نہال ہاشمی، باز آ جاﺅ


نہال ہاشمی، باز آ جاﺅ۔ نہال ہاشمی، خدارا، باز آ جاﺅ۔ پولیس کے حصار میں قید نہال ہاشمی، باز آجاؤ۔ مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے نہال ہاشمی، باز آجاؤ۔ پابند سلاسل نہال ہاشمی، باز آ جاؤ۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑے نہال ہاشمی، باز آ جاؤ۔ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے نہال ہاشمی ، باز آجاؤ۔ یہ وہ ملک نہیں ہے جہاں جمہوریت کی بات کی جائے۔ یہ وہ دیس نہیں ہے جہاں ووٹ کی تقدیس کا نعرہ لگایا جائے۔ یہ وہ سماج نہیں جہاں عوام کے حق حاکمیت کا علم بلند کیا جائے۔ یہ وہ علاقہ نہیں جہاں سچائی کی تحسین ہو۔ یہ وہ معاشرہ نہیں جہاں وفاداری قابل عزت ہو۔ یہ وہ ملک نہیں جہاں کبھی آمروں کے تاج اچھالے اور تخت گرائے جائیں گے۔ یہ وہ مملکت نہیں جہاں کبھی بھی ر اج کرے گی خلق خدا۔ یہاں انصاف کے اپنے معیار ہیں۔ یہاں انصاف کے ماتھے پر پٹی ہی نہیں، انصاف کے دل میں بھی سنگ دھرا ہے۔ ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے تم نے معافی مانگ لی۔ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے تم نے تین دفعہ اپنا گناہ قبول کیا۔ ہر بار تمہاری معافی کی درخواست رعونت سے روند دی گئی۔ تمہارا جرم عظیم ہے۔ تم وقت کے فرعون سے ٹکرانا چاہتے تھے۔ تم حالات کو بدلنا چاہتے تھے۔ تم اس ملک کی تاریخ دوبارہ لکھنا چاہتے تھے۔ یہ گناہ عظیم ہے۔ یہ جرم سب سے بڑھ کر ہے۔ اس جرم پر کوئی معافی نہیں۔ اس خطا کی کوئی تلافی نہیں۔ تم نے انصاف کے ایوانوں کی توہین کی ہے۔ جو کہ قابل معافی نہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں توہین کے بھی اپنے اپنے معیار ہیں۔ یہاں پی سی او کے تحت حلف لینا جرم نہیں۔ یہاں آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنا جرم نہیں۔ یہاں سیاست دانوں کی تضحیک جرم نہیں۔ یہاں اسمبلی کی توہین جرم نہیں۔ یہاں عدالت عالیہ کی دیواروں پر گیلی شلواروں کو سکھانا جرم نہیں۔ یہاں چیف جسٹس کو ایک حکم پر برخاست کرنا جرم نہیں۔ یہاں چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹنا جرم نہیں۔ یہاں آئین کو قدموں تلے روندنا جرم نہیں۔ یہاں عدلیہ کو شیم فل عدلیہ کہنا جرم نہیں۔ یہاں خادم رضوی کی طرح عدالت کو سرعام گالیاں دینا توہین عدالت نہیں۔ ہاں البتہ یہاں ووٹ کی حرمت کی بات جرم ہے۔ یہاں جمہوریت کے حق میں بات کرنا جرم ہے۔ یہاں پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ جرم ہے۔ یہاں ڈکٹیٹروں کے خلاف تقریر جرم ہے۔ یہاں بے انصافی پر شکایت جرم ہے۔ یہاں درد کے مارے چیخنا جرم ہے۔ یہاں رنج کے مارے ماتم کرنا جرم ہے۔ یہاں حق گوئی جرم ہے۔ یہاں سچائی جرم ہے۔ یہاں گویائی جرم ہے اور نہال ہاشمی تم ان سب جرائم میں ملوث ہو۔ خود بھی باز آجاﺅ اور مریم نواز، مشاہد اللہ، پرویز رشید، رضا ربانی، جاوید ہاشمی، سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ کو بھی یہ پیغام سنا دو۔ باز آجاﺅ، خدارا باز آ جاﺅ۔

احمد نوارنی، عمر چیمہ، امتیاز عالم ، مطیع اللہ جان، ماروی سرمد اور تم جیسے کئی صحافیو۔ میرا تم کو یہی مشورہ ہے کہ باز آ جاﺅ۔ خدار باز آجاﺅ۔ یہاں صحافت اس کا نام نہیں جو تم کرتے ہو۔ یہاں جابر سلطان کے سامنے حق گوئی صحافت نہیں۔ یہاں خبر کی پرکھ اور تحقیق صحافت نہیں۔ یہاں حق گوئی صحافت نہیں۔ یہاں سچ بولنا صحافت نہیں۔ یہاں پارلیمینٹ کی توقیر صحافت نہیں۔ یہاں جمہوری اقدار کی پاسبانی صحافت نہیں۔ اس سماج میں مصلحت ، صحافت کہلاتی ہے۔ اس معاشرے میں آمروں کے سامنے سرنگوں ہو جانا صحافت کہلاتا ہے۔ یہاں وٹس ایپ کی گھنٹی صحافت ہے۔ یہاں ڈکٹیٹروں کی خوشامد صحافت کہلاتی ہے۔ یہاں لٹیروں کی طرف داری صحافت کہلاتی ہے۔ یہاں سکرین پر جھوٹ بولنا صحافت کہلاتا ہے۔ یہاں قیامت کے آثار بتانا صحافت کہلاتا ہے۔ یہاں غربت کی تشہیر صحافت ہے۔ یہاں پگڑیاں اچھالنا صحافت ہے۔ یہاں شکریئے کی مہم چلانا صحافت ہے۔ یہاں پلاٹ لینا صحافت ہے۔ یہاں بلیک میل کرنا صحافت ہے۔ یہاں سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر چیف جسٹس سے پوچھنا کہ آپ کیوں ہسپتالوں کے چکر لگاتے ہیں، صحافت کے زمرے میں آتا ہے اور تماشا یہ ہے کہ اسے توہین نہیں کہا جا تا۔ اسے عدلیہ کی تضحیک نہیں کہا جاتا۔

یہ وہ سماج ہے جہاں ایک مفرور ڈکٹیٹر ٹی وی پر آکر سینہ چوڑا کر کے کہتا ہے کہ مجھے راحیل شریف نے عدلیہ پر دباﺅ ڈال کر ملک سے فرار ہونے میں مدد دی اور اس پر توہین عدالت کا کوئی نوٹس نہیں آتا۔ پینتیس سال ڈکٹیٹروں نے اس ملک کے آئین کو پامال کیا۔ اس ملک کے خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ اس ملک کے عوامی اداروں پر بوٹوں کے ساتھ چڑھائی کی مگر توہین کا کوئی نوٹس نہیں آیا۔ اس ملک کے کسی ڈکٹیٹر کو کبھی سزا نہیں ہوئی۔ اس ملک میں مارشل کے خلاف کبھی عدالت سرگرم نہیں کوئی۔ انصاف اتنا بے بس رہا ہے کہ یہاں کوئی بھی آمر ایک رات بھی جیل نہیں گذار سکا۔ یہاں انصاف نے ہمیشہ آمروں کے ہاتھ مضبوط کیے۔ کبھی پی سی او کے تحت حلف لئے گئے۔ کبھی ڈکٹیٹروں کی خوشنودی کے لیئے جمہوری حکمرانوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ کبھی وطن بد رکر دیا گیا۔ کبھی کرپشن کے الزام لگائے گئے۔ کبھی من پسند لوگوں کی جے آئی ٹی بنا دی گئی۔ کبھی تیس سیکنڈ کے لئے توہین عدالت لگا کر کھڑے کھڑے فارغ کر دیا گیا۔ جمہوریت کش عدلیہ کی یہ ریت پرانی ہے۔ کبھی سیاستدانوں کو ہر تاریخ پر عدالتوں میں رگیدا گیا۔ یہاں کبھی انصاف نے اپنے احتساب کی جرات نہیں کی۔ پاناما میں جس وزیر اعظم کا نام تک نہیں تھا ،جس کو کروڑوں لوگوں نے اپنے ووٹ سے منتخب کیا تھا، جس کے جلسوں میں نعرے لگے تھے، اس وزیر اعظم کو کھڑے کھڑے فارغ کر دیا گیا۔ اس پاناما میں چار سو پچاس لوگ اور بھی تھے انصاف کی دسترس کبھی ان تک نہیں ہوئی۔ اس لسٹ میں ایک جج کا بھی نام تھا، اس کی صفائی کبھی طلب نہیں کی گئی۔ اس کو کبھی سزا نہیں سنائی گئی۔ اس کو کبھی نااہل نہیں کیا گیا۔

نہال ہاشمی، جمہوریت پسند سیاستدانو اور حق گو صحافیو۔ باز آجاﺅ۔ خدارا باز آجاﺅ۔ ستر سال بیت گئے اس ملک میں انصاف نہیں ہوا۔ ستر سال ہو گئے اس ملک میں جمہوریت نہیں آئی۔ ستر سال ہو گئے عوام کی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہوا۔ جو جمہوری دور بظاہر آئے وہ بھی آمریت کے سائے تلے سسکتے رہے۔ بلکتے رہے۔ ان ستر سالوں میں اس ملک کے عوام اشرافیہ کو شکست نہیں دے سکے۔ ان ستر سالوں میں ایک بھی فتح اس ملک کے عوام کے نام نہ ہو سکی۔ ان ستر سالوں میں پارلیمنٹ سپریم نہیں ہو سکی۔ تم چند لوگ وہ سب کچھ نہیں کر سکتے جو اس ملک میں کبھی بھی ہوا نہیں۔ جو اس ملک کی ریت نہیں ہے، جو اس ملک کا رواج نہیں، جو اس سماج کا مزاج نہیں۔

اس گھپ اندھیرے میں اب روشنی کی ایک ہی کرن ہے۔ اس تاریکی میں نور کا ایک ہی دیا ہے اور وہ اس ملک کے عوام ہیں۔ اب سب کچھ ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اب کمال انہوں نے کرنا ہے۔ اب جلال ان پر قرض ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ اب عوام وہ کر رہے ہیں جو ان کی دسترس میں ہے۔ اشرافیہ کی ہر مہم پہلی دفعہ نیست و نابود ہو رہی ہے۔ نہال ہاشمی قید تو ہو رہا لیکن نہال ہاشمی ہیرو بھی بن رہا ہے۔ کل تک جو اس کا نام تک نہیں جانتے تھے آج اس کے نام کے نعرے لگا رہے ہیں۔ کل تک جو نواز شریف سے منفور تھے اب جوق در جوق اس کے جلسوں میں جا رہے ہیں۔ نواز شریف کو ہر ضمنی انتخاب یہی عوام جتا رہے ہیں۔ اس سے گمان ہو رہا ہے کہ پہلی بار جبر کی زنجیر ٹوٹ جائے گی۔ اس سے خیال آتا ہے پہلی بار اشرافیہ شکست کھائے گی۔ اس سے توقع ہوتی ہے کہ شاید اب اس ملک میں جمہوریت پھل پھول پائے گی اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو تو نہال ہاشمی، میرا مشورہ ہے باز آجاﺅ۔ خدارا باز آجاﺅ۔

فقیہ شہر بولا بادشاہ سے

بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا

اسے مصلوب کرنا ہی پڑے گا

کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar