کاری ہونے والی سندھی لڑکی اور میر ہزار خان بجارانی


پیپلز پارٹی کے ایک ویٹرن رہنما اور سندھ کے صوبائی میر ہزار خان بجارانی نے اپنی دوسری اہلیہ کو قتل کرکے خود کشی کر لی، یہ پولیس کا موقف ہے مگر ان کے فرزند جو خود بھی رکن اسمبلی ہیں، اس سانحے کو قتل قرار دے رہے ہیں اور اس کے پیچھے کسی گہری سازش کا شبہ ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کو اپنی رائے دینے کا پورا حق ہے۔

ویسے تو بڑا سادہ سا معاملہ ہے۔ کمرہ اندر سے بند تھا۔ ملازم رخصت ہو چکے تھے۔ بیرونی دروازے پر پولیس گارد تعینات تھی۔ ملازمین کے مطابق میاں بیوی کے درمیان چپقلش تھی۔ وہ انگریزی زبان میں جھگڑا کرتے تھے جو ملازم سمجھ نہیں سکتے تھے۔ فائرنگ کے بعد پولیس گارد جیسا کہ انہیں گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، معاملہ دیکھنے جا نہیں سکتے تھے۔ میر صاحب کے بچوں نے آ کر دروازہ توڑا۔ خاتون کو پیٹ میں دو اور سر میں ایک گولی لگی ہوئی تھی اور لاش گری پڑی تھی۔ میر صاحب کے سر میں نزدیک سے گولی لگی تھی جو دوسری طرف سے نکل گئی تھی۔ ان کی لاش صوفے پر بیٹھی ہوئی حالت میں تھی۔ تھرٹی ایم ایم کا پستول ملا جس کی پانچ گولیاں چل چکی تھیں، خول بھی ملے۔ ایک وار خالی گیا تھا اور ایک گولی چیمبر میں تھی۔ جھگڑا تھا، طیش کے عالم میں بیوی پر گولی چلا دی، وہ زخمی ہو گئی، معاملہ بگڑ گیا، تو چشم زدن میں سوچا معاملہ تمام کر دو۔ اسے تو مار دیا، اوہ اب کیا کیا جائے؟ طیش کی انتہا اداسی اور مایوسی ہوتی ہے جس کے سبب معاملہ بالکل ہی تمام کرنا اضطراری فیصلہ رہا۔ یوں یہ سیدھی سی سانحہ جاتی کہانی ہے۔

تحقیق تو ہونی ہی چاہیے۔ کیا قانونی طور پر ہر معاملے کی تحقیق نہیں کی جاتی؟ نہیں کی جاتی نا تبھی تو ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ معاملے کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے۔ ویسے ایسا کہنا بس کہنا ہی رہ گیا ہے۔ وہ حقیقی قتل جو سب کی نگاہوں میں قتل ہیں، ان کی کونسی تحقیق ہوئی۔ حسن ناصر اور نذیر عباسی کا قتل، پھر صحافی سلیم شہزاد کا قتل جس کے بارے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی حیران ہیں کہ تفتیش و تحقیق کہاں گئی۔ سیاسی قتال کے علاوہ راؤ انوار کے ہاتھوں مبینہ طور پر نشانہ بننے والے 444 افراد سے لے کر ذوالفقار چیمہ کے حکم پر مبینہ طور پر ٹھکانے لگائے گئے بدمعاشوں، جن کا وہ اخبار میں اپنے مضامین میں اعتراف کر چکے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے ہزاروں افراد کے بارے میں کبھی تحقیق کی گئی۔ اگر کبھی بددلی سے کسی ایک قتل سے متعلق تحقیق کی بھی گئی تو فائل داخل دفتر کر دی گئی۔ تحقیق و تفتیش تو ان ملکوں میں ہوتی ہے جہاں قانون کی بالا دستی ہو اور سبھی کو انصاف ملتا ہو۔ ایسا نہیں ہے نا تو خود کشی پر بھی قتل کا شبہ کیا جا سکتا ہے اور قتل کو بھی خود کشی بنایا جا سکتا ہے۔

معروف رپورٹر اور تجزیہ کار عثمان غازی نے لکھا ” شنید ہے کہ کسی نے کاروکاری کے حوالے سے میروں کے اس سردار سے جب سوال پوچھا تو اس نے کہا کہ شہر کی عورت سنگ مرمر کی طرح ہوتی ہے، میلی ہوجائے تو پانی بہانے سے سنگ مرمر صاف ہوجاتا ہے مگر دیہی عورت کچی مٹی سے گندھی ہوتی ہے، میلی ہونے کی صورت میں اسے صاف کرنے کے لئے بہانا پڑتا ہے (یعنی ختم کرنا پڑتا ہے)”۔

نامور ادیب پروفیسر انوار احمد نے لکھا،” کسی کی بھی وفات افسوس ناک ہے مگر انہی کی صدارت میں ایک جرگہ ہوا تھا جس میں “کاری”قرار دی جانے والی لڑکی کو ٹریکٹر ٹرالی کے پھل سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا۔”

نجیبہ عارف صاحبہ نے اپنی نظم ” رسالت مآب کے حضور” کی یاد دلائی:

 ( 2008 میں کاروکاری کا الزام لگا کر ٹریکٹر سے کچلنے کے بعد زندہ دفن کی جانے والی سندھی لڑکی کے نام )

  حضور!

  میرے بدن کی گٹھڑی

 یہ میرے زندہ بدن کے ٹکڑوں کی

 ایک گٹھڑی

 یہاں دھری ہے

 اسے بھی دیکھیں!!

 لہو کی گردش تھی ان رگوں میں

 یہ دل دھڑکتا تھا دھیرے دھیرے

 نسیں پھڑکتی تھیں

 درد ہوتا تھا

 جان کھنچتی تھی ریشے ریشے سے

 دل لرزتا تھا

 بھاری بوٹوں کی چوٹ کھا کر بدن دریدہ تھا

 کان سنتے تھے حرف دشنام

  آنکھ ان سے سوال کرتی تھی

  میری آنکھوں کو کون تکتا

  برس رہے تھے، چہار جانب

  اذیتوں کے، حقارتوں کے

  نکیلے پتھر

  بدن سے بہتا تھا خون لیکن

  خراشیں جتنی بھی روح پر تھیں

  وہ بے زباں تھیں

  لبوں پہ چیخیں بھی جم گئی تھیں

  وہ چند لمحے تھے کتنے بھاری

  زمیں کی گردش بھی تھم گئی تھی

  نجانے شب تھی کہ دن چڑھا تھا

  مجھے تو کچھ بھی خبر نہیں تھی

  کہاں تھی میں

  وہ مقام کیا تھا

  ملائکہ کا وہاں سے شاید گذر نہیں تھا!!!

  حضور میں نے بہت پکارا تھا

  اپنے خالق کو

  اس مصور کو

  جس نے میرا خیال باندھا تھا

  نقش کھینچا تھا،

  رنگ ڈالے تھے

  خوشبووں میں بسا کے پیکر میرا اتارا تھا

  میرا پیکر

  جو سانس لیتا تھا

  اس گھڑی بھی،

  زبان خنجر نے جب کریدے تھے زخم سارے

  وہ ڈالے جاتے تھے خاک مجھ پر،

  میں چپکے چپکے یہ سوچتی تھی،

  حضور نے تو کہا تھا،

  “لوگو!۔۔۔۔۔”

میر ہزار خان بجارانی اس بہیمانہ فیصلے میں شامل تھے یا نہیں، ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایسے معاملات کبھی رجسٹر نہیں ہوتے۔ ہمارا مقصد دنیا سے اٹھ جانے والے پر کیچڑ اچھالنا بھی نہیں ہے بس اتنا سوچنا ہے کہ فیوڈل ولایت سے تعلیم پانے کے بعد بھی فیوڈل کیوں رہتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایسا سوال کیا جانا ہی حماقت ہے۔ ولایت میں تعلیم حاصل کرنا کوئی ماہیت قلبی کا عمل نہیں ہوتا۔ پھر چند سال جمہوری معاشروں میں رہ کر آپ جمہوریت سے وابستہ اپنے مفادات ہی سمجھ سکتے ہیں۔ دوسروں کے مفادات سے صرف نظر کیا جانا آسان ہوتا ہے۔ جب آپ ولایت سے لوٹتے ہیں تو آپ کا پورا ماحول فیوڈل ہوتا ہے۔ آپ سائیں ہوتے ہیں اور لوگ رعیت۔ آپ کا طرز زندگی مختلف ہوتا ہے اور لوگ خاک نشین۔ ایرکنڈیشند نئی مہنگی کار میں بیٹھ کر باہر والے فلم کی سکرین پر موجود لوگ دکھائی دیتے ہیں، بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہوتے ہیں۔ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو آپ کو کار رکوانی نہیں پڑتی اور اترنا تو ظاہر ہے، پڑتا ہی نہیں۔ فون کرنا ہوتا ہے اور آپ کے ذاتی و سرکاری کارندے اس شخص کو سبق سکھانے یا نشان عبرت بنانے کو تیار ہوتے ہیں۔

ملک کا نظام آج بھی فیوڈل ہے۔ اسمبلیوں میں وہی لوگ جاتے ہیں جن کے ویسے ہی ٹھاٹھ ہوں۔ نواز شریف اور جہانگیر ترین جیسے سرمایہ دار تو معدودے چند ہیں، زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی بہت زیادہ زمین ہے۔ اگر زمین کم بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا، ہمارے ملک کے سرمایہ دار بھی اپنے مزاج میں فیوڈل ہوتے ہیں۔ پولیس۔ پٹواری سے کام لینا جانتے ہیں۔ باقی تو عام لوگ ہوتے ہیں۔

ہاں البتہ کبھی کبھار، فیوڈل بھی خود کشی کر سکتا ہے مگر وہ بھی پہلے کسی کو مار کر کے۔ عمر اصغر خان تو نہیں کہ خود کشی ہو اور وجہ بھی معلوم نہ ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).