ترقی کا راستہ کیسے اپنائیں؟


پاکستان میں سماجی تاریخ کے دو محققین کو پڑھا بہت ہی کم گیا ہے مگر ان پر بات بہت ہی زیادہ کی گئی ہے۔ ایک سیمویل ہنٹنگٹن صاحب ، ان کی کتاب تہذیبوں کا تصادم (Clash of Civilization ) کو لے کر۔حالانکہ اس کتاب کو اگر تفصیل سے پڑھا جائے تو ان کا مقدمہ اتنا واضح ہے کہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی کتاب جسے میں انتہائی اہم اور انتہائی خوبصورت کتاب سمجھتا ہوں وہ Political Order in Changing Societies ہے۔ میری رائے میں اس کے بغیر سماجیات کے علوم کا لٹریچر ریویو نامکمل ہے۔ دوسرے صاحب فرانسس فوکو یاما ہیں۔ ان کی کتاب جسے عموما غلط بیان کیا گیا ہے پاکستان میں وہ ہے تاریخ کا خاتمہ (End of History )۔ یہ کتاب بھی سیاسی اور معاشی مکالمہ کا شاہکار ہے۔ مگر فوکو یاما کا سب سے بہترین اور تحقیقی کام میری نظر میں ان کی کتاب سیاسی نظم اور سیاسی تباہی ( Polical Order and Political Decay ) ہے –

یہ دو صاحبان مثالیں ہیں کہ ہمارا علمی مکالمہ کتنا ناپختہ اور عہد حاضر سے کتنا دور ہے۔ میں نے ایک پاکستانی یونیورسٹی میں ایک شعبہ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سے ان دونوں کے بارے میں جب بات کی تو فرمایا گیا کہ یہ دونوں سی ائی اے کے ایجنٹ تھے۔ ہنٹنگٹن صاحب سے آخری دنوں میں پوچھا گیا تھا کہ کیا مغربی تہذیب اور دیگر تہذیبوں بالخصوص مسلم و کنفیوشس تہذیب میں ٹکراؤ ممکن ہے؟ انہوں نے جواب دیا تھا کہ ٹکراؤ تو موجود ہے اور آپ سب دیکھ سکتے ہیں۔ پوچھا گیا تھا کہ اس کا مستقبل کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ دنیا جلد ہی گلوبل وارمنگ کے مسئلے سے نمٹنے جا رہی ہے ، یوں یہ وقتی مزاحمت جلد ہی ختم ہو جا رہی ہے۔

آج ہم اسی عہد میں ہیں۔ اس وقت کے تین بڑے مسائل ہیں جن پر دانشوروں کے عالمی فورمز میں خوب بات چیت ہو رہی ہے۔ (الف ): گلوبل وارمنگ

(ب): آرٹیفیشل انٹیلی جنس

(ج) روبوٹک ٹیکنالوجی

پاپولزم کی سیاست اور معیشت میں یہ تینوں عنوانات ہمارے ہاں اجنبی ہیں حالانکہ پہلے اور تیسرے کا اس وقت بھی ہمیں سامنا ہے مگر ہم آنکھیں موندے پڑے ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور روبوٹک ٹیکنالوجی کے فوائد اور اس کے ہماری معیشت پر اثرات کو ہم نظرانداز کر رہے ہیں مگر جلد ہی اس کے چیلنجز ہمیں بری طرح متاثر کرنے والے ہیں۔ جن ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ہم نفرت کرتے ہیں، زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ واپس مغربی ممالک میں اپنے پیداواری یونٹ منتقل کر دیں گی۔ پھر ہمارے دانشوروں کی مراد بھی پوری ہو جائے گی کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں جو ان کے بقول ہمارے وسائل پر قابض ہیں سے جان چھوٹ جائے گی مگر اس سے غریب اور ترقی پزیر ممالک کی معیشت کو کتنا نقصان پہنچے گا وہ بہت زیادہ فکرمندی کی بات ہے۔

اسی طرح تھری ڈی (3D) پرنٹنگ مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں ایسا انقلاب لا رہا ہے کہ دیکھ کر عقل دنگ ہو جاتی ہے۔ جو کام مہینوں کی مہارت سے مکمل ہوتا تھا وہ تین گھنٹوں میں اور وہ بھی سو فیصد مہارت کے ساتھ مکمل ہو جاتا ہے۔ ان مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے تین سطح پر منصوبہ بندی اشد ضروری ہے۔ ایک یہ کہ ہمیں اپنے دانشورانہ مکالمہ کو بہت سنجیدہ ذہین اور جدید تعلیم یافتہ بنانا ہو گا۔ جدید تعلیم اور جدید فکر کے ساتھ۔ یہ کرنے کا اول کام ہماری جامعات یعنی یونیورسٹیوں کا ہے۔ اور بدقسمتی سے وہاں جو حال ہے بندہ توبہ توبہ کر کے بھاگ جائے۔ میں نے گزشتہ چار پانچ سال میں یونیورسٹیز کے اساتذہ سے جتنا مکالمہ کیا ہے مجھے مایوسی ہی ہوئی ہے۔ مگر اصلاح احوال کا راستہ یہیں سے کھلنا ہے۔ علم کی معیشت میں علم ہی سب سے بڑی طاقت اور سرمایہ ہے۔ دوم: ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اپنی شرح خواندگی سو فیصد کرنی ہو گی اور تعلیم کو انڈسٹریز کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ سوم: پاکستان میں صنعتی معیشت اور تمدن اشد ضروری ہے وگرنہ اوپر والی دونوں تدابیر بھی کارگر نہیں۔ صنعتکاری کے بغیر کوئی بھی معیشت گزشتہ تین صدیوں سے ترقی یافتہ نہیں بن سکی۔ معاشی ترقی کا واحد راستہ یہی ہے۔

ہمیں مولانا عبیداللہ سندھی نے قیام پاکستان سے قبل ہی یہ سمجھایا تھا کہ “ہمیں صنعتی تمدن جذب کر لینا چاہئے” مگر ہم نے ایسی باتوں پر کبھی دھیان نہیں دیا۔ چوتھا صنعتی انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ آہستہ آہستہ پھیل رہا ہے۔ دو ہزار تیس تک اس کا دنیا پر راج ہو گا۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہوں گے وگرنہ آہ و زاری اب کی بار زیادہ بلند اور دردناک ہو گی۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan