’ہم سب‘ کے درویش اور محبتوں کی بارشیں


میری ایک غزل کے چند شعر ہیں

دھرتی کو میں ترسا ہوں۔۔۔ بارش کا اک قطرہ ہوں

ہجر کے برسوں پر بھاری۔۔۔ وصل کا میں اک لمحہ ہوں

اپنی ذات سے غافل ہوں۔۔۔ آنکھیں ہیں اور اندھا ہوں

آج دو فروری 2018 ہے اور میں PIA 797 میں بیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا ہوں۔ یہ فلائٹ 12 بجے دوپہر لاہور سے چلی ہے اور پندرہ گھنٹوں کی طویل پرواز کے بعد 5 بجے شام ٹورانٹو پہنچے گی۔ اس طرح یہ 34 گھنٹوں کا دن میرا سال کا سب سے لمبا دن بن جائے گا۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں اس طویل ہوائی سفر کا فائدہ اٹھائوں اور ’ہم سب‘ کے ان دوستوں کے لیے‘ جو میرے اگلے محبت نامے کا انتظار کر رہے ہیں‘ ہوائی جہاز میں بیٹھ کر ایک کالم لکھ دوں۔

BEE JEES کا گانا ہے LOVE IS IN THE AIR

میں نے دسمبر 2017 میں جب اپنے دوستوں کو بتایا کہ میں تین ہفتوں کے لیے پاکستان جا رہا ہوں تو کچھ دوست بہت حیران ہوئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میں چودہ سال سے پاکستان نہیں گیا تھا اور کچھ دوست بہت پریشان ہوئے۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ نہ تو میں کسی اخبار‘ ریڈیو یا ٹی وی کو انٹرویو دوں اور نہ ہی اپنے غیر روایتی خیالات اور نظریات کا اظہار کروں مبادا میری جان کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ ایک دوست تو اتنی فکرمند ہوئیں کہ انہوں نے وجاہت مسعود سے رابطہ قائم کیا اور پوچھا کہ آپ نے ڈاکٹر سہیل کی سیکورٹی کا کیا انتظام کیا ہے؟۔ وجاہت مسعود نے انہیں تسلی دی کہ سب اچھا ہوگا۔

جب میں لاہور پہنچا تو دو تین دن کے بعد ہی سخت بیمار ہو گیا۔ شاید میرے جسم کو پاکستانی فضا کے گردو غبار‘ کثافتوں اور آلائشوں کی عادت نہ رہی تھی اس لیے ردِ عمل شدید تھا۔ نزلہ‘ زکام‘ کھانسی اور بخار۔ رات کو سوتا تو یوں لگتا جسم سے چنگاریاں نکل رہی ہیں۔ میری بہن عنبر نے مشورہ دیا کہ میں ہسپتال جائوں لیکن میں ڈاکٹر ہونے کے باوجود دوسروں کو دوائیاں تجویز کرنے اور خود بھی دوائیاں کھانے سے کتراتا ہوں۔ آخر ایک دن اتنا نڈھال ہو گیا کہ میرے بہنوئی اور دوست ارشاد میر مجھے ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر نیر نے ہسٹری لی اور معائنہ کیا۔ کہنے لگے ’ڈاکٹر سہیل آپ مریض بن گئے ہیں۔ آپ کا درجہ حرارت 101 ہے۔ نبض 114 ہے۔ آپ کو UPPER RESPIRATORY TRACT INFECTION ہے۔ انہوں نے مجھےANTIBIOTICS اورANALGESICS  لکھ کر دیے جو میں چند دن تک کھاتا رہا۔ ایک دن تو میں اتنا بددل ہو گیا کہ وقت سے پہلے کینیڈا واپس لوٹنے کا سوچنے لگا۔

طبیعت قدرے بہتر ہوئی تو ’ہم سب‘ کے دوستوں کا خیال آیا۔ عنبر نے اپنے ڈرائیور منیرحسین سے کہا کہ مجھے وجاہت مسعود کے گھر لے جائے۔ پہلے تو ہم خیابانِ امین پر کھو گئے لیکن پھر ہم نے ان کا بے نام اور بے نمبر گھر تلاش کر لیا۔ منیر نے بیل بجائی تو ایک خاتون نکلیں۔ منیر نے کہا ’کینیڈا سے ڈاکٹر سہیل وجاہت مسعود سے ملنے آئے ہیں‘ چند لمحوں کے بعد وجاہت مسعود آئے اور ہم دونوں درویش ایسے گلے ملے جیسے کئی جنموں سے بچھڑے ہوئے تھے۔ ان کی اپنائیت اور محبت نے میرا دل موہ لیا۔ وہ مجھے اپنے دفتر لے گئے جہاں حسنین جمال اپنا تخلیقی کام کر رہے تھے۔ بڑے تپاک سے ملے۔ ملاقات کے بعد میں نے حسنین جمال سے درخواست کی کہ وہ ’ہم سب‘ پر اپنی تصویر بدلنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں۔ ان کی تصویر کی سختی اور کرختگی ان کی شخصیت کی نرمی اور شگفتگی کی عکاسی نہیں کرتی۔

مجھے وجاہت مسعود کا وہ دفتر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی جہاں وہ اپنے شاعرانہ نثر سے بھرپور کالموں کو جنم دیتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا یہ آپ کا CREATIVE LABOR ROOM ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے حسنین جمال وہ MIDWIFE ہیں جو وجاہت مسعود کی CREATIVE DELIVERY میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

وجاہت مسعود نے میرا تعارف اپنی بیوی‘ محبوبہ اور نظریاتی ہم سفر تنویر سے کروایا۔ کہنے لگیں ’ ڈاکٹر سہیل! میں آپ کے اور ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کے کالم بڑے شوق سے پڑھتی ہوں‘

’ان میں ایسی کیا خاص بات ہے؟‘ میں متجسس تھا

’ آپ دونوں سنجیدہ اور گنجلک مسائل کے حل عام فہم زبان میں پیش کرتے ہیں۔ اردو ادب میں ایسے کالمز کی بہت کمی ہے‘

وجاہت اور تنویر نے مجھے دعوت دی کہ میں ایک دفعہ پھر ان کے گھر آئوں تا کہ ان کے دوستوں سے مل سکوں۔ چند دنوں کے بعد جب میں لوٹا تو وجاہت مسعود نے تیس سے چالیس دوستوں کو بلا رکھا تھا۔ اس شام تنویر نے ہمیں کباب‘ چکن‘ بریانی کے علاوہ اور بھی بہت سے لذیذ کھانے کھلائے۔ دوستوں نے ادب‘ مذہب‘ نفسیات اور سیاست پر بے تکلف مکالمہ کیا۔ اس محفل میں راجہ صاحب بھی تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں ان سے بہتر ساقی نہیں دیکھا۔ وہ مہمانوں کو محبت بھرے جام ایسے پیش کرتے تھے جیسے زبانِ بے زبانی سے کہہ رہے ہوں CAN I ENTICE YOU. اس شام ان کے اندازِ دلربائی سے نجانے کتنے مومنوں کا ایمان متزلزل ہو گیا۔ اس شام تحریم عظیم بھی ایک خوبصورت تحفہ لیے مجھ سے ملنے آئیں۔

لاہور کی محفل کے بعد میں نے اپنے ٹورانٹو کے دوستوں امیر حسین جعفری اور سید عظیم سے کہا کہ مجھے اسلام آباد لے جائیں تا کہ میں ’ہم سب‘ کے دیگر ساتھیوں سے مل سکوں۔ وہ مجھے موٹر وے کے خوبصورت پہاڑ اور وادیاں دکھاتے ہوئے اسلام آباد لے گئے جہاں حاشر اور لینہ کے COFFEE PLANNET میں ہماری ملاقات فرنود عالم‘ ظفر اللہ‘ لینہ‘ حاشر اور عاصم بخشی سے ہوئی۔ میں عاصم بخشی کے وسیع مطالعہ اور درویشانہ شخصیت سے بہت متاثر ہوا۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے یوں لگتا ہے جیسے آپ کی شخصیت ایک کچھوے کی طرح ہے۔ بظاہر فلسفیانہ الفاظ کی سخت ڈھال نظر آتی ہے جس کے نیچے ایک حساس اور نرم خو شاعر چھپا ہوا ہے۔ عاصم بخشی نے اپنا مجموعہَ کلام ’شاہراہَ شوق‘ مجھے تحفے کے طور پر دیا اور مجھے بتایا کہ وہ میری سوانح عمری THE SEEKER کے بارے میں ایک دلچسپ تبصرہ لکھنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

چونکہ اس دن وقار احمد ملک سے ملاقات نہ ہو سکی اس لیے ہم ان سے اگلے دن ملے۔ وہ ہمیں اسلام آباد کے خوبصورت پہاروں کے دامن میں ایک باغ میں لے گئے۔ چونکہ ملاقات میں تشنگی رہی اس لیے انہوں نے لاہور آ کر دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا۔ اگلے دن عدنان کاکڑ‘ حسنین جمال ‘وقار احمد اور وجاہت مسعود دوبارہ جمع ہوئے اور ہم نے مل کر لنچ کھایا۔ اس دن تنویر سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ انہوں نے شاعروں ‘ادیبوں اور دانشوروں کی محبت اور شادی کے بارے میں اپنا فلسفہ بیان کیا۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ اپنے خیالات کے بارے میں ایک کالم لکھیں تو بہت سے لوگ اس سے استفادہ کرسکیں گے۔ میں بہت کم ایسی بیویوں سے ملا ہوں جو تنویر کی طرح اپنے محبوب شوہر کو اس کی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرتی ہیں اور اس کے ایک بہتر معاشرے کے خواب کو شرمندہِ تعبیر کرنے میں اس کی مدد کرتی ہیں۔ تنویر سے میرے مکالمے کے دوران وجاہت مسعود بھی اپنی بیگم کا بے لاگ تبصرہ سن کر زیرِ لب مسکراتے رہے۔

مجھے تنویر نے یہ بھی بتایا کہ وہ FAMILY OF THE HEART کی ممبر ہیں اور پرویز صلاح الدین انہیں باقاعدگی سے کینیڈا سے ہمارے پروگراموں کی تصاویر بھیجتے رہتے ہیں۔

لاہور کے قیام کے دوران ایک دن مجھے عدنان کاکڑ نے اپنے دفتر بلایا اور ایسا لذیذ لنچ کھلایا جس میں گھر کی کڑی اور بازار کے لاہور کے مشہور چکڑ چھولے شامل تھے۔ مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ عدنان کاکڑ اخبار‘ رسائل اور انٹرنٹ میگزین کے این سائیکلوپیڈیا ہیں۔ انہوں نے ’ہم سب‘ کی کامیابی اور مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ ’ہم سب‘ کا اس طرح خیال رکھتے ہیں جس طرح کوئی ماں اپنے بچے کا خیال رکھتی ہے۔

ایک دن حسنین جمال نے فون پر دو آدھی ملاقاتیں کروائیں۔ ایک رامش فاطمہ اور دوسری زاہد ڈار سے۔ اگر ان دونوں سے بالمشافہ بات ہو جاتی تو لطف دوبالا ہو جاتا۔ میں نے زاہد ڈار سے کہا کہ آپ نے ساری عمر کتابیں پڑھنے اور ان پر غور کرنے میں گزار دی۔ کہنے لگے اب میں 82 برس کا ہو گیا ہوں۔ پڑھتا کم ہوں غور زیادہ کرتا ہوں۔ میں نے سوچا کاش ہم سب ادیب ایسا کر سکتے۔

پاکستان کے قیام کے دوران ایک پروفیسر صاحب نے مجھے دعوت دی کہ میں ان کے ماسٹرز اور ایم فل کے طلبا و طالبات سے خطاب کروں۔ میں سیمینار دینے ہال میں داخل ہوا تو مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ سب نوجوان مرد ایک طرف بیٹھے تھے اور سب نوجوان عورتیں دوسری طرف برقعہ پہن کر بیٹھی تھیں۔ میرے لیکچر کے بعد وہ سب برقعہ پوش طالبات میرے قریب آ گئیں۔ ایک نے سرگوشی کی SIR PIC ۔ میں کچھ نہ سمجھا۔ میں نے وضاحت چاہی تو کہنے لگیں ’سر کیا میں آپ کے ساتھ ایک پکچر اتروا سکتی ہوں؟‘۔ میں راضی تو ہو گیا لیکن سوچتا رہا کہ اس تصویر میں برقعہ زیادہ اور وہ خود کم نظر نہ آئیں گی۔ تصویر کے بعد انہوں نے آٹوگراف کی فرمائش کی۔ میں نے ان کی ڈائری میں اپنا ایک شعر لکھ دیا

ہمارے گھر کی ہر اک چیز بے گھروں کی طرح

شریر بچوں کی بے ربط خواہشوں کی طرح

وہ تصویر اتروا کر اور آٹو گراف لے کر بہت خوش ہوئیں۔ اس کے بعد دیگر طالبات کو بھی حوصلہ ہوا۔ میں نے اگلے آدھ گھنٹے میں نجانے کتنی برقعہ پوش خواتین کے ساتھ تصویر اتروائی اور ان کی ڈائری میں شعر لکھے۔

تقریب کے بعد میں نے پروفیسر صاحب سے کہا کہ لڑکیوں نے بظاہر تو برقعہ پہن رکھا تھے لیکن در پردہ وہ اپنے جوش اور جذبے‘ ذوق اور شوق کا اظہار کر رہی تھیں۔ پروفیسر صاحب کہنے لگے ہو سکتا ہے بہت سے طالبات برقعہ بادلِ ناخواستہ پہنتی ہوں کیونکہ وہ یونیفارم کا حصہ ہے۔ میں نے پہلے نہ کبھی سنا تھا اور نہ کبھی دیکھا تھا کہ برقعہ یونیفارم کا حصہ ہو۔ میں نے سوچا پاکستان پچھلی چند دہائیوں میں کتنا بدل گیا ہے۔

یکم فروری 2018 میرا لاہور میں آخری دن تھا۔ صبح ہی صبح عدنان کاکڑ کا فون آیا کہنے لگے کہ کوئی نوخیز چیمہ صاحب ہیں جو آپ کا نمبر مانگ رہے ہیں۔ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا نام ہی اتنا شاعرانہ ہے نمبر دے دیں۔ چنانچہ نوخیر صاحب آ گئے کہنے لگے میں نے سنگِ میل سے آپ کی تین کتابیں خریدی ہین آٹو گراف لینے آیا ہوں۔ پھر کراچی سے سجاد احمد اپنی بیگم آمنہ کے ساتھ آئے اور مجھے اپنی پینٹنگز کی کتاب تحفے میں دی۔ تھوڑی دیر کے بعد کاکڑ صاحب بھی آ گئے اور ہم سب کافی دیر تک ’ہم سب‘ کی باتیں کرتے رہے۔ میں نے کاکڑ صاحب سے کہا کہ ان کا اور وجاہت صاحب کا لگایا ہوا پیڑ اب پھل لا رہا ہے۔

شام کو مہمان چلے گئے تو میں نے اپنا بوریا بستر باندھنا شروع کر دیا۔ ایک سوٹ کیس کپڑوں کا تھااور ایک سوٹ کیس ان کتابوں کا تھا جو پاکستان کے سفر کے دوران ادیبوں‘ شاعروں اور دانشوروں نے مجھے تحفے کے طور پر دی تھیں۔

سونے سے پہلے میں نے عفت نوید کو کراچی فون کیا اور معذرت کی کہ اپنی بیماری اور ’ہم سب‘ کے درویشوں کی محبتوں کی بارش میں اتنا بھیگ گیا تھا کہ کراچی نہ جا سکا۔ عفت نوید کی آواز بھی ان کی تحریر کی طرح شفیق و شیریں تھی۔

اب میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں کیونکہ میری PIA 797 کی فلائٹ عنقریب ٹورانٹو ایر پورٹ پر لینڈ کرنے والی ہے اور حفاطتی بند باندھنے کا وقت آ گیا ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail