گھنٹے لگ جائیں گے اور وہ بُری طرح مارے گی۔‘‘ کچھ دیر ایک درخت کا سہارا لے کر اس نے پھر چلنا شروع کیا لیکن اب روتے ہوئے۔

پھر ایک دم جیسے بالٹی کا وزن ختم ہوگیا۔ ایک بہت بڑے ہاتھ نے بالٹی کو تھام لیا۔

لمحے بھر کو انصاری صاحب کو لگا ان کا سانس رک گیا۔

لڑکی نے سر اٹھا کر دیکھا__ ایک لمبا بڑی عمر کا آدمی تھی جس نے پیچھے سے آکر ایک طرح سے بالٹی اس کے ہاتھ سے لے لی تھی۔

’اب یہ لڑکی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے گا‘ حمید صاحب کے دماغ نے کہا۔

کوسیت نے اس آدمی کے پیچھے سے آنے کو نہیں سُنا تھا۔ اب وہ اس کے برابر میں تھا اور ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔

انصاری صاحب کو لگ رہا تھا دل کی دھڑکن رکی ہوئی ہے اور انہیں ہر طرف سنّاٹا سنائی دے رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا وہ اکیلے ہیں اور برابر کے کمرے میں نزہت بی بھی نہیں ہیں۔

کنگالوں جیسے لباس میں اس کے الٹے ہاتھ میں پُٹلیا تھی اور سیدھے میں لکڑی، اور تھا اجنبی جِسے کوسیت نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

’آخر وہ کیا چاہتا تھا؟ کچھ ہونے والا ہے‘ یہ الفاظ مصنف کے لکھے ہوئے نہیں تھے لیکن لگتا تھا اجنبی مرد کے اندھیرے اور تنہائی میں آکر اس لڑکی کے ہاتھ میں تھامی ہوئی بالٹی کو تھام لینے کے الفاظ کے درمیان اپنی جگہ بنائے بیٹھے تھے۔

وہ بچتا بچاتا کہیں سے آیا تھا اور جنگل میں سے گزرتے ہوئے اسے وہ چھوٹا سا سایہ نظر آیا تھا جو پاس پہنچنے پر ایک بچی میں بدل گیا تھا جو سسکیوں کے ساتھ بھاری بالٹی اٹھائے جنگل میں کہیں جارہی تھی۔ کبھی زمین پر رکھتی، انگلیوں کو پھونکوں سے گرم کرتی، کبھی اٹھا کر تھوڑی آگے بڑھتی۔

بڑی عمر کا آدمی آگے بڑھ کر کوسیت کے برابر میں آگیا۔

انصاری صاحب کا سانس اور دل دونوں رک گئے۔ اس کی توقع انہیں اتنے بڑے ادیب سے نہیں تھی۔ ایک معصوم کردار پیدا کرکے اس کا قتل! اُن کا جی چاہ رہا تھا نوول بند کرکے بستر پر دراز ہو جائیں۔

’’یہ تمہارے لیے بہت بھاری ہے‘‘ اجنبی نے کہا۔

’’جی ہے‘‘

’’مجھے دے دو، میں لے چلوں گا۔‘‘

چند لمحوں بعد جب بچی میں جان لوٹ آئی تھی اجنبی نے کہا: ’’بچی تم کتنی بڑی ہو؟‘‘

’’آٹھ سال کی‘‘

’’اور ایسے ہی بوجھ اٹھائے تم اتنی دور چل کر آئی ہو؟‘‘

’’جنگل میں، چشمے سے۔‘‘

’’اور اتنی ہی دور جانا ہے؟‘‘

’’کوئی پائو گھنٹہ یہاں سے۔‘‘

اجنبی کچھ دیر خاموش رہا۔

انصاری صاحب کے کان میں عورتوں کا وہ اَن گنت بار سُنا ہوا جُملہ گونج رہا تھا جو وہ گھر سے باہر جانے والی لڑکیوں، بچوں کے کان میں بٹھاتی ہیں: ’راستے میں کسی اجنبی سے بات نہیں کرنی ہے۔ نہ اس کے کسی سوال کا جواب دینا ہے۔ چاہے وہ کتنا ہی کہے میں تمہارے باپ کا دوست ہوں‘ اور کبھی اتنا اضافہ بھی کرنا پڑتا ہے: ’ایسے لوگ باتوں میں پُھسلا کر بچوں کو اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔‘ ان کا دل بے ترتیبی دے دھڑک رہا تھا۔ اب کیا ہونے والا ہے؟ وہی جو دن رات سننے، پڑھنے میں آتا ہے؟

