لاوارث سامان


گندے نالوں کی پلیوں کے نیچے

خالی ڈبوں میں ٹرینوں کے

بیٹھی قبروں،

لاوارثوں کے

تکیوں، قبھوں میں

جو پڑی ہیں گٹھریاں، پٹلیاں

میں ان میں کبھی بھی

نہیں جھانک کر دیکھتا ہوں۔

بلکہ کپڑے میں لپٹے بندھے کو

جن پہ ہوتا ہے دھوکا

ٹونے ٹوٹکے کا

ڈر سے انہیں بھی نہیں کھول کر دیکھتا ہوں

اور یوں بھی کہ

ڈر ہوتا ہے ، ان میں

افیون ہوگی یا اسلحہ

یا چوری کے گہنے

نقدی اور روکڑ

کوئی چور تھا

جس کے پیچھے پولیس تھی

اور وہ اس پوٹ کو

پھینک کر

ہو گیا گم شہر کے دھوئیں میں

اور لگتا کبھی ہے:

وہ بے سدھ، اندھی بہری

بار دانا کی بوری

گویا ہے مجھ سے

راہگیر! تنِک پاس آؤ

میرا سُونا پن آ کر مٹاؤ

میرے پاس بیٹھ جاؤ

دو گھڑی میرا دکھڑا بٹاؤ

سوچتا ہوں ہو گا کیا اس میں

ناج؟ بے پسی سرخ مرچیں؟

برادا یا کوئلہ لکڑی کا،

بھوسا یا کھلی یا دلدّر

کسی پاس کے ہی گھر کا۔

تب ، مجھ سے کہتا ہے

میرا ہی خیال:

خیریت چاہتے ہو

تو لو راہ اپنی

روز کے کُوچنے سے تنگ آ کر

ایک دن پَو پھٹے

ایک گندی سڑیلی

گاڑھے دھبے لگی

چارپائی پے سونے کی

بند منہ کی چدریا کو

کھول کر میں نے جھانکا

اس اندھے کنویں میں

گڑمڑی مارے

جیسے رحمِ مادر میں ہو

مِچی آنکھیں اور ہونٹ

پیوستہ یک بہ دیگر۔

اس نے پوچھا:

“بِاَیِّ

ذَنبِ قَتَلتُ؟”

(جرم کیا تھا میرا

جس پہ ماری گئی میں؟)

ہو گی وہ ، یہی

پانچ، چھے

سات اک سال کی۔

گم متھولا تھا میں

دل میرا تنگ تھا

پھیپھڑے دم بخود

کہ دگر بار ، اب کے

بند آنکھوں نے پوچھا:

“بِاَیِّ ذَنبِ قَتَلتُ ؟”

گو میرے ہونٹ چپکے رہے

ایک سے ایک پر

ڈوبتے میرے دل نے کہا:

اے کسی کی کلی

جس نے مسلا تجھے

اس کی نظروں میں

ایک عورت تھی تو،

پوری عورت۔

اور یہی ایک

مصرف تھا تیرا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).