پہلی منزل پر لیے گئے معذورافراد کے انٹرویو


سندھ میں جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے سرکاری نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ مخصص ہے۔ اس کوٹہ سسٹم پرمکمل عمل تو نہیں ہوتا مگر ان افراد کو جا بجا تماشا بنا کران کی تذلیل ضرورکی جاتی ہے۔

ایک روز قبل جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے رکھے گئے کوٹہ کے حساب سے سرکاری اسامیاں پُر کر نے کے لیے امیدواروں کوانٹرویو کے لیے ڈپٹی کمشنر آفیس حیدرآباد میں بلوایا گیا۔ اس موقع پر انتہائی دکھی صورتحال پیدا ہو گئی جب معذورافراد کو انٹرویو دینے کے لیے پہلی منزل پر آنا پڑا۔ 26 اسامیوں کے لیے 325 امیدوار آئے تھے۔ انٹرویو کمیٹی جس کے چیئرمین ڈپٹی کمشنر حیدرآباد تھے کا دفتر شہباز بلڈنگ میں پہلی منزل پر ہونے کی وجہ سے معذورافراد کے لیے انٹرویو سے پہلے ہی ایک بڑے امتحان کی گھڑی آ پہنچی اور ان کو پہلی منزل پر پہنچنے کے لیے ایک پہاڑ سر کرنا پڑا۔

عمارت میں لفٹ نہ ہونے کی وجہ سے معذور افراد ، لنگڑا کر، سھارا لے کر، اپنے آپ کو گھسیٹ کر، اپنے آپ کو اٹھوا کر پہلی منزل پر ڈپٹی کمشنر حیدرآباد کے دفتر پہنچے اور انٹرویو دیا۔ ان میں کسی کی ٹانگیں نہیں تھیں تو کوئی آنکھوں سے محروم تھا۔ کسی کے بازو ٹوٹے ہوئے تھے تو کوئی پولیوزدہ تھا۔

انٹرویو کمیٹی کے چیئرمین ڈپٹی کمشنر حیدرآباد کا موقف یہ ہے کہ ہم نے انٹرویو گرائونڈ فلور پر کوآپریٹو سوسائٹی کے دفتر میں رکھے تھے مگر چالیس، پچاس کے قریب امیدوار انٹرویو کے وقت سے پہلے ہی آ گئے اور وہ پہلی منزل پر ان کے دفتر تک آ پہنچے۔ ڈپٹی کمشنر کی بات مان بھی لی جائے تو بھی یہ ان کے دفتر کی نااہلی ثابت ہوتی ہے کہ ان کے اسٹاف نے امیدواروں کو صحیع گائیڈ کیوں نہیں کیا اور دوسری بات یہ کہ اس تحریر سے منسلک تصویر سے صاف نظر آرہا ہے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کا اسٹاف پولیس وردی میں معذور افراد کو سیڑھیوں پر سے اٹھا کراوپر لا رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ڈی سی صاحب تکلیف فرما کر خود نیچے تشریف لے جاتے اور گرائونڈ فلور پر بنے ہوئے آفس میں انٹرویو لے کر معذور افراد کو تکلیف اور تماشا بننے سے بچاتے۔

پوری دنیا میں معذور افراد کا خاص کیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ سے لیکر ٹرین اور ہوائی جہاز پر سوار کرانے کے خاص انتظام ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان کے لیے ٹرانسپورٹ میں سیٹیں مخصوص ہوتی ہیں۔ بسوں میں سوار ہونے کے لیے ایک لفٹ کھل کر سامنے آتی ہے جس پر ان کی پوری وہیل چیئر چڑھ جاتی ہے۔ ہالینڈ میں، میں نے دیکھا کہ پورے ملک میں پیدل چلنے والے ہر رستے اور فٹ پاتھ پر مخصوص اینٹیں لگی ہوئی تھی جن پر ابھرے ہوئے پتھر نابینا افراد کے لیے ان کی لاٹھی کو راستہ بتانے کا کام کرتے ہیں دنیا بھر میں ہوٹلوں، ریسٹورںٹس، اسپتالوں، سرکاری دفتروں میں ہر جگہ معذور افراد کی سہولت کے حساب سے رستے بنائے جاتے ہیں۔ مگر افسوس ہمارے ملک میں ان معذور افراد کی سہولت کا خیال رکھنا تو دور ان کے لیے مشکلات پیدا کرنا ایک مشغلہ بن گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).