پھر اجنبی نے اچانک پوچھا: ’’تمہاری ماں نہیں ہے؟‘‘

’’مجھے پتہ نہیں ہے‘‘ بچی نے کہا، پھر قبل اس کے کہ اجنبی کچھ کہتا اس نے کہا: ’’میرا خیال ہے نہیں۔ اور سب کی ہیں، لیکن میری کوئی نہیں۔‘‘

پھر اس نے لمحے بعد کہا: ’’میرا خیال ہے میری کبھی نہیں تھی۔‘‘

آدمی رک گیا۔ بالٹی اس نے زمین پر رکھ دی، جھکا اور ہاتھ اس نے بچی کے کندھوں پر رکھ دیئے۔

انصاری صاحب کی نگاہ میں آٹھ کا ہندسہ تیر رہا تھا: ’آٹھ سال کی لڑکی: اکیلے میں، رات کو! ۲ سال کی بھی کب محفوظ ہوتی ہے، اس سے آگے وہ نہیں سوچنا چاہتے تھے۔ ایک کردار جس سے انہیں لگائو ہوگیا تھا اس کا قتل دیکھنا ان کے بس سے باہر تھا۔

تھوڑی دیر بعد انہوں نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا__ سامنے کوسیت کے دبلے چھوٹے سے چہرے کا جیسے آسمان کی دھندلی روشنی میں خاکہ تھا۔

’’تمہارا نام کیا ہے‘‘

’’کوسیت‘‘

اجنبی کو جھٹکا سا لگا۔ اس نے دوبارہ بچی کو دیکھا پھر اس کے کندھوں پر سے ہاتھ اٹھا کر دوبارہ بالٹی اٹھائی اور چلنا شروع کیا۔

ایک چھن بعد اجنبی نے پوچھا ’’ننھی تم کہاں رہتی ہو‘‘ اور اس کا جواب سن کر کہا: ’’تمہیں کس نے رات میں اس گھڑی جنگل میں پانی بھرنے جانے کو کہا تھا؟‘‘

بچی نے مالکن کا نام بتایا۔ اس نے کہا: ’’وہ کرتی کیا ہے؟‘‘

’’وہ میری مالکن ہے۔ سرائے چلاتی ہے‘‘

’’سرائے؟‘‘ اجنبی نے حیرت سے کہا۔ ’’وہاں تو مجھے آج رات گزارنی ہے۔ مجھے راستہ بتاتی جائو۔‘‘

’’ہم وہیں جارہے ہیں‘‘ بچی نے کہا۔

اب وہ تیزی سے چل رہا تھا اور کوسیت اس کے پیچھے پیچھے۔ اطمینان اور اعتماد سے۔ کبھی کبھی وہ سر اٹھا کر اس کے چہرے کو دیکھ لیتی تھی۔ اُسے کبھی پروردگار اور عبادت کے بارے میں کچھ نہیں سکھایا گیا تھا لیکن اس وقت جو وہ اپنے دل میں پارہی تھی وہ امید اور خوشی سے مملو تھا اور فلک کو جارہا تھا۔

عبدالحمید انصاری صاحب نے کتاب اپنی رانوں پر رکھ دی جیسے بوجھل ہوگئی ہو اور ان کے ہاتھ تھکن سے پست۔ آنکھیں بند کرکے کرسی پر پیچھے ٹیک لگائی۔ جذبات کی یورش نے انہیں تھکا مارا تھا۔ اور اب جا کر آرام ملا تھا۔ سارے جسم پر پسینہ تھا، لیکن وہ اب کاٹ نہیں رہا تھا۔

وہ اٹھے اور اس ٹھنڈ میں ریفریجریٹر سے لے کر چار چھ گھونٹ ٹھنڈے پانی کے پیئے۔

صبح ناشتہ کرتے ہوئے معمول کے خلاف انہوں نے رات جو پڑھا تھا اس کا ذکر بیوی سے نہیں کیا نہ ہمیشہ کی طرح نزہت بی نے پوچھا: ’’رات کیا پڑھا تھا؟‘‘

اخبار لینا دونوں نے عرصہ سے بند کررکھا تھا کہ ملک یا شہر میں کل کی کسی بات پر گفتگو شروع نہ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).