تبدیلی جمہوریت کے ذریعے آئے گی


آج ہم ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جو گیارہ ستمبر 2011 کے دلخراش واقعے کے بعد سیاسی بحران اور تہذیبی انحطاط میں‌ دھنستی چلی جارہی ہے۔ ہم نے اپنے سامنے فلسطین میں‌ 2003 میں‌ امن کے معاہدے کو ختم ہوتے دیکھا۔ ہم نے اپنے سامنے افغانستان کو جنگ کے میدان میں‌ بدلتے دیکھا جہاں‌ روس اور امریکہ نے سرد جنگ کے دوران پراکسی جنگ لڑی۔ اس دوران ہم نے طالبان کی ظالم حکومت دیکھی۔ افغانستان میں‌ بیرونی دراندازی کی وجہ افغان خواتین کو آزادی اور خودمختاری دلانا بتائی گئی۔ ہم نے عراق میں‌ جارحانہ دراندازی کا مشاہدہ کیا جس میں‌ صدام حسین جیسے ڈکٹیٹر کو پھانسی دی گئی جو کسی وقت میں‌ امریکہ کا حلیف تھا۔ ہم نے مغربی ایشیا، جنوب مغربی ایشیا اور مڈل ایسٹ میں‌ غیر ذمہ دارانہ حکومت کی تبدیلیاں‌ دیکھیں جن کے مستقبل پر اثرات کے بارے میں‌ زیادہ سوچ بچار نہیں‌ کی گئی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح‌ افغانستان اور عراق میں‌ بٹھائی گئی حکومتوں‌ سے ان ملکوں‌ کے عوام کی حالت بدتر ہوئی۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح شمالی اور مغربی عراق اور مشرقی شام میں‌ خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح‌ ان جارحانہ تنظیموں کی اسلام کی قابل مذمت تشریح سے نہ صرف اقلیتوں‌ بلکہ ان کے ہم مذہب افراد پر ظلم ڈھائے گئے ہیں۔ ہم نے افغانستان میں‌ طالبان کی تنگ نظر سماجی سیاست دیکھی ہے۔ ہم نے انڈیا میں‌ ہندویتا کی تحریک دیکھی ہے۔ یہ تمام واقعات سیاسی جلد بازی کا نتیجہ ہیں جن سے ان علاقوں‌ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ آج کی پیچیدہ دنیا میں‌ مختلف تواریخ، تہازیب اور انفرادی تجربات کو اکٹھا کرکے ایک نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔

میں‌ اس بات پر زور دینا چاہتی ہوں‌ کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم کسی ایک علاقے یا کسی ایک مذہب کو بلکل یکساں‌ تصور نہ کریں۔ تہذیب ایک مختلف تجربات کا مجموعہ ہوتی ہے جس کو مرکز کا حصہ بنانے کی کوشش کرنے والے ادارے نظرانداز کرتے ہیں۔ مسلمان ممالک کے عوام اپنے اپنے علاقوں کی تاریخ، تہذیب، تکثیریت اور اندرونی تنازعات میں‌ گھرے ہیں، ان کا مغربی ممالک سے خود اپنا انفرادی تعلق ہے، ان کی مذہبی قوانین کی تشریحات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ان مملک کے سماجی ڈھانچوں میں‌ مرد اور خواتین کے کردار بھی علاقائی ہیں۔

آج کے عالمی تاریخی اور تہذیبی موڑ پر، ناقدین اور حامی مسلمانوں‌ کی جانب سے بات کرتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ دانش مند مسلمان مرد اور خواتین خاموش رہتے ہیں۔ یہ وقت کی اشد ضرورت ہے خاص طور پر امریکہ میں‌ کہ مسلمان خواتین اور مردوں‌ کی اپنی لکھائی ان کے اپنے الفاظ میں پڑھی جائے۔ وہ خود بتائیں‌ کہ ان کے عقائد کیا ہیں اور مذہب کس طرح ان کی زندگی کا، ان کے سیاسی فیصلوں کا اور آدرشوں کا حصہ ہے؟ ان لکھاریوں‌ کے لیے یہ اہم ہے کہ جب وہ اپنے منفرد علاقائی اور تہذیبی ورثے اور مغرب پر بات کریں تو بوسیدہ مشرقی دیومالائی داستانیں ڈھادیں۔ مسلمانوں‌ کے بارے میں‌ مغربی تصور اور مشرق کے رومانوی خیالات کے درمیان توازن ضروری ہے۔

دنیا میں‌ ایک اعشاریہ چھ بلین افراد مسلمان ہیں۔ کوئی بھی ایک ملک یا کوئی ایک تہذیب مسلمانوں کے عقائد یا زندگی کی نمائندہ نہیں‌ ہے۔ “خواتین اور اسلام” کے موضوع پر میں‌ جو کلاس پڑھاتی ہوں، اس میں‌ میں‌ اپنے اسٹوڈنٹس کو یہ یاد دہانی کراتی ہوں‌ کہ تمام عرب مسلمان نہیں‌ ہیں‌ اور تمام مسلمان عرب نہیں‌ ہیں۔ باشعور شہری مسلمان مرد اور خواتین کی زندگیوں‌ کا وسیع تہازیب کے پس منظر میں‌ موازنہ کریں‌ گے۔ خاص طور پر یہ شہری ان مسائل کی جانب متوجہ ہوں‌ گے جو بین الاقوامی سطح پر اہمیت کے حامل ہیں جیسا کہ انسانی حقوق، شہریت، ہجرت اور ترقی یافتہ مغربی دنیا کی اندرونی سیاست۔ اگر مسلمان دنیا تاریخ پر زیادہ دھیان دے تو شائد تاریخ خود کو اس طرح‌ بار بار نہ دھرائے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودی مہاجرین کو امریکہ میں‌ داخل ہونے سے روکا جارہا تھا اور آج وہی سب کچھ مسلمان ممالک سے آئے مہاجرین کے ساتھ ہو رہا ہے۔ عالمی برادری ایک نئی پستی میں‌ گرچکی ہے۔ اس طرح سے دنیا بھر کے مختلف افراد کو تعصب سے ایک ہی نظر سے دیکھنے سے ان کی انفرادی شخصیتوں، مختلف سماجوں اور ایک تہذیب سے دوسری تہذیب کے درمیان قوانین اور مذہب کی تشریح کے درمیان فرق کوسمجھا نہیں‌ جاسکتا ہے۔ اس طرح کی متعصب سوچ اور سیاست سے تہذیبی اور مذہبی شدت پسندی کے رجحان میں‌ اضافہ ہوتا ہے۔ میں‌ دیکھ رہی ہوں کہ آج کی تاریخ‌ میں‌ امریکہ میں‌ مختلف تہازیب، نسلوں اور زبانوں‌ پر مشتمل ایک قوم کے تصور کو اس طرح‌ دیکھا جارہا ہے جیسے وہ کوئی دیومالائی داستان ہو۔ مہاجرین کو ایک بیرونی عنصر کے طور پر دیکھاجارہا ہے جس سے اختلاف کھڑے کر کے اندرونی قومی شناخت مضبوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گزشتہ سویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کے بعد، ایک یکساں عالمی اسلام کی تشریح نے کمیونزم کے پرانے دشمن کی جگہ لی ہے۔

آج کی عالمی معیشت کے دور میں‌ اس بات کا تصور بھی ناممکن ہونا چاہئیے کہ دانشورانہ اور اخلاقی سیاست کو ٹھکرا دیا جائے۔ ایسی سیاست جو امریکہ جیسے تکثیری معاشرے میں‌ تہذیبی تنگ نظری کو ہوا دے، ملکی وجود اور سلامتی کو نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی نقشے پر خطرے میں‌ ڈالتی ہے۔

سولہویں امریکی صدر ابراہام لنکن کے مطابق جمہوریت کی تعریف یہ ہے کہ، “یہ عوام کی حکومت ہے جس کو عوام کے لیے عوام خود چلاتے ہیں۔” ایک ایسی حکومت جسے مالدار ادارے اقلیتی دھڑوں جن میں‌ مسلمان اور غیر مسلمان اور مہاجرین شامل ہیں کے استحصال کے ساتھ ذاتی مفاد کے لیے چلا رہے ہوں، میں بہتری کی گنجائش ہے۔

ترجمہ: ڈاکٹر لبنیٰ مرزا

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan