تصادم کی سیاست یا اصول کی بات


سپریم کورٹ کی طرف سے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو عدلیہ مخالف تقریر پر نااہل قرار دینے اور قید کی سزا دے کر جیل بھیجنے کے علاوہ دو وفاقی وزرا کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے عدلیہ کے رویہ کے بارے میں تند و تیز لب و لہجہ برقرار رکھا ہے۔ نواز شریف نے آج کراچی میں ایک سیمینار اور وکیلوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اورمریم نواز نے گوجرانولہ میں پارٹی کارکنوں سے باتیں کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے سخت رویہ کے باوجود ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ مریم نواز نے تو یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ اسی طرح توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتی رہی اور سزائیں دیتی رہی تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جیلیں کم پڑ جائیں گی لیکن نواز شریف کے جاں نثاروں میں کمی واقع نہیں ہوگی۔ دوسری طرف نواز شریف نے اپنی تقریر میں اس بات پر گلہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک جج نے کہا تھا کہ’ عدالت وزیر اعظم کو جب چاہے طلب کرسکتی ہے اور انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اڈیالہ جیل میں جگہ کی کمی نہیں ہے‘۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ اس قسم کے تبصرے ان پر ذاتی حملہ نہیں بلکہ وزیر اعظم کے عہدہ کی توہین ہیں۔ اس لئے انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو اس بارے میں خط لکھا تھا لیکن انہوں نے وزیر اعظم کے خط کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر اگرچہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک میں انصاف کو مروج کرنے کے لئے آواز بلند کررہے ہیں لیکن یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ نواز شریف اپنی سیاسی جد و جہد میں ہر اس ادارے سے ٹکرانے کا اعلان کررہے ہیں جو ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرے گا۔

نواز شریف نے آج کراچی میں جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے اس کے تناظر میں مبصرین اور تجزیہ نگاروں کو یہ غور کرنا ہوگا کہ کیا یہ ایک مایوس اور بد حواس نواز شریف کی باتیں ہیں جو عدالت کے ہاتھوں نااہل ہونے کے بعد اور اب بد عنوانی کے مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی سیاسی بقا کے لئے ’مرو یا مار دو‘ کا طرز عمل اختیار کررہا ہے یا وہ واقعی ملک میں جمہوریت کی بقا اور اداروں کی حدود کا تعین کروانے کی دیانتدارانہ خواہش کا اظہار کررہے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی معاملات میں ذاتی پسند اور ناپسند کا اس قدر عمل دخل ہو چکا ہے اور متعدد لکھنے والوں نے اپنی ہمدردیوں کو یوں کسی ایک گروہ کے ساتھ وابستہ کرلیا ہے کہ اکثر صورتوں میں سیاسی صورت حال کا جائزہ یا کسی سیاسی لیڈر کے اغراض و مقاصد کا تجزیہ بھی اسی مزاج کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس طرح عام طور سے کسی اصول سے اتفاق یا اختلاف کرنے کی بجائے یہ بات سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کہنے والے کا ماضی کیسا تھا اور اس نے اپنے دور حکومت میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ نواز شریف ہو یا عمران خان اور دوسرے سیاسی لیڈر، ان کے مخالفین اس بات کو زیادہ اہمیت دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کس طرح سیاست میں عروج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ نواز شریف تیس پینتیس سال سیاست میں گزار چکے ہیں اور تین مرتبہ ملک کا وزیر اعظم رہ چکے ہیں لیکن ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق فوجی آمر ضیاء الحق کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے کیوں کہ ضیاء کے دور میں ان کی اعانت اور سرپرستی سے ہی نواز شریف کو سیاست میں پاؤں جمانے کا موقع ملا تھا۔

شریف خاندان کا یہ فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیش آنے والی مشکلات کے حوالے سے تو فطری رویہ تھا کہ بھٹو کے دشمن کے ساتھ دوستی کرکے بھٹو کی سیاست اور اقدامات کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا گیا ۔ لیکن نواز شریف اور ان کے حامی خود اس حوالے سے بات کرنے اور اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے اور مخالفین انہیں کبھی یہ بھولنے نہیں دیتے کہ ان کا سیاست میں ورود کیسے ہؤا تھا۔ اسی طرح عمران خان کے مخالفین ان کی باتوں پر غور کرنے یا سامنے لائے جانے والے اصولوں پر بحث کرنے کی بجائے اس بات پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ وہ دراصل فوج کے تعاون سے کسی طرح برسر اقتدار آنا چاہتے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے خود نواز شریف عمران خان کو خفیہ قوتوں کا لاڈلا قرار دیتے رہتے ہیں جبکہ عمران خان کبھی یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے کہ واضح کرسکیں کہ نواز شریف جمہوریت کی نہیں بلکہ آمریت کی پیداوار ہیں۔ حالانکہ ملک کی دو بڑی پارٹیوں کی قیادت کرنے والوں کی باتوں کو ان کے ماضی یا ’خفیہ تعلقات‘ کے حوالے سے بیان کرنے کی بجائے ان کی حکمت عملی، سیاست، جمہوریت کے بارے میں رویہ اور ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں ان کی پالیسی کے حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاست بجائے خود ایک استاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کوچہ کی سیاحی کے دوران ہر شخص میں تبدیلیاں رونما ہو تی ہیں۔ اور وہ خود بھی ماضی کی طرف مڑ کر دیکھے تو اسے حیرت ہوگی کہ کبھی اس کا مؤقف اس طرز عمل کے برعکس تھا جو وہ اس وقت اختیار کررہا ہے۔

تاہم اس صورت حال میں نواز شریف عدالتوں کے حوالے سے خواہ کیسا ہی مؤقف اختیار کریں اور ان کی باتیں خواہ کیسے ہی اصولوں پر استوار ہوں ، انہیں پرکھتے ہوئے مخالفین کے علاوہ ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی ایک دفعہ تو سوچنا پڑے گا کہ اگر انہیں ان اندیشوں کا ادراک تھا تو جب انہیں اسمبلی میں اکثریت ملی اور ملک میں جمہوری روایت اور اداروں کی حدود متعین کرنے کا موقع ملا تو وہ اس میں کیوں ناکام رہے۔ اس حوالے سئ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ 2013 میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف سرگرم عمل رہی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ کسی بھی طریقہ سے اس حکومت کو ختم کیا جاسکے۔ اس مقصد کے لئے خود نواز شریف نے عدالت اور فوج، دونوں کا آلہ کار بننے کو ترجیح دی اور ملک کی منتخب سیاسی پارٹی کے حق حکومت کے لئے اسی گرمجوشی سے بات کرنے میں ناکام رہے جس طرح وہ اب عدالتی مداخلت کی وجہ سے اپنی وزارت عظمیٰ جانے پر چین بچیں دکھائی دیتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو جب توہین عدالت کے قانون کے تحت سزا دے کر نااہل قرار دیا گیا تو نواز شریف نے اسے انصاف کی فتح قرار دیا تھا۔ اس وقت انہیں یہ احساس نہیں ہؤا تھا یہ انصاف کی نہیں بلکہ ایک گھمنڈی اور سیاسی عزائم رکھنے والے جج کا عناد ہے جو ملک میں جمہوریت کا راستہ کھوٹا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اسی طرح جب میمو گیٹ کیس کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی حکومت کو کمزور کرنے یا گرانے کی سازش کی گئی تو نواز شریف نے خاموش رہنے یا اس طریقہ کار کی مخالفت کرنے کی بجائے خود اس میں فریق بننے کی کو ترجیح دی حالانکہ ان کی پارٹی کو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت میسر تھی اور انہیں خبر ہونی چاہئے تھی کہ جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالنے سے ان کی حکومت بھی متاثر ہوگی۔ لیکن اس وقت انہیں لگتا تھا کہ پیپلز پارٹی کا کام تمام کرنے میں اگر وہ عسکری اداروں کی مدد کریں گے تو ’انعام‘ میں انہیں وفاق کی حکومت بھی مل جائے گی۔ گویا عوام کے حق رائے کے احترام کا جو اصول وہ اس وقت نہایت گرمجوشی سے بیان کرتے ہیں، وہ 2012 میں انہیں یاد نہیں تھا۔ اسی لئے ان کے مخالفین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 2013 میں انہیں حکومت عوام کی حمایت کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک جمہوری حکومت کے خلاف عسکری اداروں کا دست و بازو بننے کی وجہ سے عطا ہوئی تھی۔

مکافات عمل کا یہ آئینہ البتہ صرف نواز شریف کا بھیانک چہرہ ہی سامنے نہیں لاتا بلکہ اس میں ملک میں سیاست کرنے والے بیشتر لیڈروں کو اپنی ایسی ہی بگڑی ہوئی شکلیں ہی دکھائی دیں گی۔ اس لئے اس بات سے مفر ممکن نہیں ہے کہ اپنی غلطیاں معاف کروانے کے لئے دوسروں کی غلطیوں کو معاف کردیا جائے تاکہ ملک میں اصولوں کی بنیاد پر جمہوری عمل کے تسلسل اور اداروں کی خود سری یا درپردہ ساز باز کا راستہ روکنے کے لئے سب مل کر آگے بڑھ سکیں۔ نواز شریف سمیت جب تک ملک کے سیاست دان یہ سمجھتے رہیں گے کہ وہ اپنا راستہ سیدھا کرنے کے لئے بعض اداروں کی مدد لے سکتے ہیں لیکن جب یہی تلوار ان کی طرف بڑھے گی تو وہ اپنی گردن بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے ، اس وقت تک ملک میں جمہوریت کا حقیقی روپ سامنے نہیں آئے گا اور نہ ہی عام آدمی کو اس کے ثمرات ملنا شروع ہوں گے۔ ملک کے عام شہری اس وقت اگر سیاست سے متنفر ہیں یا سیاست دانوں پر بھروسہ نہیں کرتے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ سیاست دان صرف ووٹ لینے کے لئے چاپلوسی کرتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد وہ طاقت کا مرکز و محور عوام یا ان کے منتخب اداروں کو سمجھنے کی بجائے طاقت کے دیگر مراکز کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ دوسری طرف سیاست دان بھی اس زعم میں مبتلا ہیں کہ جوڑ توڑ کرکے اگر وہ سیاسی حریفوں کو گرانے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کی سرپرستی کرنے والے طاقتور ادارے کامیابی کے لئے راہ ہموار کردیں گے۔ ایسے میں عوام کی براہ راست خوشنودی ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ نواز شریف خود کئی مرتبہ اس سراب کو مقبولیت سمجھنے کی غلطی کرچکے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال کے طور پر پاناما پیپرز اسکینڈل سامنے آنے کے بعد پارلیمنٹ پر اعتماد کی بجائے ، درپردہ جوڑ توڑ اور عدالتی کمیشن کے ذریعے معاملات طے کروانے کی کوششوں کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ اگر نواز شریف نے پارلیمنٹ کو پوری طرح اعتماد میں لیا ہوتا اور وہاں ہونے والے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہوتا تو وہ آج عدلیہ کی ’فرعونیت‘ کا شکوہ نہ کررہے ہوتے۔

اس کے باوجود نواز شریف نے آج کراچی میں کی گئی تقریوں میں جو اصول بیان کئے ہیں ، ان سے اختلاف ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے دو بنیادی باتیں کی ہیں۔ ایک یہ کہ کیا سپریم کورٹ کا صوابدیدی اختیار (سو موٹو) منتخب حکومت کے خلاف تازیانے کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کیا اب سپریم کورٹ انتظامیہ کو جزو معطل بنانے کے بعد مقننہ کے قانون سازی کے حق کو محدود کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ دونوں سوال بے حد اہم ہیں۔ اس کا جواب بنیادی طور پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو دینا ہے جو ملکی سیاست پر اپنے نقوش ثبت کرنے کے جوش میں قانون کی مقررہ حدود کو وسیع کرنے میں مصروف ہے۔ سپریم کورٹ کا رویہ اعتدال اور مفاہمت کی بجائے اشتعال اور اختیار پھیلانے کی خواہش پر استوار دکھائی دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کو طے کرنا ہے کہ وہ عوام کے حقوق کے تحفظ کے نام پر کس حد تک قانون کے مطابق انصاف سے ‘گریز ‘ کرسکتی ہے ۔ اور اس طرز عمل کے ملک کے جمہوری نظام کے علاوہ سپریم کورٹ پر بطور ادارہ کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر اس سچائی کو سجھنے کی کوشش نہ کی گئی جو نواز شریف نے کراچی میں بیان کی ہے تو ہو سکتا ہے آنے والے وقت میں اس کی اصلاح کا موقع بھی نہ مل سکے۔ یہ بات سپریم کورٹ کے علاوہ ملک میں جمہوری عمل کے ذریعے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے سب عناصر کو بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali